یہ گھوڑے بدلیں !

پیر 24 اگست 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ڈنگ بیٹل کیڑوں کی ایک قسم ہے ، ان کیڑوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ اپنے لیڈر کے پیچھے چلتے ہیں ۔ ایک روز ایک سائنسدان نے ان کیڑوں پر تجربہ کیا ، اس نے ایک بڑی سی پلیٹ میں دس بارہ کیڑے چھوڑ دیئے ،یہ حیران کن حشرات تھے ، جب ان کا لیڈر حرکت کرتا یہ بھی حرکت میں آجاتے اور جب لیڈر رک جاتا یہ بھی رک جاتے ۔ سائنسدان ایک طویل عرصے تک ان کیڑوں کا مشاہدہ کرتا رہا ۔

کیڑے پلیٹ میں اپنے لیڈر کے پیچھے ایک دائرے کی صورت میں گھومتے تھے ،پلیٹ گول تھی اس لیئے سفر ختم نہیں ہوتا تھا ،سفر چلتا رہا اور کیڑے گھومتے رہے ، یہ دائروں کا سفر تھاا س لیئے منزل کا کوئی نام ونشان نہیں تھا ، کیڑے یہ نہیں سمجھ سکے کہ اس سفر کا کوئی اختتام بھی ہے، یہ مسلسل چلنے کے باعث تھک گئے اور ایک ایک کر کے مرنے لگے ،چند دن بعد پلیٹ کالی تھی اور سارے کیڑے مر چکے تھے ۔

(جاری ہے)

میرے خیال میں ہمارے ساتھ بھی گزشتہ 68سالوں سے یہی ہو رہا ہے ،ہم بھی 68سالوں سے ایسے لیڈروں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ہمیں دائروں میں گھما رہے ہیں ، نتیجہ ظاہر ہے ہم 68سالوں کے بعد بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا ۔شاید اب ہمیں اپنے گھوڑے بدلنے کی ضرورت ہے ،یہ گھوڑے بدلنے والی کہانی کسی کتاب میں پڑھی تھی،آپ بھی سن لیں ہو سکتا ہے گھوڑے بدلنے کی کو ئی صورت نکل آئے ۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک کسان کے دو بیٹے تھے جو لڑنے جھگڑنے کے ماہر تھے ،باپ نے بہت کوشش کی ،انہیں سمجھایا اور اتحاد واتفاق کے فضائل بیان کیئے لیکن ان کا مرض لاعلاج تھا ۔ روزانہ لڑنا ان کا معمول تھا اور اس وجہ سے انہوں نے کافی نقصان بھی اٹھایا تھالیکن سمجھنے کو کوئی تیار نہ تھا ۔ ارد گرد کے لوگ ان سے نصیحت حاصل کرتے اور آگے بڑھتے رہے لیکن یہ دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشی، باپ کے سامنے شکایتیں لگوانے اور آپس میں چھینا جھپٹی سے باز نہ آئے ۔

باپ نے ساری زندگی کما یا تھا ،اچھی خاصی جائیداد تھی لیکن اب وہ بستر مرگ پر تھا ۔ باپ کے لیئے یہ ساری صورتحال نہایت تکلیف دہ تھی ، اس نے سوچا کہ اگر ان دونوں کا یہی چلن رہا تو میرے مرنے کے بعد یہ جائیداد پر ٹوٹ پڑیں گے اور آپس میں لڑ لڑ کر مر جائیں گے ۔ اسے افسوس بھی تھا کہ وہ اپنی ساری زندگی میں اپنے بیٹوں کو سمجھا نہ سکا۔ ایک دن اس کے ذہن میں ایک خیال آیا ، اس نے اپنے بیٹوں کو پا س بلا یا اور بولا ”میرے بچو میرے مرنے کا وقت قریب آ گیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنی جائیداد کے بارے میں وصیت کر جاوٴں ۔

میری خواہش ہے کہ میں اپنی یہ جائیداد تم دونوں میں برابر تقسیم کر دوں لیکن میرے خیال میں تم دونوں اس بات کو پسند نہیں کروں گے ، تم چاہتے ہو کہ میں یہ ساری جائیداد تم دونوں میں سے کسی ایک کے نام کر دوں لیکن میرے لیئے یہ فیصلہ بہت مشکل ہے ، اگر میں نے ایسا فیصلہ کر بھی دیا تو تم میرے بعد ایک دوسرے کے گلے کا ٹ دو گے ۔میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم دونوں کے بیچ ایک مقابلہ کرواوٴں اور جو مقابلہ جیت جائے ساری جائیداد اس کے نام کر دوں ،کیا تم اس فیصلے پر راضی ہو “دونوں بیٹوں نے بیک زبان ہو کر کہا”ہاں ہمیں منظور ہے “۔

باپ نے کہا ”کل صبح تم دونوں اپنے گھوڑے نکالو اور پڑوس والے گاوٴں کی طرف دوڑنا شروع کر دو جس کا گھوڑا دیر سے پہنچے گا میری ساری جائیداد کا وارث وہی ہو گا “ ۔ ”دیر سے پہنچے گا “ دونوں نے حیرت سے باپ کی طرف دیکھا ۔ باپ نے زور دے کر کہا ” ایک بار میری بات پھر غور سے سن لو ، جس کا گھوڑا دیر سے پہنچے گا وہی میری ساری جائیداد کا وارث ہو گا “
اگلی صبح دونوں بھائیوں نے گھوڑے نکالے اور پڑوس کے گاوٴں کی طرف رخ کر کے انہیں سر پٹ دوڑانا شروع کر دیا ،ابھی آدھا سفر بھی طے نہیں کر پائے تھے کہ انہیں یاد آیا کہ باپ نے تو یہ کہا تھا کہ جس کا گھوڑا دیر سے پہنچے گا جائیداد اس کی ہو گی ،اب دونوں نے اپنے گھوڑوں کی باگیں کھینچ لیں ۔

دوونوں اس انتظار میں آگے نہیں بڑھ رہے کہ دوسرے کا گھوڑا آگے بڑھے اور پہلے اس بستی میں داخل ہو ، کوئی بھی آگے بڑھنے کے لیئے تیار نہیں تھا ، رات ہو گئی لیکن وہ دونو ں اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھے ۔ دونوں نے ایک گھنے درخت کے سائے میں ڈیرے ڈال دیئے اور ساری رات وہیں ٹھرے رہے ۔ اگلی صبح پھر وہی منظر، صبح اٹھتے ہی گھوڑوں پر کاٹھی ڈالتے لیکن پھر یہ سوچ کر رک جاتے کہ اس طرح اس کا گھوڑا آگے نکل جائے گا،کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھا۔

ان کے پاس کھانے پینے کا جو سامان تھا وہ ختم ہو چکا تھا ، آتے جاتے لوگ مسافر سمجھ کر انہیں کھانے کوکچھ دے دیتے اور یوں ان کا دن گزر جاتا ، ان کا با پ مرتے ہوئے انہیں عجیب مشکل میں ڈال گیا تھا،ان کی پریشانی برقرار تھی۔ کئی دن ایسے ہی گزر گئے ، ان کے کپڑے پھٹ گئے ، بال لمبے ،ڈاڑھیاں بڑھ گئیں اور بھوک اور پیاس نے انہیں ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کر دیا تھا ۔

شروع شروع میں وہاں سے گزرنے والے لوگ انہیں مسافر سمجھ کر کچھ کھانے کو دے دیتے تھے لیکن اب لوگ بھی عادی ہو چکے تھے اور اب انہیں توجہ دئے بغیر گزر جاتے ۔ایک روز وہاں سے ایک بزر گ کاگزر ہوا ، وہ بزر گ ان کے پاس گیا اور پوچھا ”بیٹا میں کافی عرصے سے تمہیں یہاں دیکھ رہاہوں ،تم دونوں کے پاس گھوڑے بھی ہیں اور تم کسی اچھے گھرانے کے فرد معلوم ہوتے ہو ، شروع میں جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تمہارے چہروں پر رونق بھی تھی ، کپڑے بھی اجلے اور صاف تھے اور تم صحت مند اور باوقار لگتے تھے لیکن تم مسلسل یہاں کیوں رکے ہوئے ہو اور اپنی یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے “وہ دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور بتایا کہ ہمارے باپ نے مرنے سے پہلے ہمیں اس مقابلے میں الجھا دیا ہے کہ جس کا گھوڑا بعد میں ساتھ والے گاوٴں پہنچے گا میری ساری جائیداد اس کے نام ہو گی اس لیئے اب ہم میں سے کوئی بھی اپنا گھوڑا آگے بڑھانے کو تیار نہیں ۔

بزرگ نے سارا قصہ سنا ، ایک لمحے کے لیئے توقف کیااور بولا ”تمہارے باپ کی وصیت کے الفاظ کیا تھے،یہی ناں کہ جس کا گھوڑا دیر سے پہنچے گا “ دونوں نے بیک زبان ہو کر کہاں ”ہاں “۔”تو پھر مسئلہ کیا ہے ، تم اپنے گھوڑے بدل لو “ بزرگ نے گھوڑوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ دونوں نے یہ سنا تو فورا ایک دوسرے کے گھوڑے کی طرف لپکے اور یہ جا وہ جا ۔

اب وہ فراٹے بھرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھ رہے تھے ،کچھ ہی دیر بعد دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے منزل پر پہنچ چکے تھے ، فیصلہ ہو چکا تھا،جیتنے والے نے اپنا گھوڑا پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ میرے خیال میں اس قوم کوبھی اب گھوڑے بدلنے کی ضرورت ہے ،اس قوم کے گھوڑے وہ حکمران ہیں جنہوں نے 68سالوں سے اس قوم کو دائروں میں محدود کر کے رکھ دیا ہے ، ہم دائروں میں مقید ایک قوم ہیں اور اب ہمیں ان دائروں سے نکلنے اور آگے بڑھنے کے لیئے ان گھوڑوں سے جا ن چھڑانی ہے ،اور اگر اب بھی ہم نے یہ گھوڑے نہ بدلے تو پھر مان لیں کہ ہمارا مقدر کبھی نہیں بدلے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :