جالندھر اور مشرقی پنجاب والے

جمعرات 20 اگست 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

ضیاء الحق مرحوم کا آبائی شہر جالندھر تھا جو مشرقی پنجاب یا بھارتی پنجاب کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ مشرقی پنجاب اور بالخصوص اپنے آبائی شہر جالندھر سے محبت و انسیت کا برملا اظہار جس عملی انداز سے محترم نے جمہوری پاکستان کی لگامیں کھینچنے کے بعد کیا ظاہرکرتا ہے کہ حضرت کو اپنی جنم بھومی کے خمیر پر کیسا پختہ یقین اور اطمینان تھا۔

موصوف نے آپریشن فیئر پلے کی کمان اپنے مرشد لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی کے سپرد کی جو انہی کی طرح جالندھر کی پیدائش تھے۔ عجب تعلق تھا مرشد و مرید کا کہ مرید کا حکم مرشد بجا لاتا تھا۔لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی مریدِ اعظم کا اشارہ پاکر منتخب عوامی حکومت پر شب خون مارنے بڑھے تومرید فرماتے ہیں’ مرشدی مروا نہ دینا‘۔

(جاری ہے)

انہی مرشدی کے ہاتھوں میں مارشل لاء حکام اور سیاسی قائیدین کے مابین باہمی امور اور شراکتِ اقتدار بارے بات چیت کے مقاصد سے تشکیل دیے گئے الیکشن سیل کے معاملات بھی تھے۔

لاہور ہائیکورٹ کے تاریخ ساز قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین جنہوں نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بنچ کی سربراہی سرانجام دیتے ہوئے بھٹو صاحب کے لئے پھانسی کی سزا مقرر کی بدقسمتی سے ان کا تعلق بھی مشرقی پنجاب کے اسی شہر جالندھر سے تھا اورقائم مقام چیف جسٹس کے عہدے پر ان کی تقرری محض جالندھری ضیاء صاحب کے طفیل سبب ہوئی تھی۔

دلچسپ بات ہے کہ چیف جسٹس شیخ انوار الحق جنہیں جنرل ضیاء الحق کے اصرار پر صدر فضل الہی نے جبری ریٹائرمنٹ دینے والے اعلی اقدار کے حامل چیف جسٹس یعقوب علی خان کی جگہ تعینات کیا تھا جالندھر ہی سے تھے۔ جالندھر کے اس سپوت نے بھی مٹی کا حق ادا کرنے میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی اور نظریہ ضرورت کو دوام بخشتے ہوئے مارشل لاء کو قانونی تحفظ فراہم کیا اور بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کو سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد محض سلطانی گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر مسترد کرتے ہوئے پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکرہے کہ یہ پہلے جج تھے جنہوں نے 1981 کے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا تھا جس کی ظاہری وجہ اپنی سرکردہ غلطیوں کا اعتراف و ازالہ تھی ۔ اسی طرح جنرل اختر عبدالرحمن جو1979 سے1987 تک آئی ایس آئی کے سربراہ ، افغان جنگ کے روحِ رواں اور پھر 17 اگست 1988 تک چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی رہے کی پرورش اور تعلیم مشرقی پنجاب کے دو شہروں جالندھر اور امرتسر میں ہوئی ۔

جنرل صاحب جہانِ فانی سے کوچ کے وقت پاکستان کے دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ دیگر کئی اہم معاملات پر اختلافات کے علاوہ اوجڑی کیمپ کے واقعے پر جنرل اختر عبدالرحمن کوذمہ دار ٹھہرانے کی پاداش میں صدر جنرل ضیاء الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو میں جو اختلافات پیدا ہوئے بالآخر ضیاء الحق کی جانب سے اپنے ہی چنندہ وزیر اعظم کی برطرفی پر منتج ہوئے۔

جنرل خالد محمود عارف جو مارشل لاء کے نفاذ کے آغاز سے ہی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دستِ راست بن گئے تھے اور اس کے بعد ترقی کی منازل طے کرتے وائس چیف آف آرمی سٹاف بھی مقرر ہوئے کا تعلق بھی مشرقی پنجاب سے تھا۔ انہی جنرل خالد محمود عارف کے بارے میں یہ رائے قائم ہے کہ اگر یہ ضیاء الحق کے ہمراہ نہ ہوتے تو ان کا سیاہ دورِ اقتدار اس قدر طوالت اختیار نہیں کر سکتا تھا۔


ہر شہر یا علاقے کی کچھ اچھائیاں اور برائیاں ہوتی ہیں۔ اب یہ مشرقی پنجاب کی بد قسمتی کہہ لیجئے کہ تمام اچھائیوں کو چھوڑ کر اِس طرف والوں کو جالندھر اور مشرقی پنجاب کے سپوتوں کے آپسی بھائی چارے اور محبت کا بدترین تجربہ ہوا ہے۔اجزائے قدامت پسندی، ہوسِ اقتدار اور کج فہمی کے خوفناک امتزاج کے ایسے مہلک تجربہ میں شمولیت رکھنے والے افراد کا ایک خاص شہر یا علاقے سے تعلق ہونا محض اتفاق کی بات تھی یا اس انتخاب کے پیچھے کسی قسم کی نفسیات بھی کارفرما تھی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں معلوم حقیقت ہے کہ یہ صاحب انتہائی کم لوگوں پر اعتبار کرتے تھے ۔

اقتدار پر قبضے کے بعد اپنے جرنیلوں کے ارد گرد بھی ایسے سٹاف افسران کی تعیناتی کی جاتی تھی جو ان جرنیلوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھتے تھے۔اسی طرح کسی بھی قسم کی اندرونی سازش و سبوتاژ سے بچے رہنے کی حکمتِ عملی کے تحت فوجی افسران کی تعیناتی، تبادلے اور ترقی کے تمام معاملات پر جنرل ضیاء اپنے قریبی وفادار ساتھیوں کی مدد سے انتہائی گہری نظر اور اختیار رکھتے تھے جبکہ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ بوقتِ سفر زیادہ سے زیادہ اہم ترین افراد کوساتھ کر لینا اسی حکمتِ عملی کا اہم جز تھا۔

آخری سفر میں بھی مرحوم کے ہمراہ جنرل اختر عبدالرحمن کے علاوہ چوٹی کے پاکستانی جرنیل ، پاکستان میں تعینات ایک امریکی فوجی عہدیدار اور ایک امریکی سفیر شامل تھے۔ جبکہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ آخری وقت پر جنرل ضیاء الحق کے اصرار کے باوجود اُس جہاز میں سوار ہونے سے بال بال بچے تھے۔ان عادات و اطورار سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اپنی اغراض کے حصول کی خاطر ہم خیال اذہان اور شخصیات منتخب کرنا اتفاق نہیں بلکہ ان کی ضرورت اور نفسیات کا حصہ تھی!
جنرل ضیاء الحق نے جدید ریاست کے تصورات کو جس بے دردی سے اقتدار کی ہوس اور رجعت پسندی کے سَر وار کر بدبختی کی آگ میں جھونکا اس کا خمیازہ پاکستان کی نسلیں بھگت رہی ہیں۔

نظریہ پاکستان کی اپنے ذہن اور تخیل کی بنیاد پر تشریح و تشکیلِ نوسے لے کربریگیڈیر ایس ۔کے۔ ملک کی سبز کتاب کے عملی نفاذو ترویج تک اور ملکی آئین و قوانین کو بدترین حد تک مسخ کرنے سے لے کر قومی اداروں کی تباہی، سیاسی نظام کی شکست و ریخت، مذہب کے نام پر قتال، فرقہ واریت، تعصب، انتہا پسندی، اسلحہ کلچر اور ملائیت کے فروغ تک کا سہرا بھی جالندھر کے اسی سپوت کے کارہائے نمایاں میں شامل ہے۔


بہرحال کارناموں کی اس طویل فہرست پر جالندھر اور مشرقی پنجاب والوں کو پشیماں ہونے کی ضرورت نہیں حالانکہ یوں تو اس قضیے میں ایک ہی ہاتھ کی بہت سی انگلیاں برابر نکل آئی ہیں پر عام طور پر ایسا ہوا نہیں کرتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ امکانات کی کائنات ہے!! آموں کے کریٹ پاک 1 کی تباہی کا سبب بنے یا وجوہات کچھ اور تھیں آج تک اس بارے میں بھی تو محض امکانات ہی ظاہر کیے جاسکے ہیں۔

اس کے باوجود لوگوں نے 17 اگست 1988 کے بعد نہ تو آم کھانے بند کیے ،نہ آموں سے محبت میں کمی آئی اور نہ ہی ہوائی جہاز میں آموں کا لادنا ترک کیا گیا ۔ آم کے کریٹ آج بھی اسی زور و شور سے ملک و بیرونِ ملک ہوائی جہازوں کے ذریعے ہی مسافروں کے ہمراہ درآمد بر آمد ہوتے ہیں۔ پاکستان نے جو بھگتنا تھا بھگت لیا بس اب تو خدا بھلا کرے آموں کا ، ہوائی جہازوں کا ، جالندھر اور مشرقی پنجاب والوں کا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :