”ہر کمال راہ زوال“

جمعرات 13 اگست 2015

Abdul Rauf

عبدالرؤف

فارسی زبان میں ایک ضرب المثل ہے ”ہر کمال راہ زوال“ یعنی ہر عروج کو ایک نہ ایک دن پستی ملے گی سقراط زہر کا پیالا پی کر بھی امر ہو گیا اور سقراط کو سزا دینے والوں کا نام ُُُُُُُُکوئی نہیں جانتا۔زوال حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے پہلے بام عروج پایا جائے
زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب عمران خان صاحب کینسر ہسپتال بنانے کا ارادہ کر چکے تھے اور اس کے لئے اندرون اور بیرون ممالک میں امدادی رقوم اور چندہ اکھٹا کیا جا رہا تھا کرکٹ ورلڈ کپ جیتے ابھی دو تین سال ہی گزرے ہونگے یہ میرے سکول کا ابتدائی زمانہ تھا۔

میں نے شوق سے بڑھ چڑھ کر چندہ دیا تو خان صاحب کی طرف سے دستخط شدہ سند بھی ملی۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں ان دنوں ایک کافی بڑی کتاب جو بچوں کے ذہنی معیار کے متعلق تھی۔

(جاری ہے)

اس میں مختلف سوالات پوچھ کر نیچے مختلف جوابات میں سے ایک پر نشان لگانا ہوتا۔ مجھے ہزاروں سوالات میں سے ایک سوال آج بھی یاد ہے۔ جو عمران خان کے متعلق تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد لاہور کے اچھرہ کے علاقہ میں ایک شادی ہال میں جلسہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

دو تین سو کے قریب لوگ ہوتے اور خان صاحب کی گاڑی تک پہنچنا اور سلام لینا ایک آسان مرحلہ تھا۔ پھر مینار پاکستان کا بھاری بھرکم جلسہ بھی دیکھا اور حیران بھی ہورہے تھے کہ اچانک اتنے لوگ کیسے اکھٹے ہو گئے پھر خان صاحب کے مسلسل عروج کے دن آ ہی گئے۔ عوام کا جم غفیر ان کے ساتھ ہوتا خیر سے خیبر پختونخوانہ کی حکومت بھی مل گئی ۔ چند افراد سے شروع کیا گیا سفر ہزاروں اور لاکھوں کے مجموعے میں تبدیل ہو چکا تھا۔

ادھر دھاندلی کا شور مچا اور اسلام آباد کا دھرنا شروع ہو گیا۔ عوام ،میڈیا، عدالتیں، اندرون اور بیرون کے تمام لوگ حکومت گرنے کی خبروں کے انتظار میں تھے۔ کچھ لوگ طاہر القادری کی جذباتی تقریروں سے پیدا ہونے والے رد عمل کو تیونس اور مصر کی خانہ جانب اشارہ کر رہے تھے۔ ادھر بعض دانشور سمجھتے تھے کہ فوج اپنے عوام کے خلاف ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گی بلکہ حکومت کا دھڑن تختہ ایک کرے گی۔

حکمران جماعت پر کپکپی کی کیفیت آتی جاتی رہی بعض ممبران باقاعدہ جائزہ لینے لگ گئے اگلی کس جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہے (مسلم لیگیوں کی یہ پرانی عادت ہے)۔ جاوید ہاشمی باغی سے داغی ہو گئے۔ دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے باقاعدہ موسیقی کا سہارا لیا گیا۔ جناب ڈی جے بٹ نے دھرنے کی ناکامی کے بعد کروڑوں روپے بل کی مد میں موصول کئے۔ تحریک انصاف کے نوجوان کارکن اس قدر جزباتی کیفیت کا شکار تھے کہ ان سے سیاسی بات چیت کرنا دل گردے کا کام تھا۔

تحریک انصاف نے دھرنے کی صورت میں ایک بھرپور سیاسی مہم کا آغاذ کیا جس کے لئے نرم تو نہیں البتہ بہت گرم الفاظ استعمال ہوئے اور سوشل میڈیا الحفیظ الایمان۔ انسانی تذلیل کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا ہو تو اس کے سوشل میڈیا کافی ہے۔ تحریک انصاف کو نوجوانوں کی ذہنی تربیت اور نظم و ضبط پر مشتمل جماعت بنانے کے لیے توجہ دینی چاہے جہاں ”اُوئے “کی بجائے آپ کے الفاظ استعمال ہوں ۔

الفاظ کا استعمال بندے کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ بہر حال ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں اندرونی اور بیرونی مداخلت کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ 47ء سے 2015ء آج کی تاریخ تک کوئی دور حکومت اٹھا کر دیکھ لیں یہ مداخلت کبھی فوجی اور کبھی بیرونی دوباؤ میں صورت میں نظر آتی ہے۔ سیاستدان ہمیشہ
مظلوم رہے۔ فوجی اور غیر فوجی ادوار میں کبھی جمہوری اور کبھی نیم جمہوری پارلیمنٹ کا حصہ رہے۔


ترقی پذیر ممالک میں اپوزیشن ہمیشہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے مسلسل حکومتی تبدیلی کی کوششوں میں لگی رہتی ہے۔ تحریک انصاف اب پیپلز پارٹی کی جگہ پہ ایک بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ تیزی سے ابھرتی ہوئی جماعت اور جذباتی سیاست دان تجربہ کار قوتوں کا آسان ہدف بن چکے ہیں۔ عوامی لیگ اور تحریک انصاف کے دھرنے اور انتہائی شدت کے ساتھ وزیر اعظم کے استعفیٰ پر ڈٹ جانا ایک معنی ہیز پیغام تھا۔

جو کہ سیاستدانوں کی مخصوص لچک کے برعکس تھا۔ جس نے بھی عمران خان صاحب کو منظم دھاندلی اور 35پنکچر کی پٹی پڑھائی تھی وہ پاکستانی الیکشن کے معروضی حالات کا وسیع تجربہ رکھتا تھا اور اُن کو حکومت کر گرنے کا پکا یقین تھا۔دھاندلی اگر ہوئی بھی تو اسکو منظم ثابت کرنے کے لئے پکے ثبوت چاہیے تھے۔ جن کا ذکر خان صاحب بار بار کنٹینر سے کرتے رہے۔

خان صاھب کو وزیر اعظم بننے کی جلدی بھی تھی اور انکے دائیں بائیں وزیر و مشیر بننا تھا۔ جو بھی مخصوص قوتیں خان صاحب کو آگے لا کر کسی ایسی پالیسی کو آگے بڑھانا چاہتی تھیں جو بہر حال ناگزیر ہو چکی تھی۔ یہیں سے کہانی سے ایک نیا موڑ آتا ہے۔ جب تحریک انصاف کو پشاور سانحہ کے بعد دھرنا ختم کرنا پڑا ااور قومی سطح پر فوج کی طرف سے تیزی کے ساتھ دہشتگردوں کے ”ضرب عضب“کا آغاز ہوا۔

اگر ہم توڑا سا بھی غور کریں تو یہ آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی جموری حکومت ایم کیوں ایم اور پیپلز پارٹی کے خلاف اس حد تک فوج کی مدد کے بغیر ہر گز نہیں جا سکتی تھی۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف اس قسم کی جنگ کو شروع کرناآج سے دو سال پہلے بالکل نا ممکن نظر آتا تھا۔ کراچی آپریشن کو رینجرز نے جس مہارت بغیر کسی رد عمل کے انجام دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

فوج نے یہ کام حکومت کے ساتھ تعاون بڑھاتے ہوئے شروع کیا۔ اس دھرنے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے حکمران جماعت کو یہ سمجھنے میں کافی مدد ملی ہے۔ کہ بلاچوں چراں کئے عمل دراُمد کرنا ہے۔ ایک زیادہ پرانا واقع نہیں ہے۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اصغر خان صاحب کو حکومت ملنے کا امکان تھا۔ ہمسایہ ملک میں روس کے حلمے کے آثار واضح ہو چکے تھے۔

جن قوتوں نے پاکستان کو فرنٹ لائن پر کھڑا کرنا تھا ان کے سامنے جنرل ضیاء الحق نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ بہر حال قوت ہر دور میں موجود رہتی ہے کبھی اندرونی تو کبھی بیرونی۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد حکمران جماعت کو گویا نئی زندگی ملی اور تحریک انصاف کو وہ لوگ جو کم از کم لفظی ہمدردیاں ان کے ساتھ رکھتے تھے ان کے ہاتھ دھوناپڑے ہیں۔

اپنے کہے ہوئے الفاظ پر شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔ مگر ہر حادثے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک حادثے سے سیکھنا یا دیکھے بغیر آگے بڑھ جانا۔ دیکھتے ہیں کہ خان صاحب کس پر عمل کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست شب دیگ ہے آپکے دائیں بائیں والے کتنے وفادار ہیں یہ آپ پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور نواز شریف کو جوابی لفافے کے ساتھ خط لکھ کر پکے ثبوت کے طور پر رکھ سکتے ہیں ۔ نواز شریف صاحب 1999ء کی حکومت جانے پر اکثر کہا کرتے تھے کہ جو لوگ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کا نعرہ مستانا بلند کرتے تھے۔ حکومت جانے کے بعد جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :