خدا کرے کہ میری ارض پاک پہ اترے

جمعرات 20 اگست 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

کئی سالوں بعد اس دفعہ جشن آزادی پر وہی جوش و ولولہ دیکھ کر بچپن کی یادیں ایک دفعہ پھر تازہ ہو گئیں۔ ہر چہرہ شاد اور مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ دور دراز علاقوں میں بھی میلے کا سماں تھا۔ ملکہ کوہسار مری میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ، اونچے اونچے پہاڑ اور سبز ہلالی پرچم ایک الگ ہی منظر پیش کر رہے تھے۔
کتنے عرصے بعد قائد کا پاکستان امن، سکون اور محبت کا گہوارہ محسوس ہو رہا تھا۔

پھر اگلے ہی لمحے دہشت گردی کی آگ میں جھلستی مملکت خداوند کو اپنے لہو کے نظرانے دینے اور اس آگ کو ٹھنڈا کر نے والے ان شہداکے لئے اپنے اللہ جی کے حضور دست دعا بلند ہو ئے۔
قارئین ! آزادی کے اس جشن کے موقع پر ایک اور حیرت انگیز چیز جو دیکھنے کو ملی وہ یہ تھی کہ اس سال میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ، اپنوں کو نوازنے کی اُس پرانی روش کو ختم کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں ستارہ امتیاز کے لئے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا گیا جو واقعی اس سر سبزو شاداب مملکت کی خد مت میں شب و روز مصروف عمل اور جو اس کے مستحق ہیں۔

(جاری ہے)

صدر پاکستان ممنون حسین نے 14 اگست 2015ء کو یوم آزادی کے موقع پر غیر سرکاری، غیر منافع بخش، فلاحی ادارے کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے صدر و کلکٹر کسٹمز ڈاکٹر آصف محمود جاہ کو ستارئہ امتیاز کا اعزاز عطا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب اپنی سرکاری ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اب تک لاکھوں مریضوں کا کامیاب اور مفت علاج کر چکے ہیں۔

وہ پچھلے 23 سال سے دفتر سے آنے کے بعد روزانہ اپنے فلاحی ہسپتال میں غریب اور نادار مریضوں کا مفت علاج کر رہے ہیں۔ ملک کے کسی بھی حصے میں جب بھی زلزلہ، سیلاب یا قحط کی صورت میں کوئی آفت آئی، ڈاکٹر آصف محمود جاہ اپنی ٹیم کے ہمراہ وہاں پہنچے اور آفت زدوں کی فوری مدد کی۔ آج کل ڈاکٹر آصف محمود جاہ اپنی ٹیم کے ساتھ جنوبی پنجاب اور چترال میں سیلاب زدگان کی خدمت اور بحالی، بنوں میں شمالی وزیرستان کے IDPs کی خدمت اور علاج، تھر میں لوگوں کی پیاس بجھانے کے لیے کنوئیں بنوانے اور سیلاب متاثرین کے لیے گھر بنوانے میں مصروف ہیں۔

8 اکتوبر 2005ء کا کشمیر اور خیبرپختونخواہ میں آنے والا زلزلہ، 28 اکتوبر 2008ء کو زیارت کا زلزلہ، 2009ء میں IDPs کا مسئلہ، 2010ء میں عطا آباد جھیل، 2010-11ء کے خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں آنے والے سیلاب، 2011ء میں سندھ میں سیلاب، 2012-13 میں جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں سیلاب، اپریل و ستمبر 2013ء میں ماشکیل اور آواران، بلوچستان میں زلزلہ، مارچ 2014ء میں سندھ میں قحط، جون 2014ء میں بنوں میں شمالی وزیرستان سے آئے لاکھوں متاثرین کی خدمت اور علاج، ستمبر 2014ء میں پنجاب میں سیلاب، مئی 2015ء میں پشاور میں طوفان بردو باراں یا پھر چترال اور جنوبی پنجاب میں حالیہ سیلاب ڈاکٹر آصف محمود جاہ مصیبت کی ان تمام گھڑیوں میں متاثرین کی مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچے۔

اربوں روپے کی امدادی اشیاء تقسیم کیں۔ لاکھوں مریضوں کا علاج کیا اور سیلاب زدگان اور زلزلہ زدگان کے لیے خیبرپختونخواہ، سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب میں 750 سے زائد گھر اور 35 مساجد اور کئی سکول تعمیر کروائے۔ تھر کے قحط زدہ لوگوں کے لیے اب تک میٹھے پانی کے 100 سے زیادہ کنوئیں بنوا چکے ہیں۔ ملک کے چاروں صوبوں میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی نگرانی میں ہیلتھ کلینکس، سکولز، کمیونٹی سنٹرز اور کئی دوسرے پراجیکٹس کامیابی سے چل رہے ہیں۔

سال 2012ء میں حج کے دوران انہوں نے سینکڑوں ملکی اور غیر ملکی حاجیوں کا علاج کیا۔ اور یوں بیرون ملک پاکستان کا نام روشن کیا۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ ایک معروف سوشل ورکر ہو نے کے ساتھ بلا کے ادیب بھی ہیں اور ان کی تحریروں کا یہ خاصہ ہے کہ دل پر اثر چھوڑ کے انسان کو عمل پر ابھارتی ہیں۔ انہی تحریروں کو انہوں نے 20 سے زیادہ کتابوں میں جمع کر رکھا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں عوام الناس میں مقبول ہیں۔
مجھے امید ہے کہ اگر ہماری قومی قیادت اسی رستے کی مسافر رہی اور اس معاشرے میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ جیسے لوگوں کو یو نہی عزت ملتی رہے تو کوئی بعید نہیں کہ کچھ ہی سالوں میں ملک عزیز ترقی کی شاہراہ کا مسافر نہ بنے۔ خدا کرے کہ احمد ندیم قاسمی کی دعا کو قبولیت حاصل ہو۔
خدا کرے کہ میری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :