بجلی بحران کا خاتمہ ممکن ہے!

منگل 8 ستمبر 2015

Hafiz Muzzammel Rehman

حافظ مزمل رحمان

پاکستان میں توانائی کا بحران جاری ہے۔ گذشتہ ایک دہائی سے اس میں شدت آئی ہے۔ اس دوران بحران میں اضافہ تو ہو تا رہا مگر اس میں کمی کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی گئی اور نہ ہی توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کئے گئے۔۔ ایک آدھ منصوبوں کا ذکر کرنا ہمارے نزدیک ضروری نہیں کیونکہ ان منصوبوں سے مجموعی طورپر کوئی فرق نہیں پڑا ۔ توانائی کے متبادل اور قابل تجدید وسائل کی پاکستان میں کمی نہیں یہ وافر مقدار میں موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے ان پر کام نہیں کیا گیا۔

پاکستان توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سب سے زیادہ انحصار قدرتی ایندھن کے ذرائع پر ہے۔ پاکستانی قوم ہر سال پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر ۲۱ بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ کر رہی ہے اور امسال 2015ء میں یہ رقم 40بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

(جاری ہے)

توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور اس میں ترقی کے لیے قائم کردہ بورڈ (AEDB) کے قیام کے بعد سے تاحال کوئی حوصلہ افزا ء نتائج اس بورڈ نے دےئے۔

درجن پھر منصوبے شروع کئے گئے مگر ان تمام منصوبوں سے ابھی تک قابل ذکر توانائی قومی گرڈ میں شامل نہیں کی گئی ابھی تک توقعات پر انحصار ہو رہا ہے۔ ہر بار قوم کو خو شخبری دی جاتی ہے کہ بس اگلے چند دنوں میں 500سے 1000ہزار میگا واٹ بجلی کو قومی گرڈ اسٹیشن میں شامل کر لیا جائے گا۔ دراصل ایسا اس لیے بھی نہیں ہو سکا کہ نجی شعبہ کے ساتھ اشتراک صحیح معنوں میں نہیں ہوا۔

نجی شعبہ کے لئے رمایہ کاری کے لیے ماحول کو پر کشش نہیں بنایا جا سکا۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ان تمام ذرائع سے نوازا ہے جو دنیا بھر میں توانائی کے حصول کے لئے استعمال ہونے والے منصوبوں کی بنیاد ہوتے ہیں۔
بجلی کے بحران میں شدت آرہی ہے اس کے ساتھ اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بجلی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ اگر ڈیم بننے میں تاخیر کو قرار دیا جائے تو بے جانہ ہو گا۔

ڈیموں کے کئی فوائد ہوتے ہیں اس سے پانی جمع کر لیا جاتا ہے جو زراعت کے بھی کام آتا ہے پاکستان میں تو ہر سال سیلاب بھی آتے ہیں ان کی روک تھام بھی ہو سکتی ہے جس سے سینکڑوں انسانوں کی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ اگر ڈیم بنے ہوتے تو سیلاب سے تباہی مچانے والے پانی کو ڈیموں میں محفوظ کر لیا جاتا ۔ اس پر نہ پچھلی ، نہ اس پچھلی اور نہ ہی یہ موجودہ حکومت کام کر رہی ہے۔

پاکستان کو اس وقت بجلی کی کمی کا شدت سے سامنا ہے اور ڈیموں سے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ وتینام ، چین ، امریکہ ، برازیل اور بھارت وغیر ہ ڈیموں کی تعمیر پر کثیر رقم خرچ کر رہے ہیں بھارت نے تو گذشتہ چند سالوں میں درجنوں ڈیم تعمیر کر کے اپنے وطن کو توانائی مہیا کرنے کا شاندار کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اس کا یہ کارنامہ پاکستان سے کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔

ڈیم ملک کے لیے اقتصادی طور پر بھی بہت مفید ہوتے ہیں ۔ پاکستان کو اس وقت ڈیموں کی اشد ضرورت ہے ورنہ آنے والے وقت میں پانی اور بجلی کا بحران اتنی شدت اختیار کرلے گا جس کا حل مشکل ترین ہو جائے گا۔ ڈیم صرف بجلی کے لیے نہیں زراعت کے شعبے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ بجلی تو کوئلہ سے ایٹمی توانائی سے اور بھی کئی ذرائع ہیں جن سے بن سکتی ہے مگر زرعی شعبہ کے لیے پانی کا ذخیرہ اور سیلابوں کی تباہ کاروں سے بچنے کے لیے پاکستان میں ڈیموں کی اشد ضرورت ہے۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے کالا باغ ڈیم پر سیاست دیکھ رہے ہیں اگر پاکستانی میڈیا اس بارے میں مہم چلائے اور عوام کو شعور دے تو ہو سکتا ہے اس پر سیاست کرنے والے ایسا نہ کر سکیں ۔ اس کے علاوہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ایسے مسائل کو حل کرے۔ ایسے سیاست دان جو کالا باغ ڈیم بنانے کے مخا لف ہیں ان سے ڈائیلاگ کیا جائے ، عوام میں اس بارے میں شعور آگاہی مہم کی چلائی جائے اور پھر ملکی مفاد میں مشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔


پاکستان میں بجلی 35فیصد تیل سے پیدا کی جاتی ہے۔ یہ بجلی بنانے کا ایک مہنگا ترین طریقہ ہے۔ دوسرے نمبر پر 30فیصد باقی ہے اور یہ بجلی پیدا کرنے کا سب سے سستا ذریعہ ہے۔ اس پر پوری توجہ نہیں دی جا رہی اس کے بعد 29فیصد گیس سے پیدا کی جاتی ہے۔ اللہ نے پاکستان کو گیس کی نعمت سے نوازا ہے۔ لیکن اس سے بھی پاکستانی حکومت زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکی اور ایک سستی بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے لیکن اس پر بھی کسی بھی حکومت سے خاطر خواہ توجہ نہ دی وہ ہے نیو کلئیر یا ایٹمی توانائی کا منصوبہ ہے اس کے ذریعہ صرف 6تا 7 فیصد پیدا کی جا رہی ہے آخر ایٹمی بجلی گھر کیوں تعمیر نہیں کیے جاتے ہیں۔


اس سے بہت جلد توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے ہمارے ایٹمی سائنس دان اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کو موقع دیا جائے تو وہ 90دن میں بجلی کا بحران ختم کر سکتے ہیں اور ملک کو سستی بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ اس بارے بھی ہماری حکومتیں خاموشی کا شکار رہی ہیں۔ نہ جانے ان کی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں جو ایسے عوامی مسائل و مشکلات کے حل کیلئے ان معاملات پر توجہ نہیں دیتیں۔

صاف اور سیدھی بات ہے کہ ملک کو اس وقت ڈیموں کی ضرورت ہے بجلی کے علاوہ زرعی شعبہ میں بھی خود کفالت کے لیے اور کالا باغ ڈیم کو ترجیح دے کر مزید چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں اس نہری نظام بھی رواں دواں رہے گا اور بجلی بھی سستی ملے گی اس کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تو پارلیمنٹ کی ساری جماعتیں مسلم لیگ ن (حکومت ) کے ساتھ کھڑی ہیں۔

بجلی بحران کا اصل سبب ایک اور بھی ہے جس بارے حکومت اگر فوری عمل کرے تو بجلی کا 20فیصد بحران کم ہو سکتا ہے اور وہ ہے بجلی کی چوری، لائن لا سزز کا خاتمہ اور جن کو فری بجلی دی جا رہی ہے اس کا خاتمہ یعنی بجلی دی جارہی ہے اس کا خاتمہ یعنی بجلی بنانے والا سسٹم بجلی گھروں تک پہچانے والا سسٹم اور واپڈا کی کالی بھیڑوں کا خاتمہ کر دیا جائے اس سے کرپشن بھی کم ہو جائے گی چوری رک جائے گی۔

اصل میں بجلی کا سارا سسٹم ہی خراب ہے اس کی اور بالنگ ہونی ضروری ہے اگر اسی سسٹم کے تحت چین سے ہونے والے معاہدے کے تحت تیار ہو نے والی بجلی بھی فراہم کی گئی تو بھی کوئی فائدہ عوام کو نہ ہو گا۔
گزشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف نے توانائی اجلا س میں کہا کہ اگلے چند دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کی جائے گی۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے اور دیگر اشیا ء کی قیمت میں بھی کمی ہو گی اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ کاتھ لوڈ شیدنگ کا خاتمہ بھی ہمارے ہی دور حکومت میں ہو گا۔

جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ چین ہمارا دوست ملک جس سے ہم نے 19تاریخی معاہدے کیے ہیں جن سے ہمارے خطے کی تقدیر بدل جائیگی۔ حکومت عواما الناس کی مشکلات اور پریشا نیاں ختم کرنے کیلئے ترجیحی اقدامات کر رہی ہے اور توانائی بحران ختم کر کے ہی دم لیں گے۔ دوسری طرف چین سے حالیہ ہونے والے معاہدہ جات بھی ایک سوالیہ نشان ہیں کہ ان پر عمل درآمد کب ہو گا کیونکہ موجودہ حکومت کی عمل کی رفتار بہت سست ہے اس سے کتنی بجلی پیدا کی جائے گی اور اس کافی یونٹ ریٹ کتنا ہو گا وغیرہ۔

ریٹ سے یا د آیا ہمارے ہاں تو جس کے گھر میں ایک بلب ہو اس کو بھی 20ہزار کا بل آجاتا ہے اصل کام اس کا سسٹم کو درست کرنے کا ہے، ورنہ جتنے مرضی معاہدے ہو جائیں عوام تک اس کے ثمرات نہیں پہنچیں گے۔ ہاں عوام کو چند سال مزید نعروں پر خوابوں پر ، امیدوں پر بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اس سسٹم میں عوام کو 70ارب روپے کے اضافی بل آجاتے ہیں جن کی وجہ ہمارے وزیر یو پی ایس قرار دیتے ہیں۔

بجائے اپنی غٹلطی تسلیم کرنے کے اب اس پر مزید کیا بات کریں۔ خلاصہ یہ ہے کہ کوئلہ سے بھی بجلی پیدا کی جائے اگر سستی تیار ہو سکتی ہے تو پھر اپنے ملک سے ہی کوئلہ نکالا جائے ۔ کہیں اور سے منگوا کر ایسانہ کیا جائے ۔ ایٹمی توانائی سے بجلی پیدا کی جائے اس سے جلد بحران کا خاتمہ ممکن ہے۔ ڈیم لازمی تعمیر کیے جائیں اس سے سیلاب کا سد باب ، بجلی کا خاتمہ اور زراعت کے شعبہ میں ترقی ممکنہے اور وقت کی سب سے اہم ضرورت بجلی کے سسٹم میں اور بالنگ ، کڑا احتساب ، کرپشن کا خاتمہ ، چوری اور مفت خوری کا خاتمہ کیا جائے ۔

ان چند باتوں پر عمل کرنے سے جلد از جلد بجلی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سمندری حدود دور تک چلی جاتی ہیں ۔ پاکستان کو دریاوں کی سرزمین کہا جاتا ہے اور قدرتی جھرنے الگ ہیں بڑی بڑی نہریں (آبپاشی کا سب سے بڑا نظام) قارئیں گہری سوچ میں نہ پڑیں ، دنیا بھر میں ان سب وسائل سے توانائی یعنی بجلی حاصل کی جاتی ہے۔

22سال پہلے 1993ء میں جرمنی نے پاکستان میں قدرتی جھرنوں سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر کام کی پیشکش تھی کہ شمالی علاقہ جات کے قدرتی جھرنوں آبشاروں سے 20ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی پیش کش کو ہماری حکومت نے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا ۔
قدرتی گیس کی طرح پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کی بھی کمی نہیں ہے۔ مگر اس سے بھی استفادہ حاصل کرنے کے لیے کچھ خاص نہیں کیا گیا۔

متبادل توانائی کا حصول آج کل دنیا بھر میں اہم ترین مقصد ہے۔ امریکہ میں اس پر اس قدر کام ہو ا کہ اب وہاں پیٹرول پر انحصار کم سے کم ہو گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی متبادل توانائی کے ذرائع اور ان وسائل میں اضافہ کیا جائے اس مقصد کے لیے قائم کئے گئے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ شاید اب یہاں اصلاح و احوال بھی ممکن نہیں انتہائی ضروری ہے کہ نئے سرے کام کیا جائے اور ٹائم فریم دیا جائے ۔ جلدی نہیں جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان اب مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یہی وقت کا تقا ضا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :