یوم آزادی کا سوال

جمعہ 14 اگست 2015

Khalid Imran

خالد عمران

آج یوم آزادی ہے… یومِ آزادی کا سب سے بڑا سبق اس ارض پاک کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے جسے بھلا یا نہیں جاسکتا۔ ہمارے لاشعور میں بڑے بوڑھوں سے سنی ہوئی کہانیوں کے وہ کردار ہمیشہ زندہ رہیں گے جن میں چانکیہ کی سیاست، ہندو کی مکاری، سکھوں کا تشددد،مسلمانوں کی بے بسی اور بے کسی بنیادی حیثیت کی حامل ہے ۔بانیٴ پاکستان کے مطابق پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن محمد بن قاسم نے سندھ کے ساحل پر قدم رکھا تھا لیکن شاید پاکستان کی بنیادیں تو اس دن رکھ دی گئیں تھیں جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفیق اول وآخر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یثرب کی دھرتی پر قدم رکھ کر اسے مدینہ منورہ بنادیا تھا۔


دُنیا کی یہ تقسیم قیامت تک کے لیے ہے۔

(جاری ہے)

ایک طرف ایک اَللہ کی وحدانیت اور ربوبیت مان کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے اور دوسری طرف ساری کائنات کے کافر، مشرک‘ لادین اور مختلف آسمانی اور زمینی مذاہب کے نام پر اپنی اپنی حکومتوں اور سلطنتوں کی بقاء کی جنگ لڑنے والے۔
اسلام کے فرزند کبھی مشرکوں سے، کبھی صلیبیوں ،کبھی یہودیوں، کبھی زرتشتوں، کبھی مجوسیوں سے نبرد آزما رہے تو کبھی یونانی تہذیب وتمدن ،روم وایران کی ثقافت،مصر اور ہندوستان کی قدیم مذہبیت اسلام کے مقابل آئی اور ہر دور میں اللہ رب العزت نے وقت کے دھارے کو مسلمانوں کے حق میں موڑ دیا۔

الہ العالمین کی ربوبیت اور خاتم النبین کی لازوال رسالت کا پرچم تھام کر مسلمانوں نے فرانسیسی ،برطانوی سامراج اور روسی استعمار کا مقابلہ کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیا میں طاقت کا توازن بدلا اور پوری دنیا سوشلسٹ اور امپیریلسٹ بلاک میں تقسیم ہوئی تو ان دونوں بلاکوں کی بنیاد رکھنے والے خواہ عیسائی ہوں یا یہودی ان کا بنیادی مقصد اسلام کو تہ تیغ کرنا تھا۔

اس سلسلے میں روس اور چین کا کمیونزم اور سوشلزم بالآخر امریکی برطانوی اور دیگرمغربی ممالک کے امپیریلزم کے ہاتھوں شکست کھاگیا۔ امپیریلزم یا سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد جمہوریت ہے، یہ اسلام کے مقابل آنے والا سب سے مضبوط اور خطرناک نظام ہے لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ آخری دنیاوی نظام ہے جو اسلام کے مدمقابل ہے، اس وقت تمام دنیاوی اور شیطانی قوتیں سرمایہ دارانہ نظام کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال چکی ہیں۔


اسلام سے نبرد آزما تمام گروہ، مذاہب اورفتنے خواہ کسی بھی نام سے سامنے آئے، انہوں نے ابتداء ہی میں اسلام سے کھلی جنگ کا اعلان کیا لیکن سرمایہ دارانہ نظام جس کی پشت پر ان تمام مذاہب، گروہوں اور قوموں کی جدید نسلیں ہیں اور انہوں نے جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آکر بہ اندازِ دگر اسلام اور مسلمانوں کو چیلنج کیا ہے۔ آج یہ طاقتیں اقتصادیات، نظام تعلیم، نظام حکومت وسیاست کو ہتھیار کے طور پر آزمارہی ہیں اور مسلمانوں کو جدید معیشت واقتصادیات، جمہوریت، ملٹی نیشنل بزنس، ٹیکنالوجی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ہتھیاروں سے ذبح کیا جارہا ہے اور یوں ان ہتھیاروں کے حصول کے لیے مسلمانوں میں بھی ایک جنون کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔

پاکستان کے نظریاتی پس منظر اور اس کے جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر مذکورہ بالا تمام ہتھیاروں کا استعمال آج یہاں کسی نہ کسی انداز میں کیا جارہا ہے۔
تحریکِ پاکستان کے دنوں میں مسلمانوں کی اجتماعی ملی دانش نے ایک نعرہ ترتیب دیا تھا ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ“ہمیں یقین کامل ہے کہ اگر یہ نعرہ نہ لگتا تو برصغیر کے مسلمان پاکستان کے لیے کبھی اتنی عظیم قربانیاں نہ دیتے ،ہماری فکری بنیادوں کو منہدم کرنے کے لیے ہمارے منہ سے یہ نعرہ چھین کر ہمیں ”سب سے پہلے پاکستان“ کا سبق پڑھانے کی کوشش کی گئی لیکن خدا کا شکر ہے آج یہ بول ان زبانوں سے بھی اترچکے ہیں جو کہتی تھیں کہ ہم نے ساری دنیا کا ٹھیکا نہیں لے رکھا ۔

پھر ہمارے اقتصادی ومعاشی نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے دنیا کے بڑے بڑے سودی اداروں کے ملازموں کو یہاں اقتدار کا منیجر بنادیا گیا۔ لارڈ میکالے کا نظام تعلیم ہو یا ہمارے تھانے کچہری میں حصولِ انصاف کے لیے مستعمل انگریز کا قانون، اِن کو دوام بخشنے کے لیے کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کو استعمال کیا گیا لیکن یہ دیکھنے کے بعد کہ اس سخت جان قوم نے تو جمہوریت کے شر انگیز اور کافرانہ نظام کے نتیجے میں بننے والے 1973ء کے آئین میں ایسی دفعات شامل کردی ہیں جن کی بنیادپر اس ملک میں غیر اسلامی اقدامات کی روک تھام کے لیے موٴثر کوشش کی جاسکے گی تو اس آئین میں شامل اسلامی دفعات کی دشمنی میں پورے کے پورے آئین کا تیا پانچا کردیا گیا اور آج اس آئین کی روح مردہ کی جاچکی ہے۔


کبھی غیر جماعتی، کبھی جماعتی ،کبھی بنیادی، کبھی محدود، کبھی بی اے پاس اور کبھی مفاہمتی یعنی مک مکا کی جمہوریت کا ہتھیار استعمال کرکے اس قوم کو لسانی ،صوبائی اور نسلی تعصبات کی بنیاد پر تقسیم کردیا گیا ۔مسئلہ کشمیر جس کا کانٹا تقسیم ہند کے وقت بونے کا مقصد ہی دونوں قوموں میں ہمیشہ فساد بپا رکھنا تھا، اسے حل کرانے کا جھانسا دے کر پہلے سیاسی اور پھر فوجی اکابر کو ہندوستانی نیتاؤں کی خوشامد پر مجبور کیا گیا لیکن مکار ہندو نے بغل میں چھری اور منہ منہ میں رام رام کی سیاست پھر بھی ترک نہ کی اور آج ’خیر سگالی‘ کی ہماری تمام کوششوں کے باوجود پرنالا وہیں پرہے جہاں پٹیل، نہرو، اندرا گاندھی نے چھوڑا تھا۔

وہ ایٹمی قوت جو ہمارے تحفظ اور بقاء کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے فخر کا باعث تھی اس کے متعلق کونڈو لیزا رائس نے امریکی سینیٹ میں بیان دیا کہ پاکستان کی جوہری طاقت اور ہتھیاروں کا بندوبست کرلیا گیا ہے اور پھر ملتِ اسلامیہ کے ماتھے کے جھومر ان سائنسدانوں کو تضحیک وتحقیر کے گڑھوں میں پھینک دیا گیا، جنہوں نے اللہ کے فضل وکرم سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو تحفظ اور برتری کا احساس عطا کیا تھا۔

ان تمام تر کوششوں کے بعد بھی جب قوم عشقِ رسالت، اخوتِ اسلام اور دفاعِ وطن کے لیے یک زبان ہوکر سڑکوں پر نکلتی نظر آئی تو پھر منصوبہ سازوں نے کراچی سے خیبر تک پورے ملک میں پھیلے ہوئے ان مدارس کو ہدف قرار دیا جو آج نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے نظریات کے دفاع کے لیے رجال کارتیار کررہے ہیں بلکہ لاکھوں بچے اور بچیوں کو قوم ووطن کے کارآمد شہری بھی بنارہے ہیں۔


اسلام کی بنیاد پر کسی بھی میدان میں جدوجہد کرنیوالی جماعتوں، افراد اور گروہوں کو سوچنا چاہیے کہ جس ریاست کا نظریاتی تعلق مدینہ منورہ سے ہے اور جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی محافظ اور پہرے دار سمجھی جاتی تھی اور جس کی بنیاد رکھتے وقت پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کا نعرہ لگایا گیا تھا اس کا مستقبل کن ہاتھوں میں جاچکا ہے اور آیندہ اس قسم کی صورت حال کے سدباب کے لیے یہ تمام جماعتیں، افراد اور گروہ کوئی مستقل لائحہ عمل ترتیب دیں گے یا ہنگامی بنیادوں اور معروضی حالات کے مطابق جدوجہد کرتے کرتے اسلام دشمن نظام ’سرمایہ داری ‘کے ہاتھوں خود بھی ذبح ہوں گے اور آنے والی نسلوں کی فکری اور بدنی غلامی کی راہ ہموار کرکے دنیا کے بعد آخرت کا خسارہ بھی ان کا مقدر بنائیں گے․․؟
ہمارے خیال میں یہ سوال ہے یوم آزادی کا جس کا جواب جنگ آزادی میں جانوں کے نذرانے، عزتوں، عظمتوں اور جائیدادوں کی قربانی دینے والی اور آنے والی نسلوں نے بھی ہم سے لینا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :