صرف ایک جملہ !

منگل 18 اگست 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

عباس اطہر پاکستانی صحافت کا بڑا نام تھے ۔ پاکستان کے موسٹ سینئر اور ستاد صحافیوں کی لسٹ بنائی جائے تو ان کا نام ٹاپ ٹین میں آئے گا۔ عباس اطہر کچھ عرصہ پہلے انتقال کر گئے ۔ وہ آخری سانس تک صحافت سے وابستہ رہے اور بلاشبہ وہ پاکستانی صحافت کا ایک روشن باب تھے ۔ ہماری جدید صحافت ان کی گود میں پل کر جوان ہوئی تھی اور اس وقت چالیس پلس کے اکثر صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن باالواسطہ یا بلا واسطہ شاہ صاحب کے شاگرد ہیں ۔

عباس اطہر12پریل1939کو لاہور کے قریب ایک گاوٴں غازی آباد میں پیدا ہوئے ، جنگ ،ساہیوال اور لاہور سے تعلیم حاصل کی ، ریلوے میں ملازم ہوئے ،ملازمت راس نہ آئی تو کراچی چلے گئے اور شوکت صدیقی کی زیر ادارت نکلنے والے اخبار ”انجام “میں سب ایڈیٹر بن گئے۔

(جاری ہے)

ایک سال بعد کراچی چھوڑ کر لاہور آگئے اور ”امروز“سے وابستگی اختیار کر لی ۔ انہوں نے رپورٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور نیوز ایڈیٹر،ایڈیٹر،کالم نگار اور اینکر پرسن کے عہدے تک پہنچے۔

انہوں نے صحافت کے تمام شعبوں میں انمٹ نقوش چھوڑے ،مختلف صحافتی تنظیموں کے مرکزی عہدوں پر فائز رہے ۔ بطور نیوز ایڈیٹر ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ،وہ خبر کی سرخی بنانے کے فن میں ماہر تھے اور ان کی بنائی ہوئی سرخیاں آج ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہیں ۔سانحہ مشرقی پاکستان پر ان کی بنائی ہوئی سرخی ”ادھر ہم ادھر تم “ آج زبان زد عام ہے ۔

ضیا الحق کی حکومت قائم ہوئی انہوں نے اس خلاف کھل کر لکھا ، حالات ساز گار نہ رہے تو 1981میں امریکہ چلے گئے اور 1988تک وہیں رہے ،بینظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو واپس آئے ،مساوات،صداقت، خبریں اور نوائے وقت سے ہوتے ہوئے ایکسپریس سے منسلک ہو گئے ۔ وہ وفات تک ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر رہے ، کچھ عرصے تک ایکسپریس نیوز چینل پر ”کالم کار“ کے نام سے کرنٹ افیر کا پروگرام بھی کیا ۔

عباس اطہر کی تمام خوبیاں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہیرا تراشنے کے فن میں یکتا تھے ، انہوں نے کئی معمولی نوجوانوں کو وقت کا سب سے بڑ صحافی ، کالم نگار اور اینکر پرسن بنا یا تھا اور پاکستان کی جدید صحافت ان کی اس خوبی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ وہ بڑے کھلے دل کے مالک تھے اور ان کا ظرف بڑا وسیع تھا ۔

وہ آفس میں آنے والے ہر نوجوان کی حوصلہ افزائی کرتے ، اسے لکھنے کا موقعہ دیتے ، اس کی نوک پلک سنوارتے اور پھر اس کی اشاعت کا اہتمام بھی کرتے ۔
در اصل نئے آنے والوں کے لیئے صحافت ایک مشکل ترین پیشہ ہے ، اگر ایک نوجوان صحافت میں آنے کا شوق رکھتا ہے تو اسے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ صحافت میں ”ان “ ہونے کے لیئے آ پ کے پاس بہت سارا وقت ، بہت بڑا دل اور ضد کی حد تک مستقل مزاجی ہونی چاہیئے۔

اگر آپ میں وسعت ظرفی اور مستقل مزاجی نہیں تو اس دشت کی صحرا نوردی کا خیال ذہن سے نکال دیں ۔ ہمارے ہاں ماحول کچھ اس طرح ہے کہ لکھنے والے پہلے ہی اس قدر ہیں کہ نئے لکھنے والوں کو کہیں چھپنے کا موقعہ ملتا ہے اور نہ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ ایک لکھاری معاشرے کے لیئے تخلیق کار کا درجہ رکھتا ہے ، وہ نئے نظریات ، نئے آئیڈیاز ، نئی سوچ اور نئی فکر دیتا ہے اس لیئے ہمیں ایسے تمام لکھنے والوں کو ان کا جائز حق دینا چایئے ۔

پرانے لکھنے والوں کی اہمیت بجا مگر نئے لکھنے والوں کو بھی موقعہ ملنا چاہیئے اس کی وہ دجہیں ہیں ۔ ایک ،نئے لکھنے والوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے اور ایک نوجوان اپنے طبقے کی نمائندگی بہتر انداز میں کر سکتا ہے ، وہ معاشرتی تقاضوں اور نوجوان نسل کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کے لیے ذیادہ بہتر انداز میں راہنمائی کر سکتا ہے۔دو،دنیا میں ہر منٹ کے بعد بیسیوں نئی ایجادات ہو رہی ہیں ، نئے نظریات او ر جدید ٹیکنالوجی وجود میں آ رہی ہے اور ایک نوجوان ان تمام چیلنجز اور حالات کا ادراک دوسروں کی نسبت ذیادہ اچھے انداز میں کر سکتا ہے اور ان سے نمٹنے کی بہتر انداز میں منصوبہ بندی کر سکتا ہے ۔


میرے سامنے اس وقت ”سپہ سالار امن “ کتاب پڑی ہے جو نوجوان کالم نگار نسیم الحق زاہدی کے کالموں کا مجموعہ ہے ۔ کتاب پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ہماری نوجوان نسل میں ابھی ایسے لکھاری موجود ہیں جو اپنے سینئرز کے خلا کو پر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بقول زاہدی یہ کالم انہوں نے فی البدیہ لکھے ہیں اور اگر واقعی ایسا ہے تو یہ ڈھیروں داد کے مستحق ہیں ۔

یہ تمام وہ کالم ہیں جو زاہدی نے شان رسالت اور تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے لکھے ہیں ۔ زاہدی نے اپنی کتاب میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو پورے عالم کیلئے امن کی بات کرتا ہے ۔انداز تحریر بہت بے باک ہے جو بات کہنا چاہتے ہیں بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ دیتے ہیں ۔ اسی لیئے ان کا دعوہ ہے کہ اسی وجہ سے ان کی تحریریں اخبارات میں شائع نہیں کی جاتی ۔

زاہدی شروع سے ہی باپ کی شفقت اور محبت سے محروم رہا ہے اور اس کی یہ محرومی اس کی تحریروں میں بھی جھلکتی ہے ۔ یہ نوجوان دو بار گولڈ میڈلسٹ برائے امن کا ایوارڈ بھی لے چکا ہے ۔ زاہدی نوجوان نسل کا نمائندہ کالم نگار ہے اورہمیں ایسے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں ”کنجوسی“نہیں کرنی چاہیئے ۔ میری زاہدی کے ساتھ شناسائی کچھ ذیادہ طویل نہیں لیکن اس سے ملنے کے بعد اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ نوجوان کچھ کرنا چاہتا ہے ، کچھ کرنے کی لگن ہے ۔

زاہدی کے ساتھ شناسائی بھی ڈرامائی انداز میں ہوئی ، کچھ عرصہ پہلے میرے ایک دوست روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے ، تعزیت کے لیئے چند سطریں لکھیں تو زاہدی نے رابطہ کیا، زاہدی وفات پا نے والے دوست کا کزن نکلا اور یوں یہ شناسائی دوستی میں بدل گئی ۔ زاہدی نے اپنی پہلی تحریر 1999میں لکھی تھی اور اس کے بعد اس نے لکھنے کا یہ سفر رکنے نہیں دیا اور آج وہ تین چار گولڈ میڈلز کے تمغے اپنے سینے پے سجائے کھڑا ہے ۔

سچ ہے جو لکھتے ہیں اور مسلسل لکھتے ہیں وہ ایک نہ ایک دن اپنا مقام بنا ہی لیتے ہیں ۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سینئرز کو چاہیئے کہ وہ جونئیرز کو تھوڑا ”لفٹ“کرا دیا کریں کیوں کہ آگے بڑھنے اور کامیابی کے لیئے حوصلہ افزائی کے لیئے کہا گیا کسی کاایک جملہ کافی ہوتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :