سیاسی مجبوریاں

جمعہ 28 اگست 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہمارے ہاں اقتدارکا ہماجس کے سَرپر بھی بیٹھتاہے ،اُسی کو سیاسی مجبوریوں کا تارِ عنکبوت جکڑلیتاہے۔ محترم آصف زرداری نے اپنے اقتدارکے پانچ سال اتحادیوں کی ”منتیں تَرلے“کرتے گزارے ۔اب نوازلیگ کاالمیہ بھی یہی۔ تحریکِ انصاف نے آنکھیں دکھائیں تودیگرسیاسی جماعتوں کے ہاں پناہ گزین، خوف کایہ عالم کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اعتزازاحسن نے کسی ”کپتی ساس“کی طرح چودھری نثاراحمد کورَکھ رَکھ کے طعنے دیئے لیکن حکومتی لَبوں پہ مہرِخاموشی، تحریکِ انصاف مستعفی ہوئی تو استعفے منظورکرنے میں صریحاََ غیرآئینی ہچکچاہٹ۔

حامدمیرنے محترم ایازصادق سے چبھتاہوا سوال کیا کہ جب آئینی طورپر تحریکِ انصاف کے اراکینِ پارلیمنٹ کے استعفے ہوچکے تھے تواُنہیں منظور کرنے میں کوتاہی کیوں برتی گئی؟۔

(جاری ہے)

سپیکرصاحب کاجواب تھاکہ آئین اُنہیں انفرادی تحقیق وتصدیق کی اجازت دیتاہے۔ حامدمیر نے کہاکہ عمران خاں توہر روزکنٹینر پرکھڑے ہوکر یہ اعلان کرتے تھے کہ وہ مستعفی ہوچکے پھرخاں صاحب کااستعفٰی کیوں منظور نہیں کیا گیا؟۔

ایازصادق کاجواب بہت دلچسپ کہ پارلیمنٹ کے باہرسب باتیں سیاسی اورپارلیمنٹ کے اندرآئینی وقانونی۔ گویاآئین کی عمل داری صرف پارلیمنٹ کے احاطے تک محدود۔ اب ایم کیوایم بھی مستعفی ہوچکی لیکن پھر ”نظریہٴ ضرورت“ آڑے۔ اوّل اوّل تونوازلیگ ڈٹی رہی اور کہا
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
ایم کیوایم نے تواپنی ” خُو“ نہ چھوڑی البتہ نوازلیگ کو اپنی ”وضع“ بدلنی پڑی اوراب سبک سَری کایہ عالم کہ استعفوں کی واپسی پر حکمران آمادہ البتہ باہربیٹھے ”بھائی“ کے فیصلے کاانتظار۔


استعفے لینے اوردینے کے شوقین کپتان صاحب توچاہتے ہی یہ ہیں کہ ”گلیاں ہو جان سنجیاں وِچ مرزایار پھرے“۔پہلے وہ استعفے کے لیے وزیرِاعظم ہاوٴس پرچڑھ دوڑے اوراب چاروں صوبائی الیکشن کمشنرزاور چیئرمین نادرا کو مستعفی ہونے کاحکم صادر ۔ صوبائی الیکشن کمشنرزنے خاں صاحب کے خط کا” ٹَکاسا“ جواب دے دیاہے اِس لیے ہوسکتا ہے کہ تحریکِ انصاف ایک دفعہ پھرپارلیمنٹ کوداغِ مفارقت دے جائے لیکن ہم کہیں گے کہ تحریکِ انصاف اب کی بارایسا نہ کرے کیونکہ جب وہ دوبارہ ”نیویں نیویں “ ہوکر پارلیمنٹ میں جائیں گے اور اُن کااستقبال ”کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیاہوتی ہے“ جیسے استقبالی نعروں سے ہو گاتوہمیں شرم بہت آئے گی۔


عشقِ عمران میں”گوڈے گوڈے“دھنسے ہوئے ایک محترم لکھاری فرماتے ہیں ”اخلاقیات کاتقاضہ یہ تھاکہ سردار ایاز صادق اعلیٰ ظرفی کامظاہرہ کرتے ،اپنی تنخواہوں ،مراعات اوربیرونی دَوروں کا حساب کرتے پھراُن اخراجات کوجمع کرتے ۔ جوحساب کتاب ہوتا،خاموشی سے سرکاری خزانے میں جمع کروادیتے ،مگرافسوس ایسانہ ہوسکا“۔ افسوس ،صدبلکہ ہزارافسوس کہ نہ سردارایاز صادق یہ پیسے دینے کوتیاراور نہ ہی نیاپاکستان بنانے کاعزم لے کراُٹھنے والے سولہ ،سولہ لاکھ واپس کرنے کے لیے آمادہ۔

ویسے سردارصاحب کافیصلہ توابھی سپریم کورٹ میں ہونا باقی ہے لیکن نئے پاکستان کے ”بانیان“ تواپنی مرضی سے استعفے دے کربھی بقایاجات وصول کرچکے ۔محترم لکھاری نے ایازصادق صاحب کو یہ ”اخلاقیاتی “مشورہ بھی دیاہے کہ وہ خواجہ سعدرفیق کی طرح ”سٹے آرڈر“کے پیچھے چھپنے کی بجائے عوام کی عدالت میں جا ئیں۔ مشورہ تومفید ہے لیکن ایسے مشورے وہ اپنے ممدوح عمران خاں کو کیوں نہیں دیتے جن کی جماعت کے مرادسعید ،قیصرجمال اوررائے حسن نوازسمیت چھ سے زائد اراکینِ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے سٹے آرڈرکی ”بُکل“ مارے بیٹھے ہیں۔

محترم لکھاری نے جسٹس کاظم ملک کے فیصلے پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا ”قوم کوایسی سوچ پر ماتم کرناچاہیے جوانصاف اورانصاف دینے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔۔۔۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی توعمران خاں نے اِس فیصلے کومن وعن قبول کیاحالانکہ عمران خاں کوبہت کچھ بتایاگیا مگراُس نے کہاکہ نہیں، میں یہ کہہ چکاہوں کہ جوبھی فیصلہ آیاوہ قبول ہوگا لہٰذا اب میں اِس پرکوئی تنقیدنہیں کرسکتا“۔

عرض ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعدسے خاں صاحب متواتر یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ نوازلیگ ،الیکشن کمیشن اورآر اوزنے مِل کردھاندلی کی جبکہ تحقیقاتی کمیشن نے اپنے 902 صفحات پرمشتمل فیصلے میں صراحت کے ساتھ لکھاکہ دھاندلی ہوئی نہ کوئی سیاسی جماعت منظم دھاندلی میں ملوث ہے۔ جس اندازمیں خاں صاحب نے جوڈیشل کمیشن کافیصلہ تسلیم کیا ،بالکل ویسے ہی ایازصادق نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل کاحق محفوظ رکھتے ہوئے کاظم ملک صاحب کے فیصلے کوتسلیم کیا۔

پھرسارے اخلاقی سبق اورساری تلملاہٹ صرف نوازلیگ کے خلاف ہی کیوں؟۔ ویسے محترم کاظم ملک نے جوفیصلہ دیاوہ تومتنازع ہے ہی کیونکہ انہوں نے 2014ء میں دیئے جانے والے اپنے ہی فیصلے کی نفی کردی۔ وہ سپریم کورٹ کاحوالہ دے کریہ فیصلہ دے چکے کہ اگرکاوٴنٹرفائلز کی پشت پرمہر اوردستخط نہ ہوں لیکن باقی سب درست ہوتو ڈالاجانے والاووٹ درست تسلیم ہوگالیکن حلقہ 122 کاالیکشن کالعدم قراردینے کی بنیادہی 23 ہزارکاوٴنٹر فائلزکی پشت پرپریذائیڈنگ آفیسرکی مہراور دستخط نہ ہونے پررکھی گئی ۔

حقیقت یہ کہ پولنگ سٹیشنزپر صبح کے اوقات میں بے تحاشہ رش ہوتاہے اِس لیے مختصرسے انتخابی عملے کے پاس اتناوقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ کاوٴنٹرفائل کی پشت پرمہر اور دستخط کرسکیں۔ جب رَش کم ہوتاہے توپھر کاوٴنٹرفائل کی پشت پرمہراور دستخط جیسی ”بے کار“ پریکٹس کی جاتی ہے۔بطور پریزائیڈنگ آفیسر میں نے کئی مرتبہ ڈیوٹی سرانجام دی اورہمیشہ اِس الجھن کاشکاررہی کہ جب کاوٴنٹرفائل ہرلحاظ سے مکمل ہوتی ہے توپھر اُس کی پشت پرمہراور دستخط کی کیاضرورت رہ جاتی ہے؟۔

جب جوڈیشل کمیشن یہ طے کرچکاکہ انتخابی بے ضابطگیوں کی بنیادپر الیکشن کالعدم قرارنہیں دیاجا سکتااور عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی شِق 68(2) کے مطابق اگرٹربیونل مطمئن ہوکہ کوئی کرپٹ یا غیرقانونی عمل کسی امیدوار یااُس کے الیکشن ایجنٹ کی مرضی یااکسانے پرنہیں ہواتو انتخاب کالعدم قرارنہیں دیاجا سکتا توپھر محترم جج نے ایازصادق صاحب پردھاندلی کاکوئی الزام لگائے بغیرصرف انتخابی بے ضابطگیوں کو بنیادبنا کرحلقہ 122 میں دوبارہ پولنگ کاحکم کیسے صادرفرمادیا؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :