تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں

جمعرات 20 اگست 2015

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

ہفتے کی رات رگ وپے میں درد کی لہروں کو جنم دینے والی یہ خبرپہنچی کہ اسلام اورپاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے جنرل (ر) حمیدگُل اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔وہ رات اہلِ وطن پربہت بھاری تھی کہ مسلم اُمہ کے لیے ہمہ وقت تڑپنے ،مچلنے والادِل ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا ۔جنرل (ر) حمیدگُل کے خیالات سے تواختلاف کیاجا سکتاہے کہ معصوم عن الخطاکوئی بھی نہیں اورکامل صرف ذات ِ ربی لیکن اُن کی مسلمانیت اورپاکستانیت شک وشبہ سے بالاتر۔

عالمِ اسلام کا وہ سچا سپاہی اللہ کے نظام کے نفاذ کی بات ایسے خوبصورت پیرائے میں کرتا کہ مسلوب الحواس سیکولردانشور تلملاء اٹھتے ۔اِن نام نہاد ”لبرلز“ کوشکایت یہ تھی کہ یہ دبنگ جرنیل نظریہٴ پاکستان کی تشریح دینِ مبیں کے حوالے سے کیوں کرتاہے حالانکہ ہم نے تویہ ملک ہی لاالہ اللہ کی بنیادپر حاصل کیا اورقائدِاعظم کاخواب بھی اسے ”اسلام کی تجربہ گاہ“ بنانے کاہی تھا ۔

(جاری ہے)

قائد کایہ خواب تاحال ادھوراہے اورشاید ادھوراہی رہے کہ ہماری نیتوں میں فتور ہے ۔ہم نے قراردادِمقاصد کوآئین کاحصّہ توبنا دیالیکن چار عشرے گزر چکے ،تاحال عمل مفقود ہ ۔اسی بناپر جنرل (ر) حمیدگُل ایسی جمہوریت سے بَدظن تھے جوقراردادِ مقاصدکی پابندتھی نہ ہے ۔معروف لکھاری محترم روٴف طاہر لکھتے ہیں”وہ جمہوریت کوخلافِ اسلام قراردیتے (حالانکہ پاکستانی جمہوریت مغرب کی مادرپدر آزادجمہوریت کے برعکس قراردادِمقاصد کی پابندہے)“۔

بصدادب گزارش ہے کہ محترم بھائی روٴف طاہر ہمیں بھی ”قراردادِمقاصد “کی تابع جمہوریت کی ہلکی سی جھلک دکھادیں تاکہ ہم بھی اِس ”بی بی جمہوریت“ کی زلفِ گر ہ گیرکے اسیرہو سکیں۔ ہماراتو المیہ ہی یہ ہے کہ ہم جوکہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔اگرجنرل (ر) حمیدگُل ایسی ”جمہوریت“ سے بدظن تھے توایسے غلط بھی نہیں تھے ۔اُن کی توساری زندگی یہی درس دیتے گزری کہ نیابتِ الٰہی میں ہی فلاحِ انسانیت مضمرہے۔


اتوارکی صبح سوگوارسی تھی اوربقول ناصرکاظمی یوں محسوس ہوتاتھا کہ جیسے
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
اسی سوگواراور بوجھل فضاء میں اچانک یہ خبرگونجی کہ اٹک میں کرنل(ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرے پرخودکش حملہ ہوگیا۔ نیوزچینلز پر پھیلتی خبروں میں پَل پَل بڑھتی شہادتوں کا ذکرتوہوتا رہالیکن کرنل صاحب کی خیریت کی خبرمفقود۔

پھرایسی خبریںآ نے لگیں کہ کرنل صاحب زندہ توہیں لیکن شدید زخمی اور بالآخر یہ بریکنگ نیوزکہ وہ شہیدہو گئے۔ اسم با مسمٰی شجاع خانزادہ کوتو شہیدہونا ہی تھاکہ اُن کامطلوب ومقصودہی شہادت تھا۔ یادآیا کہ بدرکا میدان ،سامنے غالب عددی اکثریت اورحربی سامان سے لیس مشرکینِ مکہ کی فوج ،دوسری طرف بے سروساماں 313 اللہ کے سپاہی۔ ایک صحابی مٹھی میں چندکھجوریں دبائے آقاﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا”یارسول اللہ! کیاجنت میں اِس سے بہترکھجوریں ملیں گی؟“۔

آقاﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ”یقیناََ بہت بہتر“۔ تب صحابی نے وہ کھجوریں زمین پرپھینک دیں اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے”اب جنت کی کھجوریں ہی کھاوٴں گا“۔ وہ میدانِ کارزارمیں دادِشجاعت دیتے ہوئے شہیدہوگئے کیونکہ اُنہیں یاد تھااور اُن کے ایمان کاحصہ بھی کہ شہیدکو مردہ مت کہو ،وہ زندہ ہے اوراپنے رب کے ہاں سے خوراک حاصل کررہا ہے۔

۔۔۔ پھریاد آیاکہ حضرت خالدبن ولید کی آنکھوں سے وقتِ رحلت آنسو رواں ہو گئے ۔اُن کے پاس کھڑے صحابی نے سوال کیا”کیا موت سے ڈرلگتا ہے؟“۔ آپ نے فرمایا”موت سے کیساخوف، میں تواِس لیے رورہا ہوں کہ ساری زندگی دشمن کی صفوں میں گھُس گھس کرحملے کرتارہا ،پھربھی شہادت نصیب میں نہیں تھی ،طبعی موت مررہا ہوں“۔لاریب شہادت کی سعادت نصیب والوں کے حصے میں ہی آتی ہے۔


کالعدم لشکرِ جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد کرنل شہیدکو دہشت گردوں کی طرف سے مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ خفیہ اداروں کی اطلاعات بھی یہی تھیں کہ ایک مخصوص گروہ کے اُنہیں اُن کی رہائش گاہ (شادی خاں) پرٹارگٹ کرناچاہتا ہے لیکن اُنہوں نے اِس کی مطلق پرواہ نہ کی ۔ایک اخبارنویس نے اُن سے سوال کیاکہ قتل کی دھمکیوں کے باوجود وہ اپنے گرد سکیورٹی حصار کیوں قائم نہیں کرتے؟۔

کرنل شہید کاجواب تھاکہ وہ ملک کی خاطرہر قربانی دینے کوتیار ہیں اور اُن کامطمعٴ نظرملک وقوم کی حفاظت ہے ،اپنی نہیں۔ایک سال سے بھی کم عرصے میں کاوٴنٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی تشکیلِ نَوکرکے کرنل شہیدنے دہشت گردی کے ناسورپر ایسی کاری ضرب لگائی کہ تمام دہشت گردتنظیموں نے مل کراُن کے خلاف محاذ قائم کرلیا۔ سامنے آکر کبھی نہ وارکرنے والے بزدل دشمن کی بزدلانہ کارروائی سے کرنل شجاع خانزادہ توشہید ہوگئے لیکن اُن کاجسدِ خاکی توآج بھی پکارپکار کے کہہ رہا ہے کہ
کرو کج جبیں سے سرِ کفن ، میرے دشمنوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب نے بھرائی ہوئی آوازمیں خونِ شہید کی قسم اٹھاکر کہاکہ وہ اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دہشت گردوں کو واصلِ جہنم نہیں کرلیتے۔

ہمیں یقین ہے کہ خادمِ اعلیٰ اپنے اِس عہدکی ضرورپاسداری کریں گے لیکن کرنل شہیدکی کمی توبہرحال محسوس ہوتی ہی رہے گی ۔وہ توباغِ بہشت سے ہنستے مسکراتے یہ پیغام دے چکے کہ
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
لیکن اُن کی شہادت کابدلہ ہم پرقرض ہے اورفرض بھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :