میرا دل پھیر دو!

جمعہ 7 اگست 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

عدالت عظمی نے فوجی عدالتیں جائز قرار دے دیں ، سترہ میں سے گیارہ جج حضرات نے جواز کا فتوی دیا ہے ،جب کہ چھے فاضل ججوں کی رائے عدم جواز کی بنتی ہے۔ اس فیصلے سے سیاست دان تو بہت خوش ہیں ،فوجی بھی یقینا خوش ہو ں گے ،گو کچھ لوگوں کا کہنا ہے فیصلہ فوج کی خوشی کے لیے دیا گیا ہے ، لیکن یہ کہنا بد نیتی قرار دی جا سکتی ہے ۔ کہا جا رہا ہے اب فوج ،عدلیہ ، پارلیمنٹ سب ایک صفحے پر ہیں ۔

یہ بات خیر بہت اچھی ہے اوراب امن آ ہی جانا چاہیے ،دہشت گردی سے جان چھوٹ ہی جانی چاہیے ،اگر اب بھی دہشت گرد سر چڑھ کر بولتے رہے تو پھر ایک ہی طریقہ بچے گا مار شل لاء ۔ اس کے بعد پھر بھی بات نہ بنے تو توحکومت ” دہشت گردوں “ کے حوالے کر دینی چاہیے اور ہاتھ اٹھا کر ان سے اپنی سزا دریافت کرنی چاہیے اور سزا کو بہ سر و چشم قبول کر نا چاہیے۔

(جاری ہے)


####
کچھ لوگوں کا خیال ہے نظریہ ضرورت پھر زندہ ہو گیا ہے ۔ اچھی بات ہے ،ضرورت تھی تو زندہ ہوا ہے نا ،اس میں بدکنے کی کیا بات ہے ،الجھنے کی کیا ضرورت پڑ گئی ، ضرورت کس کو نہیں پڑتی ، دنیا نام ہی ضرورت کا ہے ، یہاں سب آئے ہی ضرورت کے تحت ہیں ،جینا بھی ضرورت ، کھاناپینا ، اور سب مشاغل سب کچھ ہی ضرورت کے تحت ، ضرورت کے عین مطابق ہے ۔

نظریہ ضرورت ایسا بھی برا نہیں کہ اس سے بالکل ہی منہ موڑ لیا جائے ۔
خوش آمدید ...............اے نظریہ ضروت!
####
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق عمران خان کے دوست ہیں ،اس لیے انہوں ترپ کا پتا خان صاحب کے ہاتھ تھما دیاہے ، اسپیکر نے الطاف بھائی کو فون کیا :” بھائی ! آپ کی پارٹی کے ممبران میرے دوست کی پارٹی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ، ان کا اصل جھگڑا تو ہم سے تھا، ہم نے تو معاف کر دیا ، آ پ کے لوگوں نے دل پہ لے لیا“ بھائی نے تو خیر جمہوری رویہ اپنایا اور بتایا کہ پارٹی سے مشورہ کروں گا جو فیصلہ پارٹی کرے گی اسی پر عمل ہو گا، لیکن فون کرنے پر خان صاحب ہتھے سے اکھڑ گئے ہیں، کہ اگر الطاف اجازت دیتا ہے یا اس سے اجازت لی جاتی ہے تو ہم اسمبلی نہیں جائیں گے، اب میاں صاحب وزیر داخلہ کو تیار کریں گے کہ بھائی تم بھی تو عمران کے دوست ہو اور الطاف کے بھی خلاف ہو اور تم الطاف کے خلاف ریفرنس بھی تیار کر رہے ہو، تم اب عمران خان کو راضی کرو کہ بچوں والی بات نہ کریں ،سمجھ داری کا مظاہرہ کریں ، حکومت تو الطاف کے خلاف ہی ہے تبھی تو کارروائی کرنے پر غور کر رہی ہے، اسپیکر غیر جانب دار ہوتا ہے اس نے جو کیا ، اس پر جمہوری انداز میں احتجاج کر لیا جائے ہم چپ رہیں گے ۔


####
جسٹس وجیہ الدین کہتے ہیں:”جس سے پیار کرتا ہوں ،اس کے کتے سے پیار نہیں کر سکتا “ اس جملے سے ایک بات تو پتا چل گئی کہ جسٹس صاحب کو عمران خان سے پیار ہے۔ البتہ اپنے رقیب کے لیے جوالفاظ جسٹس صاحب نے استعمال کیے ، وہ بہت زیادہ سخت ہیں،اتنا صاف گو ہونا ضرورت سے زیادہ حق گوئی ہے۔جسٹس صاحب یہ بھی کہہ سکتے تھے:
تمھیں چاہوں تمھارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
میرا دل پھیر د،و یہ جھگڑا مجھ سے ہو نہیں سکتا
عمران خان یقینا جسٹس صاحب کا دل واپس کر دیتے ۔


####
جہاں گیر ترین اور جسٹس وجیہ الدین میں رقابت جب حد سے بڑھنے لگی تو خان صاحب نے ریحام خان سے مشورہ کیا ، ریحام خان نے بہت ہی خوب صورت جواب دیا :” خان جی ! جسٹس صاحب کا نام تو وجیہ ہے لیکن ان کی ساری وجاہت ان کے اصولوں اور باتوں میں ہے ، اب کتابی باتوں کا دور نہیں ،ترین کی وجاہت اور ترنگ کی زندہ مثال اور ثبوت ہیلی کاپٹر اور جہاز ہیں ،جس میں آپ اور میں گھومتے پھرتے ہیں، آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔“چناں چہ خان صاحب نے جسٹس وجیہ کی رکنیت معطل کر دی ،کہا جا رہا ہے ،اگلا نمبر حامد خان کا ہے ،شاید کچھ اور لوگ بھی جسٹس اور حامد خان کے پیچھے آنا پسند کریں ،عارف علوی ایسی ہی ایک شخصیت ہو سکتے ہیں، کیوں کہ فیصل واڈا زیادہ ڈاڈا ہونے کی کوشش میں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :