احوال وادی سون سکیسرضلع خوشاب۔آخری قسط

پیر 24 اگست 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

وادی سون سکیسرمیں داخلے کے وقت کٹھوائی کے بعد کھوڑہ کی آبادی ہے ،جہاں سڑک کے دونوں جانب گھنے سرسبزدرختوں سے بھرے پہاڑ، لہلاتے کھیت ، تازہ ٹھنڈی ہوا اور دلکش نظارے وادی میں داخل ہونے والے کا استقبال کرتے ہیں۔
سوڈھی کے مقام پرقدرتی حسن سے مالا مال پہاڑوں میں گھرا قدیم ،خوبصورت تاریخی باغ ہے۔ اس باغ میں موجود قدیم ، پھل دار درخت ، انواع واقسام کے پھول اور باغ کے درمیان سے چشمہ کا بہتاپانی یہاں کے ماحول کو سحرانگیز بنا دیتا ہے۔

یہاں محکمہء جنگلات کا ریسٹ ہاؤس ہے ۔ جہاں محکمہ سے اجازت نامہ کے بعد قیام کیا جاسکتا ہے۔
سکیسرپہاڑ کے دامن میں اوچھالی جھیل ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ پہاڑ پر آبادی اور جھیل کا نظارہ بہت ہی دلکش اوردلفریب ہے۔ اسی طرح صادق آباد(پرانا نام کفری)کے مقام پر بھی ایک بہت ہی خوبصوت جھیل ہے۔

(جاری ہے)

جس کے ساتھ پھول دار پودے اور سرسبز درختوں پر چہچہاتے پرندے اس خوبصورت مقام کی سیر کرنے والوں کی یادوں کو مزید حسین اور یادگار بنادیتے ہیں۔

اسی طرح موسم سرما میں سائبیریا اور دیگر ممالک سے ہجرت کرکے آنے والے بے شمار پرندے اس علاقے کی جھیلوں کے حسن ، خوبصورتی اور شان میں قابل ذکر اضافہ کردیتے ہیں۔ کھبیکی کے مقام پر 1کلومیڑ لمبی اور2کلومیڑ چوڑی قدرتی جھیل ہے۔جس کا پانی نمکین اور ناقابل استعمال ہے۔ مگر اب کہا جاتا ہے کہ اس جھیل کا پانی معجزاتی طور پر قدرے میٹھا ہوچُکا ہے ۔

یہاں چائنہ کی BREED FISH کی افزائش کی جارہی ہے۔ جھیل کی سیرسے لطف اندوز ہونے کے لئے کشتیا ں موجود ہیں۔
یہاں کی بزرگ ہستیوں کی یادگاروں میں پیر بابا محمد خوشحال کبھیکی،پیل پیراں چلہ گاہ بہاؤالدین زکریا ملتانی(حضرت بہاؤالحق رحمت اللہ علیہ) ، باباشاہ فتح اللہ ہمدانی جابہ، بابا شیخ اکبردین دربارِ عالیّہ چشتیہ اکبریہ اُگالی شریف اور بابا بیری والا کا مزار نوشہرہ واقع ہیں۔


تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اورماضی کی بڑی قدآور شخصیات صدرایوب خان ،صدر سردارفاروق لغاری نے اس علاقے میں شکار،سوڈھی باغ کی سیراوریہاں کے صحت افزاء ماحول میں متعدد بار قیام کیا۔ گرمیوں کے موسم میں دوردرازعلاقوں سے لوگ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اس پُرسکون ماحول کی طرف کے لئے آتے ہیں۔اس کے علاوہ پھلواڑی باغ اور کرھڈی باغ بھی بہت خوبصورت مقامات ہیں۔

وادی سون سکیسر کے علاقہ عنب شریف میں ہندؤوں ، سکھوں کی قدیم مذہبی یادگاریں ابھی تک موجود ہیں۔
ادبی شخصیات میں احمد ندیم قاسمی، عبدالقادر حسن اور حضرت مولانا غلام مُرشد خطیب بادشاہی مسجد لاہورسمیت وادی سون سکیسرسے تعلق رکھنے وا لی بے شمار نامورہستیاں ہیں جنہوں نے سیاست،صحافت ،میڈیا ،شعروادب،صحت، تعلیم وکھیل اور ملکی دفاع میں قومی اور بین الاقوامی سطح پراپنا آپ منوا کر پاکستان کے استحکام اور تعمیروترقی میں اہم کردار ادا کیا۔


اس علاقہ میں بے شمار ایسے مقامات اورپہاڑی درّے ہیں جہاں انتہائی کم لاگت سے چھوٹے چھوٹے ڈیم اور ہوا سے چلنے والے بجلی گھر بنا کرمقامی آبادی کے لئے بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں، کوئلہ ،نمک، چینی کے برتن بنانے والی ریت، قیمتی پتھرکے علاوہ قدرت کے بیش بہا خزانے موجود ہیں۔

جنہیں مناسب منصوبہ بندی، تھوڑی سی محنت اور توجہ سے اس علاقے کے عوام کی فلاح اور پورے ملک کی ترقی وخوشحالی کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے۔
وادی سون سکیسر کے مقامی لوگوں ہی سے ہردورِ حکومت میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے اس علاقے کے لوگوں کے ووٹ کی طاقت سے منتخب ہوتے ہیں۔ ماضی میں سابق وفاقی وزیر ملک کرم بخش اعوان ، ملک نعیم اعوان کئی سال وزارت کے عہدہ پر براجمان رہے۔

اس کے علاوہ ملک مختار صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے۔ پرویز مشرف کے دور سے سمیرا ملک قومی اسمبلی(آج کل سمیراملک کابیٹا عذیرملک) اسی طرح ملک شاکربشیراعوان ،ملک جاوید اعوان قومی وصوبائی اسمبلی کی نمائیندگی کے منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ان کے علاوہ بے شمارایسی قدآور سیاسی شخصیات ہیں جو علاقائی ، صوبائی اور قومی سیاست میں اہم مقام رکھتی ہیں۔

لیکن ہر حکومت اور اس میں شامل مقامی نمائندوں نے اس علاقے کوغالباََ یہ سوچ کر نظرانداز کیاکہ یہ علاقہ تو پہلے ہی قدرتی طورپرخوبصورت اور صحت افزاء مقام ہے لہذا ایک مسلمان ہونے کے ناطے قدرت کے معاملات میں مداخلت کرنامناسب نہیں ۔
بے روزگاری کے سبب یہاں کے نوجوان دن رات بے مہارا پھرتے ہیں، کبھی کسی گلی کی نکڑپرتو کبھی بس سٹینڈ،کبھی کسی چوک میں بیٹھ جاتے ہیں تو کبھی کہیں کارُخ کرلیتے ہیں۔

ان کی اس آوارگی سے نہ صرف ان کے بوڑھے والدین پریشان ہیں بلکہ سارا علاقہ ان کی آوارہ گردی سے نالاں ہے۔ یہاں کے نمائندوں نے اس علاقہ میں کھیل کے میدان اورپارکس تعمیر کروائے ہوتے ، یہاں لائبریریاں تعمیرکروائی ہوتیں۔جس سے ان کی سوچ وفکرمیں مثبت تبدیلی آتی اوریہ لوگ معاشرے کی تعمیرمیں اپنا کردارا داکرتے اوراپنے فارغ اوقات کو اجتماعی فلاح و بہبود کے لئے استعمال میں لاتے۔


وادی سون سکیسر کے مسائل گوناں گوں نوعیت کے ہیں۔اس علاقہ میں زیادہ ترمسلم لیگ (ن)کے نمائندے منتخب ہوتے رہے۔ 1985سے اب تک مجموعی طور پر30سال پنجاب کی حکمرانی میاں صاحبان کے پاس رہی۔ مگراس علاقہ کو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے نظرانداز کیاجاتا رہا،یہاں کے سیاسی پنڈتوں نے ہمیشہ دروغ گوئی اورجھوٹے وعدوں سے عوام کا دل بہلایا،غریب عوام کے مقدر سنوانے کے دعوے کیے،مگرعملاََ یہاں کے سیاستدانوں کی اس علاقے کی ترقی وخوشحالی،یہاں کے عوام کے مسائل کے حل میں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔

اگر کہیں صحت کے مراکز موجود ہیں تو ڈاکٹر موجود نہیں اور اگرڈاکٹر ہے تو ادویات میسر نہیں۔یہاں کے سرکاری سکولوں کی عمارتیں بوسیدہ اورٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،باتھ روم نہیں، طلباء کے بیٹھنے کے لئے فرنیچرنہیں۔یہاں تک کہ یہاں کے عوام روزگاراورپینے کے صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم اورانتہائی پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

جسے اہل سون سکیسرکے ارباب اختیار،سیاستدانوں اور موجودہ وسابقہ حکومتوں کی دانستہ غفلت اور لاپرواہی کامرتکب قراردیاجاسکتاہے ۔وادی سون سکیسر کے لوگوں کے ساتھ اس غیرمنصفانہ سلوک کے سبب ہر محب وطن کی آنکھیں اشکبار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔
وادی ِ سون سکیسرجیسے خوبصورت علاقے کو اہمیت نہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔سیروسیاحت کا شعبہ موجودہ دور میں سب سے منافع بخش صنعت کا درجہ رکھتا ہے اور تمام ممالک میں سیر وسیاحت کے مقامات کوجدیداور سائنسی بنیادوں پرترقی دی جارہی ہے ۔

قدرت کی اس خوبصورت عطاء وادی ِ سون سکیسر کی مناسب دیکھ بھال ، یہاں کے سرسبزو خوبصورت اور قدرتی مقامات کی تزئین و آرائش سے پارکوں اورسیروتفریحی مقامات میں تبدیل کیا جاسکتاہے۔یہاں بچوں کے کھیلنے کے بنیادی آلات کابندوبست کیا جائے اورکچھ مزیدپوائنٹس،ریسٹورینٹ، ریسٹ ہاؤس اور ترقیاتی پروگرام ترتیب دیئے جائیں تو انتہائی مناسب اور کم لاگت سے نہ صرف قرب وجواہر کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو سیروسیاحت اورتفریح کے مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں، بلکہ افراتفری،خودغرضی، دہشت گردی ،پریشان کن حالات سے نبردآزما مقامی لوگوں کے روزگار کے مواقع میں خاطرخواہ اضافہ سے یہاں کے لوگوں کا معیارِ زندگی مزیدبہتر بنانے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی سوچ وفکر کو مثبت اور تعمیری
سرگرمیوں کی طرف منتقل کرنے میں مددگارماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔


وادی سون سکیسر کی پسماندگی اورموجودہ صورت حال کے بڑی حدتک ذمہ داراورقصوروار یہاں کے مقامی لوگ خود ہیں۔کیونکہ آج بھی یہ لوگ ذات،برادری ،تعلق اوردوستی کواہمیت دیتے ہیں۔ ان کی ترجیح آج بھی تھانہ ،کچہری اوراسلحہ کے لائسنس کاحصول ہے۔ ان کے ووٹوں کی بدولت منتخب سیاسی شخصیات اس علاقہ کے لئے کچھ بھی نہ کریں، بس پانچ سال میں صرف ایک بار ان کے ہاں کسی فوتگی پر فاتحہ خوانی پر آجائیں تو یہ بات ان کے لئے اپنے علاقے کی ترقی و خوشحالی کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابل فخراورقابل ستائش ہے۔

یہ لوگ جب تک اپنی ترجیحات نہیں بدلیں گے، جب تک برادری اوربزرگوں کی دوستی کے مقابلے میں پرفارمنس کی بنیاد پراپنے نمائندے منتخب نہیں کریں گے،یہاں کے لوگوں اور اس علاقہ کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہے گا، جوکچھ آج تک ہوتا آیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :