ہم زندہ قوم ہیں؟

جمعہ 7 اگست 2015

Hussain Jan

حُسین جان

یوم آزادای میں چند ہی دن باقی ہیں ،بچوں بڑوں نے ملکی پرچم لہرانے کا بندوبست کر رکھا ہے۔ ایسے میں نوید جو کہ ایک موٹرسائیکل مکینک کی دُکان پر کام کرتا ہے اور میں اکثر اُس سے اپنی بائیک کا کام بھی کرواتا ہوں سے پوچھا کہ وہ اس دن کو کیسے منائے گا۔ اُس نے معصومیت سے جواب دیا کہ وہ دو عدد پاکستان کے جھنڈئے اُستاد جی کی طرف سے اُدھار دی گئی موٹر سائیکل پر لگائے گا اور سارا دن اُسے گلی کوچوں میں گھمائے گا۔

میں نے اُسے مزید کریدتے ہوئے کہا کہ کیا تمھہیں پتا ہے کہ اس دن کیا ہوا تھا تو اُس نے جھٹ سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں اس دن پاکستان آزاد ہوا تھا۔ لیکن اس کیسے آزاد ہوا کس نے کروایا کیوں کروایا کس لیے کروایا اُسے کچھ نہیں پتا تھا۔
زندہ قوموں کی نشانی تو یہی ہوتی ہے کہ اپنے ملک کے بارئے میں تمام باتوں کا پتا ہو۔

(جاری ہے)

مگر غریب مزدور کو اس سے کیا غرض کے پاکستان کیوں وجود میں آیا تھا، اُس کے لیے یہ ایک علاقہ ہے جہاں وہ رہتا ہے محنت مزدوری کرتا ہے اور بہت مشکل سے اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔

زندہ قوموں کی نشانی میں ایک نشانی تعلیم بھی ہوتی ہے جو اپنے ہاں تو ناپید ہے۔ زندہ قوموں کی نشانی میں ایک نشانی کلچر نام کی بھی ہے جو صرف پڑھنے لکھنے کی حد تک ہی موجود ہے۔ بھائی بھائی کا خون کرتا ہے ، زن ،زمین اورزر کو ہم نے اپنا خدا بنا لیا ہے، محنت سے ہم کوسوں دور بھاگتے ہیں، آزادی کا دن صرف اور صرف جھنڈئے لگا کر مناتے ہیں، قائد اور اقبال کے فرمودات کو بھول کر ایسے لوگوں کے پیچھے چل پڑئے ہیں جو دن رات اس ملک کو ختم کرنے کے در پر ہیں۔

کیا زندہ قومیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو مرضی منہ اُٹھا کر آئے ہم پر حکومت کرئے اور پھر یہاں سے نکل بھاگے۔
کروڑوں لوگوں کے پاس رہنے کو گھر نہیں اور دوسری طرف کروڑوں کے پلاٹ خریدنے والوں کا رش ہے۔ بڑئے بڑئے میدان ہاوسنگ سکیموں کی نظر ہو جاتے ہیں۔ ڈیموں کی جگہ پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ کیا زندہ قوموں ایسی ہوتی ہیں،جن کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوتے ہیں تو باپ کے پاس دودھ خریدنے کے پیسے نہیں۔

بزرگ بیماری سے تڑپ رہے ہوتے ہیں مگر ہسپتالوں میں ڈاکٹر بات نہیں سنتے۔ نجی سکولوں کے مالکان دن دُگنی رات چگنی ترقی کر رہے ہیں، فیسوں کے نام پر لاکھوں بٹورئے جاتے ہیں اور دینے والے لوگ دے بھی رہے ہیں کبھی کسی زندہ انسان نے حکومت سے پوچھا کے نجی سکول اتنے پیسے کیوں لے رہے ہیں یقینا نہیں پوچھا ہوگ ، کیونکہ ہم ایک زندہ قوم نہیں ہم مردہ قوم ہیں ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں۔


گایا جاتا ہے ہم سب کی ہے پہچان ہم سب کا پاکستان، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تو ہماری پہچان ہے مگر یہ ہمارا پاکستان نہیں یہ اشرافیہ کا پاکستان ہے، جن کے کتے بھی امپورٹیڈ خوراک کھاتے ہیں۔ اگر ہم زندہ قوم ہوتے تو ترقی کرنے کے لیے68سال کم نہیں ہوتے۔ اگر ہم میں زندہ قوموں کی نشانیاں موجود ہوتی ہمارا ملک کبھی نہ ٹوٹتا۔ کیا کبھی زندہ قوموں کے ہزاروں لوگ 21ماہ تک دشمن ملک کی قید میں رہے ہیں؟ کیا کبھی زندہ قوموں کے لوگ بھوک سے مرتے ہیں ، کیا زندہ قوموں میں کرپٹ لوگوں کو حکمران بنایا جاتا ہے۔

کیا زندہ قوموں کے لیڈر ہمارے لیڈروں جتنے امیر ہیں۔ کیا اُن کے بچے دوسروں ممالک جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں ،کیا وہ دوسرے ملکوں کو اپنے ملک پر ترجحی دیتے ہیں۔ کیا وہاں اتنی تعداد میں برین ڈرین ہوتا ہے۔ مجھے تو ایک بھی نشانی نظر نہیں آتی خود میں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
اگر ہم زندہ قوم ہوتے تو 16دسمبر ہماری زندگی میں کبھی نا آتا، ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے والوں کو آج تک کچھ نہیں کہا گیا، خیر کوئی بچا بھی نہیں قدرت نے سب کو منوں مٹی تلے دبا لیا ہے۔

لیکن کیا کبھی عوام کو سچ بتایا جائے گا۔ حالات کو بدلنے کی کبھی کوشش کی گئی ، ہمارے حکمرا آج بھی اُسی ڈگر پر چل رہے ہیں جس ڈگڑ پر ان کے بڑئے چلا کرتے تھے۔ جن کی نا اہلی کی وجہ سے ملک دولخت ہو گیا۔ اگر ہمیں واقعی ہی زندہ قوم بننا ہے تو اُس کے لیے ہمیں اپنے سمیت سب کا احتساب کرنا ہو گا۔ حکمرانوں کے دلوں میں عوام کا ڈر بٹھانا ہو گا۔ اگر یہ سب نہ کرسکے تو پھر سمجھ لیں ہم ایک مردہ قوم تھے ،ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔


وہ ممالک جنہوں نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی انہوں نے بہت تیزی سے ترقی کی ، چین ، ملائیشاء جیسے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ، ان ممالک کی قوموں نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی میں زندہ قوم ہیں اور اپنے ممالک کو ترقی طرف لے جانا چاہتی ہیں۔ ہمارئے پاس سوائے باتوں کے کچھ نہیں ، جس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ لگا لیتا ہے۔ پوری دُنیا میں ہماری مثالیں دی جاتی ہیں کہ پاکستانی قوم سے بچ کر رہنا یہ کبھی بھی دو نمبری کر سکتے ہیں۔ کیا یہ نشانی ہے زندہ قوم ہونے کی ، یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا پڑئے گا۔ اگر حالات یہی رہے تو ہم کبھی ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکیں گے زندہ قوم بننے کا ہمارا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ ا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :