بے خبری کی نعمت

جمعرات 3 ستمبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کئی دنوں سے گھریلو مصروفیات نے کچھ اس طرح آن گھیرا کہ اپنے آپ کی خبر بھی نہ رہی، پھر بال بچوں کا جھنجٹ ،گھر سے دفتر اور دفتر سے پھر گھر، اس دوران ”معمول“ کے مطابق ہی اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا کھانا وغیرہ شامل تھا مگر عجب سکون کا احساس رہنے لگا ، ایسے محسوس ہوتاتھا کہ شاید پاکستان کی بجائے کسی اور ملک میں بسیراکرلیا ہو، ایک صبح بھولا گھومتا پھرتا ہمارے گھر کے باہر آکر ڈیرہ ڈالے بیٹھ رہا، کچھ راہگیروں نے وجہ پوچھی تو کہاگیا کہ ”چلو اس طر ح سے تو ملاقات ہوہی جائیگی“ خیر بھولا نے بغلگیر ہونے کے بعد پہلی خبر کانوں میں انڈیلی کہ ن لیگ اور پی پی کے تعلقات خراب ہوتے جارہے ہیں؟“ اس کی پریشانی کو ایک کان سے سنا اوردوسرے سے نکال دیا، ”کیاہوگا پھر؟“ بھولا حیران پریشان ،کہنے لگا ” یار ملک میں ایک بارپھرسیاسی دنگل لگنے والا ہے اورآپ کہہ رہے ہو کہ پھرکیاہوگا؟“ ہم نے کان کھجاتے ہوئے کہا ”یارپھر کیا ہوگا؟؟“ وہ پاؤں پٹختے ہوئے چلاگیا ، لیکن ہمیں خوب اندازہ تھا کہ اس نے ہماری عقل پر ماتم ضرور کیاہوگا، کچھ دیر تو بھولے سے ہونیوالی گفتگو دماغ پر سوار رہی پھر جونہی گھر کے دروازے میں قدم رکھا، نصف بہتر کی آواز سنائی دی ” کتنے دنوں سے کہہ رہی ہوں کہ” چھوٹی کیلئے جو آپ دودھ کاڈبہ لائے تھے وہ ختم ہوچکاہے ،بیچاری بھوک کے مارے دن روتی رہتی ہے، اب بھلا اس نیک بخت کو کیا جواب دیتے کہ اس کے بعد نان سٹاپ گولہ بارود کی بمباری ہوناتھا، خیر ”اچھا کرتے ہیں کچھ“ یہ جملہ جونہی منہ سے نکلا نیک بخت نے یک دم روپ ہی بدل لیا اورپھر وہ بے نقط سننے کو ملیں وہ الامان والحفیظ، اسی دوران ایک لمبی چوڑی لسٹ ہمارے ہاتھ میں تھی جسے ہم پڑھ نہیں پائے کیوں کہ اس کے بعد گویا ”چراغوں میں روشنی نہ رہی “کی مثال سامنے آگئی۔

(جاری ہے)

لسٹ جیب میں ڈالی اور پھر دفتر کی طرف گامزن، گو کہ دن بھر سیاست ،سیاسیات پر یاران محفل سے بات چیت ہوتی رہی مگر کچھ ذہن میں نہیں آرہا کہ ”کیا سنا اورکیا کہا“ ایک متوالے نے تو یہ کہہ کر جان ہی نکال دی کہ ”اب زرداری ہی کی باری“ منہ سے بدفال نکال کر وہ متوالا خوب قہقہے لگاکر ہنس رہاتھا اورہم پریشان تھے ،عقدہ کھلا کہ موصوف نے پہلے حوالہ سابق وزیراعظم کادیا مگر چونکہ ہم اپنی مست تھے اس لئے ان کی پہلی بات سن نہیں پائے ،ا لبتہ زرداری کی باری کا ذکر ضرور کانوں میں پڑاتو پریشان ہوناتولاز م تھا، انہی جھمیلوں میں پڑے تھے کہ پیٹ میں دوڑتے چوہوں نے بتادیاکہ” جب تین وقت روٹی نہیں کھاؤ گے تو یہی حال تو ہوناہے“انہی اچھلتے کودتے چوہوں نے انکشاف کیا کہ ”حضور!آپ دو دن بستر پرگزار کرآئے ہیں لہٰذا اب بھی کم ازکم روٹی جیسی عیاشی کاسوچنا بھی مت“ اسی خیال کے ساتھ ہی پیٹ میں درد کی لہر اٹھی مگر یہ لہر بھوک کی وجہ سے نہیں بلکہ تکلیف کے باعث تھی، لہٰذا روٹی کاخیال ہی ترک کرتے ہوئے کرسی پر ہی لم لیٹ ہوگئے ۔

آنکھیں بند کرکے ابھی کچھ سکون کا خیال آیا ہی تھا کہ جیب میں پڑے کاغذ نے توجہ مبذول کرالی ۔ فوراً ہی آنکھ کھل گئی اورپھر لسٹ میں لکھے مندرجات کوپڑھنے کی ناکام کوشش کے بعد متعلقہ دکانوں کارخ کیا ۔ ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورکا مالک جو اچھی خاصی سیاسی معلومات کاحامل ہے، زرداری، نوازشریف، گیلانی، مشرف سبھی کے اباؤاجداد کی خوب خبر ہے اس کے پاس، ہمیں دیکھتے ہی کھل اٹھا ” گویا دل کے پھپھولے “جلانے کیلئے بہترین بندہ ہتھے چڑھ گیا تھا۔

جونہی اس نے ن لیگ اور پی پی کی ”تڑک “ کرکے یاری ٹوٹنے کاذکر کیا ،اچانک جیب میں پڑا موبائل چیخ اٹھا، سکرین پر نیک بخت کا نمبر جگمگا رہا تھا کال اٹینڈ کی تو چھوٹی کی چیختی چلاتی آواز سنائی دے رہی تھی، یعنی نیک بخت نے اب کی بار بلیک میل کرنے کیلئے براہ راست تین مہینے کی بچی کے کان سے ہی موبائل لگادیاتھا کہ شاید اس طرح سے کام بن پائے، ڈیپارٹمنٹل سٹور مالک سے معذرت کرکے سامان اٹھایا اورگھر کو دوڑ لگادی۔

اچانک خیال آیا کہ بڑی کے داخلے کیلئے”ب فارم “ کی ضرورت ہے اسی خیال کے آتے ہی فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا ،شناختی کارڈ غائب، نیک بخت سے پوچھنے کی جرات نہ تھی اس لئے خود ہی بکسوں، الماری اوردوسری الغم بلغم میں ڈھونڈنے چل نکلے، بڑی ہی مشکل سے اس وقت شناختی کارڈ ہاتھ آیا جب کپڑے پسینے سے خوب بھیگ چکے تھے۔ بالوں کا حلیہ الگ اور اپنی جگہ دیکھنے لائق تھا، پھر متعلقہ یونین کونسل اور پھر اس کے بعد نادرا کی کہانی الگ سے ہے، یقین کریں کہ اس بھاگم دوڑ میں ہمیں نہ تو ملک میں ہونیوالے ”سیاسی ہنگاموں“ کی خبر تھی اور نہ ہی کسی کے دوستانے ٹوٹنے اورجڑنے کاخیال، بس فکر تھی تو اپنے آس پاس کی۔

رات جب سونے کیلئے بستر پرلیٹے تو پہلے بھولے کی طرف دھیان گیا، زرداری کی بابت یاد آیا کہ موصوف ہمارے سابق صدر ہیں، پھر نوازشریف کانام ذہن میں جھماکے کے ساتھ گونجا،اچھا اچھا یہ صاحب تو 2013 کے عام انتخابات کے بعد ملک کے وزیراعظم بنے تھے، اورغالباًشہبازشریف ان کے چھوٹے بھائی اور ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں، خیر وزارت اعلیٰ تو انہیں 2008کے انتخابات کے بعد سے ہی دوبارہ مل گئی تھی مگر․․․․․․․پھر گیلانی کا ذکر آیا تو ذہن کی درزیں کھلتی چلی گئیں اور پھر پھر پھر․․․․․ یعنی سارا کچھ یاد آگیا، بس کچھ نہ پوچھئے، رات بھر کروٹ بدل بدل کر کبھی نواز شریف ، پی پی یارانے کے ٹوٹنے کاغم مناتے رہے تو پھر دوسری طرف کروٹ بدلنے پر عمران خان کی ”کوششوں“ سے خالی ہونے والی سیٹوں پر الیکشن کا وسوسا سا لگارہا۔


محض دو تین کی بے خبری نے کم ازکم اس بات پر مہر ثبت کردی کہ واقعی ”لاعلمی اور بے خبری“ نعمت ہوتی ہے۔ اورپاکستان کی بڑی آباد ی اسی کا ہی شکار ہے، انہیں محض چار پانچ سال کے بعد یاد دلایاجاتا ہے کہ ”چلو جی اب آپ کی باری پھر ہماری“ اور یہ خوشخبری کانوں میں انڈیلنے والوں کیلئے اگلے چار پانچ سال پکے ․․․․․․․ اورپھر قوم ایک بارپھر ”لاعلمی کی نعمت “سے مستفید ہونے نکل پڑتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :