ڈاکٹر صاحب!!! ۔۔ کوٹ مختلف ہے

ہفتہ 22 اگست 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

سوشل میڈیا کبھی بھی سینئر تجزیہ کاروں کا " موسٹ فیورٹ" میڈیم " نہیں رہا (بظاہر)۔تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی ضد سوشل میڈیا ہے جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سوشل میڈیا صرف اور صرف اطلاعات و معلومات کی تیز ترین رسائی کا ایک مکمل اور مفید ذریعہ ہے۔ بہر حال سنیئر تجزیہ کاروں کا"کاں"کیوں کہ سفید ہی رہے گا اس لیے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔

کیوں کہ ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی کسی عقلی دلیل کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو ارشاد ہوتا ہے کہ " ایک تو یہ بحث بہت کرتا ہے" ۔
سوشل میڈیا پہ تنقید تو فرض عین ہی سہی لیکن الیکڑانک میڈیا کا حال بھی دوپہر کے اخبارات سے کچھ الگ نہیں ہے۔ جب ایک عرصے تک دن کو شائع ہونے والے اخبارات میں کوئی کام کی چیز ڈھونڈنے سے بھی نہ ملی تو سر پھروں کے ایک " ٹولے" نے دن کے اخبارات کو نام ہی " جھکڑ جھولا" کا دے دیا۔

(جاری ہے)

یہ ہے تو ٹھیٹھ پنجابی کم پوٹھوہاری زبان کا لفظ لیکن اس کو تھوڑا اردو سمجھ بوجھ کے مطابق لکھا ہے جس کے لغوی معنی آندھی طوفان کے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل الیکٹرانک میڈیا بھی مکمل طور پر جھکڑ جھولا کی اصطلاح پر پورا اتر رہا ہے۔کیوں الیکٹرانک میڈیا پر نظر آنے والی خبروں کا ایک بہت بڑا حصہ غیر تصدیق شدہ ہوتا ہے۔ اور صرف بریکنگ نیوز کے چکر میں دکھا دیا جاتا ہے۔


محترم حمید گل صاحب کی وفات یقینا ایک ایسا نقصان ہے جس کی کمی پوری نہیں کی جا سکے گی۔ لیکن اس معاملے پر ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے اپنی علمی صلاحیت جھاڑنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ حمید گل صاحب کے جنازے میں آرمی چیف کی شرکت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی لیکن ڈاکٹر صاحب نے اسی رات اپنے پروگرام میں حمید گل کے جنازے کی ایک تصویر یوں لب کشائی کر کے شیئر کی کہ جیسے کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آرمی چیف سابق آئی ایس آئی چیف کے جنازے میں شریک ہوئے ہیں۔

بریکنگ نیوز اور ایکسکلوزو سٹوری کے چکر میں ڈاکٹر صاحب یہ حقیقت بھی نظر انداز کر گئے کہ جس تصویر کو وہ حمید گل صاحب کے جنازے کی ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے وہ در اصل آرمی چیف کی والدہ محترمہ کے جنازے کی تھی ۔اور غلط تصویر کے بارے میں وہ ارشاد فرما رہے تھے کہ یہ ایکسکلوزو تصویر ہے۔
انتخاب بھی مکمل تھا کہ تصویر موقع محل کے مطابق غیر واضح سی تھی۔

لباس بھی تقریباً مکمل طور پر وہی تھا۔ لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کی " جھکڑ جھولا" سٹوری اور سارے کیے کرائے پر پانی صرف ایک کوٹ نے پھیر دیا۔ کیوں کہ آرمی چیف نے اپنی والدہ کے جنازے میں گرے رنگ کا کوٹ زیب تن کیا تھا جب کہ حمید گل صاحب کے جنازے میں وہ کالا کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ شاید ایک کوٹ کے رنگ پر ڈاکٹر صاحب کی نظر ہی نہیں پڑی ورنہ وہ اس حقیقت کو ہرگز نظر انداز نہ کرتے اور کچھ ممکن نہ ہوتا تو شاید کوٹ کا رنگ ہی تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ۔

لیکن شو مئی قسمت کے سوشل میڈیا کے "شرارتی کاکوں" نے کوٹ کا رنگ ISPR کے آفیشل پریس ریلیز سے نکال سامنے کیا۔اگر کسی قسم کا شک ہو تو www.ispr.gov.pk پر جا کر حمید گل مرحوم کے جنازے کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔
سوشل میڈیا کو برا کہنے والے الیکٹرانک میڈیا کے بڑے بڑے نام یہ تصویر بناء کسی تحقیق اور سمجھ کے آگے پھیلاتے نظر آئے۔ اس سے یہ اندازہ لگنا ہرگز مشکل نہیں ہے کہ صحافت کا معیار کن اعلیٰ جہتوں تک پہنچ چکا ہے۔

کچھ بعید نہیں کہ یہ بلاگ بھی الیکٹرانک میڈیا و پرنٹ میڈیا کے سرخیلوں کو گراں گزرے اور دوبارہ سوشل میڈیا پر لعن طعن کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہے۔اور مجھے قوی امید ہے کہ پٹیل صاحب لعن طعن جھیلنے میں یقینا مجھ سے ساجھے داری ضرور رکھیں گے۔ چلیں اگر ڈاکٹر صاحب کی صحافت پہ ہماری شرارتوں سے حرف آئے تو ہم معذرت خواہ ہیں۔ اور ڈاکٹر صاحب کو فالو کرنے والے شاید ویسے بھی بے چارے رحم کے قابل ہیں کیوں کہ جس طرح کا تجزیہ ڈاکٹر صاحب کرتے ہیں اس سے تو تاثر یہی جاتا ہے کہ بس آج کا دن آخری اور کل قیامت ۔

سوشل میڈیا پہ تنقید اپنی جگہ لیکن اپنی" کَل" کو سیدھا نہ کرنا بھی کہاں کا انصاف ٹھہرا۔ جناب ہمیں نہ تو ڈاکٹر ہونے پہ اعتراض ہے نہ ہی ہمیں علمیت پہ کوئی مسلہ ہے۔ ہمیں تو مسلہ صرف اور صرف غیر ذمہ دارانہ صحافت سے ہے۔ سوشل میڈیا پہ نوجوانانِ وطن فارغ الوقت ہی نہیں بلکہ یہاں بھی کام ہوتا ہے۔ اگر نہ ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کو کوٹ کا رنگ کیسے یاد دلایا جاتا۔اور اگر سوشل میڈیا اتنا ہی برا ہوتا تو یہ بڑے بڑے نام لاکھوں کے حساب سے لائیک کو اپنی کارکردگی نہ گنوا رہے ہوتے ۔
باقی آپ جتنی مرضی پیش گوئیاں کریں۔ جتنے مرضی پروگرامز گھنٹوں کے حساب سے کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ صرف اتنا کہنا ہے کہ "ڈاکٹر صاحب! کوٹ مختلف ہے"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :