یہ ان دنوں کی بات ہے

پیر 24 اگست 2015

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

یہ ان دنوں کی بات ہے جب گاوٴں میں بجلی نہیں ہوتی تھی ، سب کام مغرب کی آ ذان سے پہلے ختم ہو جاتے تھے اور سر شام ہی پہاڑوں اور کھیتوں سے جنگلی جانوروں کی آوازیں صاف سنائی دیتی تھیں ۔ تمام کام کرنے کے بعد رات کو پورے گاوٴں کے بابے ہمارے گھر میں اکٹھے ہو جاتے اورسب مل کر خبریں سنتے ۔ یہ ان بابوں کی عادت سمجھ لیں یا مجبوری کہ ان سب کو شام کو ہمارے گھر ہی آنا ہوتا تھا کیونکہ شائد تایا جان کے پاس ہی پورے گاوٴں میں ایک ایسا ریڈیو سیٹ تھا جس پر بی بی سی ورلڈ سروس صاف سنائی دیتی تھی ۔

مجھے یاد ہے یہ ایک بھورے چمڑے کے کیس والا نیشنل کمپنی کا ریڈیو تھا ۔ یہ اسی کی دہائی کی بات ہے ، گرمی ، سردی، خزاں ، بہار سب موسموں میں یہ بابے ہمارے گھر آتے ۔ رات آٹھ سے دس بجے کا یہ سیشن ہوتا ، چائے تیار کی جاتی اور نفیس بیکری میرپور کے رس چا ئے کے ساتھ مہمانوں کو پیش کیے جاتے ۔

(جاری ہے)


حالات حاضرہ پر بات کرنے والی شخصیات بھی بہت اہمیت کی حامل تھیں ۔

اگر آج میں ان لوگوں کی تلاش میں نکلوں تو شائد ہر طرف سے یہی آواز آئے
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
موسم کے حال سے اقوام متحدہ کے اجلاس تک اور سیز فائر لائن کے مسائل سے لیکر افغانستان میں جاری جہاد تک ہر موضوع پر یہ بابے اپنے تبصرے کرتے اور ان کے تبصروں میں جان بھی ہوتی کیونکہ ان میں سے بیشتر سابقہ فوجی تھے جنہوں نے آزادی پاکستان سے پہلے مختلف ملکوں میں اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیں تھیں ۔

منجھے ہو ے اور زیرک مبصرکا ایک کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر بات کرتا ہے ۔کئی سال تک جب میں گاوٴں جاتا تو اس محفل سے بہت کچھ سیکھتا پھر آہستہ آہستہ ایک ایک کر کہ بیشتر بابے اللہ کو پیارے ہو گئے ، ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی ، بجلی آ گئی ، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی آوازیں غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ ٹی وی اسٹیشن کے اینکروں نے لے لی ۔

کھلے آسمان کے نیچے سجنے والی محفل کی خوش گپیوں کی جگہ ہر گھر سے ڈراموں کے ڈائیلاگ سنائی دینے لگ گئے، نفیس بیکری کے رس کے ذائقے میں تبدیلی آ گئی اور گاوٴں کا سادہ اور پاکیزہ ماحول بھی سوشل میڈیا کی آلودگی کی نظر ہو گیا ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے گاوٴں میں صرف ایک ویگن ہوا کرتی تھی ، اس کے ڈرائیور کا نام حوالدار محبوب خان تھا ، حوالدار صاحب سابقہ فوجی تھے اور پورے علاقے میں انہیں لوگ اس لیے جانتے تھے کیونکہ یہ یہاں ٹرانسپورٹ انڈسٹری کے گارڈ فادر تھے ۔

حوالد ار صاحب کے پاس سبز رنگ کی ویگن تھی جو بیڈ فورڈ کمپنی کی تھی ، مجھے یہ یاد نہیں کہ اس کی سیٹینگ کپیسیٹی کیا تھی مگر حوالدار صاحب پورا گاوٴں اس میں لادھ کر میرپور لاتے اور واپس لے جاتے تھے ۔ اس سفر کی سب سے با کمال چیز حوالدار صاحب کی کہانیاں ہوتی تھیں جو وہ جب بھی سناتے نئی ہی لگتیں تھیں ، حوالدار صاحب کی یہ تمام کہانیاں 1965 اور 1971 کی جنگوں کے حوالے سے ہوتیں تھیں ۔

یہ سمجھ لیں اس سفر میں بور ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا تھا ۔ حوالدار صاحب کی ویگن میں ہر روز ایک ڈاکیہ ، ایک بینک آفیسر ، ایک پٹواری ، دو باوردی سرکاری گارڈ بمعہ رائفل ، کچھ تاجر اور میرپور میں پڑھنے والے طلبا کے علاوہ ڈاکٹر پیرزادہ کو دکھانے جانے والی خواتین سفر کرتیں جن سے کرایہ لینے کی ذمہ داری اس ویگن کے کلینر یا کنڈکٹر کے ذمے ہوتی جس کا نام" جنگی" تھا ۔

جنگی کا اصل نام ذوالفقار تھا مگر اس کی پیدائش 6 ستمبر 1965 کو ہوئی اس لیے سب اسے جنگی کہتے تھے۔ آج میرے گاوٴں سے میرپور کا سفر کوئی ایک گھنٹے کا ہے مگر اس وقت یہ سفر تین گھنٹے میں طے ہوتا تھا ، بے شمار بار حوالدار صاحب گاڑی روکتے ، راستے میں ایک بار چائے پیتے اور اس بات کو یقینی بناتے کہ ان کا مسافر ان سے خوش ہے ، یہ انتہا کی کسٹمر سروس تھی ۔

پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ماند پڑھ گیا ، ایک کے بجائے پانچ ویگنیں اور کوئی دس کے لگ بگ ٹیکسیاں اور بے شمار پرائیویٹ گاڑیوں نے یہ سفر طے کرنا شروع کر دیا، مسافر اور ڈرائیور کے مابین ادب کا رشتہ ختم ہو گیا ، "جنگی "زندگی کی دور میں کہیں گم ہو گیا ، حوالدار صاحب کی ویگن بک گئی ، ڈاکٹر پیرزادہ کے مریض کہیں اور جانے لگ گئے ، میرے گاوٴں سے میرپور آنے والی سڑک سالوں عدم توجگی کا شکار رہنے کے بعد ٹوٹ گئی اور حوالدار صاحب کی کہانیاں ماضی کے مدھم آوازے بن کر پیر گلی کی چوٹی کے پیچھے دفن ہو گئے ۔


یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے گاوٴں میں کوئی شادی ہوتی تھی ، شادی کیا تھی پورے گاوٴں کے پاس خوش ہونے کا ایک ایسا نادر موقع ہوتا تھا جو سالوں تک یاد کیا جاتا۔ کسی کو یہ پتہ نہ ہوتا کہ کس برادری کے کس شخص کی بیٹی یا بیٹے کی شادی ہے ۔ سب ملکر اس شادی کا اہتمام کرتے ۔ تیل مہندی سے لیکر بارات اور ولیمے تک سب کچھ اتنی خوش اسلوبی سے طے پاتا کہ کسی ایک فریق پر نہ اس کا بوجھ پڑتا اور نہ ہی کسی کو کوئی شرمندگی اٹھانی پڑتی ۔

شادی اکثر ایک ہی گاوٴں میں ہوتی مگر اگر بارات کسی اور گاوٴں سے بھی آتی تو دونوں گاوٴں ہی ان خوشیوں میں ایسے شریک ہوتے جیسے یہ ان کے گھر کی کوئی ذاتی تقریب ہے ۔ دولہے نے سفید لباس ، زری والی چپل اور سر پہ قلا یا پگڑی پہنی ہوتی جبکہ دلہن مخصوص سرخ رنگ کے عروسی لباس زیب تن کرتی ۔ شادی کی تمام تقاریب اور رسوم جو سالوں سے ہماری پہاڑی تہذیب کا حصہ ہیں اپنے سادہ انداز میں ادا کیں جاتیں جبکہ انتہائی لذیذ کھانا جسے مقامی کک تیار کرتے ہفتوں یاد کیا جاتا۔

مٹی کی رکاویوں (برتنوں) میں سالن اور روٹی کے علاوہ میٹھے میں زردہ مہمانوں کو پیش کیا جاتا جو لذیز ہونے کے ساتھ ساتھ تازہ بھی ہوتا ۔ شادی کی تقاریب ختم ہوتے ہی دلہا دلہن ویسے ہی عام معمولات کا حصہ نظر آتے جسے وہ تھے ۔ کوئی ہنی مون کا تصور نہ تھا اور نہ ہی کوئی لمبی چوڑی جہیز دینے کی رسم تھی ، یہ ایک پرفیکٹ شادی اور معزز معاشرے کے وہ تانے بانے تھے جو آج غائب ہیں ، اس وقت کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر شادی نہیں کرتی تھی اور اس وقت کوئی لڑکا کسی قحبہ خانے سے نہیں پکڑا جاتا تھا ۔

خیر آہستہ آہستہ میرے گاوٴں میں شادی کی رسوم بھی بدل گئیں ، یہ ایک گھر کے کچھ افراد کی تقریب بن گئی جس میں بہت سے روپے خرچ ہونے لگ گئے ، جہاں اسلحے کی نمائش ، طوائفوں کے ٹھمکوں ، کیٹرنگ کمپنی کے بے مزہ کھانوں اورپارلر میں تیار دلہنوں نے اس کا تمام حسن اتنا تیکھا کر دیا کہ
جون ایلیا سے معذرت کے ساتھ اب ہونٹوں سے یہی الفاظ نکلتے ہیں
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نہ نظر آتی
میں پچھلے دس دن سے پاکستان اور آزاد کشمیر میں تھا ، آج واپس جا رہا ہوں ، اطلاعات کے مطابق پی آئی کی برطانیہ جانے والی فلائٹس کسی نا معلوم وجوہات کی بنا پر کینسل ہو گئی ہیں ، پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر ڈی سیٹ ہو چکے ہیں ، ملک میں شدید گرمی ہے ، کراچی میں چائنہ کٹنگ اور منی لانڈرنگ کرنے والے پکڑے جارے ہیں ، افواج پاکستان ایک یقینی اور فتح مندانہ جنگ لڑ رہی ہے ، ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمان آپس میں گپ شب لگا رہے ہیں ، پاکستانی حکومت پل اور مزید پل بنا رہی ہے ، سرتاج عزیز کسی ڈوسیر پر کام کر رہے ہیں ، آزاد کشمیر کی حکومت آزاد کشمیر کے باہر کشمیر آزاد کروا رہی ہے ، تمام سیاستدان ہالیڈے پر یورپ میں ہیں جبکہ کچھ سیاست دان بیرون ملک سے اپنی اپنی سیاسی پارٹی چلا رہے ہیں ۔

تصویر کے دوسرا رخ یہ ہے کہ اس بار میں پی آئی اے سے سفر نہیں کر رہا ، پاکستان میں آج بھی غربت انتہا پر ہے ، فاقہ اور بھوک ہے ، ڈاکٹر اور دوائی کے ساتھ ساتھ انصاف اور سچ ناپید ہیں ، عوام بیزار ہیں اور میں ماضی کی یاد میں کھویا اپنا سامان باندھ رہا ہوں ۔ ٹی وی چینلز پر موبائل فون کمپنیوں کے اشتہار ات اور سرکاری اشتہارات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ملک میں کوئی دکھ نہیں اور سب اچھا ہے مگر حقیقت میں یہ آئی واش ہے ، لگتا ہے یہاں کسی کو اس مٹی سے پیار نہیں ، ناجانے میرے وطن کی مٹی کے وہ لوگ کہاں گئے جو منصف بھی تھے اور مخلص بھی ، کہانیاں سنانے وا لے ، سچ بولنے والے ، معنی خیز تبصرے کرنے والے اور اپنی رسموں کے امین لوگ …… کہاں گئے وہ لوگ ؟ اس قدر مصنوئی اور اپنی تہذیب سے بیزار ماحول میں مجھے فضاوں میں حضرت اقبال کے الفاظ کی یہ گونج سنائی دیتی ہے
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :