ہم ایک ہیں؟

جمعرات 20 اگست 2015

Hussain Jan

حُسین جان

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں،سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔پڑھنے ،لکھنے،گانے اوردیکھنے میں یہ چندافسانوی الفاظ کسی بھی قوم کے متحد ہونے کی دلیل ہے۔دُنیا میں بیشمار ممالک ایسے ہیں جن کے لوگوں کی بولیاں ،ثقافت،رہن سہن، کھانا پینا،رسم و رواج یکسر ایک دوسرئے سے مختلف ہیں۔اس کے باوجود ان ممالک کے باسی ایک دوسرئے کے ساتھ پیار محبت سے رہتے ہیں ۔

اُن کے نزدیک اپنے مفادات سے زیادہ اہم ملکی مفاد ہوتا ہے۔ کیونکہ عوام ہی ملک کی بقاء کی زمانت ہوتے ہیں ۔ اگر عوام میں ہم اہنگی پائی جائے تو دُنیا کی کوئی طاقت اُن کو اپنے مقاصد حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔ ایسے ممالک میں قوم پرستی پر سیاست بھی کی جاتی ہے مگر اُن کے پیش نظر صرف اور صرف قوم پرستی ہی ہوتی ہے، وہ اپنی قوم کی سیاست میں دوسری قوموں پر الزام نہیں لگاتے۔

(جاری ہے)

جب کہ ہمارئے ہاں تو گنگا ہی اُلٹی بحہ رہی ہے۔ یہاں قوم پرست لیڈر سارا سارا دن قوم کو ایک دوسرئے سے لڑانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ سندھی ،بلوچی، پٹھان، پنجابی کے نام سے ایک دوسرئے کا خون حلال قرار دیا جاتا ہے۔
کتابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ بھارت میں ذات پات کا نظام بہت مضبوط ہے اور نچلی ذاتوں والوں کو اُنچی ذات والوں سے کسی قسم کا میل جول رکھنے کی اجازت نہیں۔

ایک دوسرئے سے نفرت کا بازار ہر وقت گرم رہتا ہے۔ ہم نے یہ باتیں اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھی صرف کتابوں کی حد تک ہی پڑھی ہیں۔ جبکہ اپنے ملک میں تو اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک ذات کے لوگ دوسری ذات کے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر کوئی وڑائچ صاحب ہیں تو شیخ صاحب کو چھوٹی ذات کا سمجھیں گے، ملک صاحب ہیں تو ٹوانہ صاحب کو آدمی نہیں سمجھیں گے، اس دور میں بھی ایسے جاہل لوگ موجود ہیں جو ذات سے باہر شادی نہیں کرتے، یعنی اُن کے نزدیک دوسری ذاتوں کے لوگ اس قابل ہی نہیں کہ اُن کے ہاں بیٹی یا بیٹے کی شادی کی جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں بکھری ہوئی قوم ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال بنگلہ دیش ہے۔ اگر ہم میں اتحاد نام کی کوئی چیز ہوتی تو بنگلہ دیش کبھی نا بنتا۔
غیر اعتمادی،تعصب،ذات پات، امیری غریبی ایسی لعنتیں ہیں جو کسی بھی قوم کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔ کراچی کو ہی دیکھ لیں ،وہاں مہاجر کارڈ اس بری طرح سے استعمال کیا گیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔

مہاجر ،پٹھان،سندھی کو لے کر خون کی نا رکنے والی ہولی کھیلی گئی۔ یہ تو اللہ بھلا کرئے پاکستان آرمی کا جس نے قوم پرستی کو ایک جانب رکھ کر آپریشن شروع کر رکھا ہے ،جس کے خوشگوار اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور روشنیوں کا شہر ایک دفعہ پھر اپنے ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ بلوچستان میں قوم پرستوں نے جس طرح دوسری قوموں کا خون بہایا ہے وہ بھی درندگی کی علامت ہے۔

پنجاب ،سندھ سے گئے ہوئے لوگوں کو چن چن کر مارا جاتا ہے۔
کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ ذات پات ،قوم پرستی کا نظام ہمارئے خون میں شامل ہے، آپ مغلوں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ،افغانوں کی تاریخ پڑھ لیں اقتدار اور قوم پرستی کی خاطر کروڑوں لوگوں کا خون بہایا گیا اور لاکھوں جنگں شروع کی گیں۔ شیر شاہ سوری جس کی ہمیں مثالیں دی جاتی ہیں کہ بہت اچھا منتظم تھا اُس نے بھی افغانوں کے مغلوں کے خلاف بھڑکایا اور جنگ کی۔

تعصب کا یہ عالم تھا کہ چچا کی اولاد کو بھی غیر سمجھا جاتا تھا کہ کہیں وہ اقتدار میں شامل نا ہو جایں۔ بادشاہوں پر جب برا وقت آتا تو وہ اپنے بدترین دشمنوں کو بھی ساتھ ملا لیتے اُس وقت نا وہ کسی کی ذات دیکھتے اور نا ہی مذہب کو دیکھا جاتا بس اپنا اُلو سیدھا کیا جاتا اور بعد میں پھر مذہب اور قوم کے نام پر لوگوں کو قتل کیا جاتا۔
قومی سطح کو تو چھوڑیں اپنے ہاں تو ایک گلی والے دوسری گلی والے سے ملنے کو روادار نہیں کہ وہ فلاں گلی کے رہنے والے ہیں یا وہ فلاں محلے کے رہنے والے ہیں۔

شریکا برادری کو جتنا پاکستان میں استعمال کیا گیا ہے اُتنا کہیں اور نہیں۔ یہاں تو الیکشن میں ووٹ بھی برادری کو دیکھ کر دیا جاتا ہے۔ اب جس قوم کا یہ حال ہو وہ کیسے ترقی کر سکتی ہے وہاں کیسے امن بحال ہو سکتا ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو غیر مسلموں کے ساتھ مل کر کھا پی تو لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُن کے غیر مسلم ہونے کو ایک طعنے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔

انسان کی تذلیل کرنا کون سا مذہب ہے۔ اسلام نے ہمیں امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے کا درس دیا ہے۔ ایک دوسرئے کے دکھ درد کو دور کرنا مسلمانوں کا شوہ ہے۔
قائد نے واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ پاکستان ایک ملک ہے اس کے تمام باشندے پہلے پاکستانی ہیں پھر سندھی بلوچی پٹھان اور پنجابی ہیں۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے قائد کے فرمودات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اب سب سے پہلے ہم اپنی ذات کا نام لکھتے ہیں پھر صوبے اور آخر میں ملک کا نام۔ یہ جو نام نہاد قوم پرست ملک سے باہر بیٹھ کر ملک کو ٹورنے کی باتیں کرتے ہیں ان کو سبق سیکھانا حکومت کا کام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دوسرئے ممالک سے کہے کہ ان دہشت گردوں کو ہمارئے حوالے کیا جائے تاکہ ان کو دوسرے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنایا جاسکے۔ پاکستان بہت قربانیوں کے بعد میں حاصل کیا گیا ہے۔

یہ دُنیا کا واحد ملک ہے جو مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا۔ ہمارا مذہب ہمیں مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے۔ اپنے ساتھ ساتھ اقلیتوں کی حضاظت کی زمہ داری بھی ہماری ہے۔ ایک دوسرئے کو دشمن سمجھنے کی روش ہمیں چھوڑنی ہو گی۔ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لانے کے لیے آپسی اختلافات کو بھلانہ ہو گا۔ اسی میں ہماری بقاء ہے۔ ذات پات کے نظام سے نکل کر قومی سطح کے دھارئے میں بحہ کر ہی ہم اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں ۔ اگر یہی حالات رہے تو ہمارا ترقی کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ اگر ایک جھنڈے کے سائے تلے ایک رہنا ہے تو دشمنوں کو باہر نکالنا ہو گا اور اُن کو سخت سے سکت سزائیں دینا ہوں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :