اٹھو!کہ وقت آیا

جمعرات 10 ستمبر 2015

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

اگر گوگل پر سرچ کیاجائے توپاکستان میں ٹریڈ یونین فیڈریشنزکی بھرمار ہے،ہر نام کی مزدور تنظیمیں بظاہر موجود ہیں،کچھ تو ویب سائٹس کو روزانہ وار اپ ڈیٹس بھی کرتی ہیں۔اسی طرح بے شمار ٹریڈ یونینز ملک بھر کے رجسٹرارز کے پاس درج ہیں۔مگر عملی طور پر پاکستان میں مزدور تحریک انتہائی نحیف اور بے جان پائی جاتی ہے۔حکمرانوں کی طرف سے بھی مزدوروں پر نظریاتی اور عملی حملوں میں کسی طور کمی نہیں آرہی اور نجی شعبے میں تو مزدوروں کا کوئی پرسان حال نظر نہیں آتا ۔

نجی شعبے میں ہر روز سینکڑوں مزدوروں کو روزگار سے محروم کیا جاتا ،نام نہاد ٹھیکے داری نظام کی بنا پر مزدوروں کو وہ کم ترین حقوق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے جن کا ذکر لیبر لاز اور قانون کی کتابوں میں درج ہے۔

(جاری ہے)

ہر روز متعدد جان لیوا حادثات میں مزدور گھرانے اپنے کمانے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یا تو کھو دیتے ہیں یا پھر حادثات کی نذرہونے والے محنت کش اپنے غربت کی لکیر سے نیچے سسکتے گھرانوں میں اپانج اور غیر فعال بوجھ بن کر انکی غربت ،بے بسی اور مشکلات میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔

سیفٹی قوانین ‘کا ذکر گاہے بگاہے سننے میں آتا ہے مگر نہ ختم ہونے والے خونی حادثات بتاتے ہیں کہ عملی طور پر ’حفاظتی اقدامات‘کا وجود شائد ہی کسی فیکٹری یا ادارے میں ہو۔وہ ادارے جن کے ’ایڈمن آفس‘ کے درودیوار ”دس لاکھ محفوظ گھنٹے“کے سرٹیفیکیٹس سے بھرے اور سجے ہیں ،وہاں بھی حادثات کا ہوتے رہنا معمولات میں شامل ہے،بس ان واقعات کو منظر عام پر نہیں آنے دیا جاتا۔

ستمبر کے پہلے ہفتے پے درپے جان لیوا حادثات میں مزدوروں کی اموات ہورہی ہیں اور جو زخمی ہوگئے ہیں وہ نہ جیتوں میں ہیں نہ مروں میں۔ناقص اور زائد المعیادبوائلر پھٹنے سے313فیکٹری گگھڑمنڈی میں80سے زائد مزدور متاثر ہوئے ہیں اورآٹھ اموات کے بعد خدشہ ہے کہ16 شدید زخمی مزدوروں میں سے مزید لقمہ اجل نہ بن جائیں۔اسی طرح لاہور میں فیکٹری کی چھت گرنے سے چار مزدور موقع پرہی ہلاک ہوگئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔

گزشتہ ماہ مظفر گڑہ میں میونسپلٹی مزدورخطرناک گٹروں کی صفائی کے لئے بغیر گیس ماسک اور حفاظتی اقدامات اتارے گئے ،گٹر میں زہریلی گیس کی وجہ سے پانچ سیور مین موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔گزشتہ ماہ صادق آباد میں واقع ایک شوگر مل میں مزدور ناقص سیفٹی کی وجہ سے جان بحق ہوگیااور ایک موٹر سائیکل اسمبلنگ فیکٹری میں مزدور کا بازو مشین میں آکر اس کو زندگی بھر کے لئے معذور کرگیا۔

ان واقعات پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ابھی سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے لگائے گئے زخم مندمل نہیں ہوئے۔یہ اندھناک حادثہ جوتین سال قبل کراچی میں ’علی انٹر پرائیزز‘ نامی گارمنٹس بنانے والی فیکٹری میں 11ستمبر2012ء کو ہوا تھا۔حادثے میں 289مزدور،جن میں مرد ،خواتین اور بچے شامل تھے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے مگر بہت سی اموات بعد میں بھی ہوئیں ۔

اس حادثے کے بارے میں پہلے پہل کہا گیا کہ یہ بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوا مگر اب ریاست پاکستان کی معتبر ایجنسیاں کہتی ہیں کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ منظم قتل عام تھااور متحدہ قومی موومنٹ کے ذمہ داروں اور کارکنوں نے بھتہ نہ ملنے کی پاداش میں یہ سفاک قتل عام کیا تھا۔11ستمبر کو پاکستان کی سب سے ہولناک دھشت گردی کی تیسری برسی ہے مگر اب تک اس حادثے کے ذمہ داروں کے خلاف نہ تو دکھنے والی کاروائی عمل میں لائی گئی ہے نہ پاکستان بھر میں مالکان ،سرمایہ داروں اور حکومت کی مجرمانہ نااہلی کی وجہ سے مزدوروں کی پے درپے اموات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کا کوئی طریقہ کار وضع کیا گیا ہے،مزدور کی موت پر پاکستان میں کوئی سزاجزا کا طریقہ کار نہیں ہے ۔

کمشنر کمپنسیشن کے دفاتر لیبر عدالتیں قائم تو ہیں مگر بے اثر،غیر فعال اور مزدوروں کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی بجائے طویل اور لاحاصل عدالتی کاروئی سے مزدوروں کے گھروں کے برتن تک بکوادینے والی۔مزدور قوانین زیادہ تر سرمایہ دار کو بے لگام اختیارات اور جبر کے حربے فراہم کرتے ہیں اور اگر کہیں مزدور کے حق میں ہیں تو ان قوانین پر عمل درآمد کا نہ کوئی طریقہ کار ہے نہ جانچ پڑتال کا کوئی نظام ۔

خونی حادثات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ستم یہ ہے کہ بیسیوں درجن مزدور فیڈریشنز اور ہزاروں ٹریڈ یونیز‘ناقص سیفٹی سسٹم،مجہول لیبر لاء ز کھلے عام ظلم وستم کے واقعات اور مزدوروں کے خلاف دیگر جرائم پر گہری خاموشی کے عالم میں ہیں۔حکمرانوں نے نج کاری کا طبل جنگ بجایا ہی نہیں اس پر عمل بھی شروع کردیا ہے۔پچھلے ماہ ”نیشنل پاورکنسٹریکشن کارپوریشن “جو کہ واپڈا کاہی ادارہ تھا‘ کی نج کاری اتنی آسانی سے ہوگئی کہ کسی مزدور تنظیم ،فیڈریشن یا کنفیڈریشن نے ’چوں‘ تک نہیں کی۔

بد ہ کے بدہ احتجاج کرنے والی ہائیڈرو یونین نے اس نج کاری کے دنوں میں علامتی احتجاج بھی بند کئے رکھا۔اسی طرح ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس کی عملاََ نج کاری کردی گئی یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ عمل نام نہاد ”سرمایہ کاروں “ کی عدم سرمایہ کاری کی وجہ سے سے ابھی مکمل نہیں ہوسکا۔نج کاری کا یہ عمل جاری وساری ہے۔پی آئی اے،پاکستان اسٹیل ملز اور واپڈا کی بھاری منافع کمانے والی کمپنیاں اس سال کے آخر تک نج کاری کی خونی دیوی کے قدموں بھینٹ چڑھا دی جائیں گی۔

بجلی کے شعبے کی یونین پاکستان کی سب سے بڑی یونین ہے،اسکے پاس افرادی قوت اور مالیاتی وسائل کی بہتات ہے اور پھر اس یونین کے سیکریٹری جنرل خورشید احمد پاکستان کفیڈریشن کے بھی سیکریٹری جنرل ہیں جن سے بہت بڑی بڑی فیڈریشنز اور یونینز کا الحاق ہے۔مگر واپڈ ا کی نج کاری کے خلاف ردعمل موجود ضرور ہے مگر ایسا نہیں کہ حکمرانوں کو انکی حرکت سے باز رکھ سکے۔

نج کاری کے خلاف تحریک کوایک یونین کی حد تک محدود رکھنے کی ’شعوری منصوبہ بندی اور عملی کیفیت‘ اس طاقت کو معرض وجود لانے سے قاصر ہے جو پورے ملک کے مزدوروں کو نج کاری کی سازش کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بناسکتی ہے۔پاکستان بھر کے محنت کشوں کو آخر کیوں نہیں ”نج کاری “ کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیاجاتا؟ اسکی ذمہ داری تمام مزدورراہنماؤں اور فیڈریشنز اور کنفیڈریشن پر ہے۔

اسی طرح ملک بھر میں مزدوروں کی عمومی زبوں حالی ،ان پر مالکان،ریاست اور سرمایہ دارانہ عالمی اداروں کی طرف سے کئے جانے والے حملوں کے جواب میں ویب سائیٹس پر موجود” معروف فیڈریشنز “ اور لیبر ڈیپارٹمنٹس میں رجسٹرڈ یونینز گونگے بہروں کا کردار اداکررہی ہیں۔موجودہ دور میں مزدوروں پر ہونے والے حملوں کے جواب میں کہرام برپا ہوجانا چاہئے تھا،بڑے بڑے جغادری لیڈر اپنی زبانوں کو دانتوں میں دبائے بیٹھے ہیں۔

وہ نج کاری کے خلاف نظریاتی اور عملی لڑائی لڑنے کی بجائے مزدوروں میں بے دلی اور شکست خوردگی پھیلانے میں مصروف ہیں۔پچھلے عرصے میں سیالکوٹ،گوجرانوالہ ،ڈسکہ ،سہووالہ میں تازہ دم اور نوجوان مزدوروں نے استحصال ،ظلم وجبر ،چھانٹیوں اور کم ترین معاوضوں کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کا آغاز کیااور تمام تر ریاستی اور حکومتی زیادتیوں اور سرمایہ دارانہ ہتھکنڈوں کا مردانہ وار مقابلہ کرکے مزدور تحریک میں ایک نئی روح پھونکی ہے ۔

جبکہ” سکہ بند“ مزدورتنظیمیں اور انکے ’راہنما‘ کبھی کبھی واجبی طور پر منظر عام پر آتے ہیں مگر لائحہ عمل دینے کی
بجائے تحریک کو ہوا میں معلق ہی رہنے دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ روائتی مزدور قیادتوں کی جانب سے بے حسی اور بے بسی کامظاہر دہائیوں سے جاری ہے۔مگر دوسری طرف یہ کیفیت لمبا عرصہ تک یونہی نہیں رہ سکتی،اگر مزدورراہنما ،راہنما ہونے کا کردار ادا نہیں کریں گے تو پھر مزدوروں کو اگر زندہ رہنا ہے تو انہیں ازخود فیصلہ کرنا ہوگا ۔نہ ختم ہونے والے استحصال،حملوں اور بدترین زندگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے محنت کش طبقے کو اپنی صفوں سے تازہ دم ،دیانت دار اور ہر قسم کی مصلحت سے پاک قیادتوں کو ابھارکرجدوجہد کرنا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :