عالم دوبارہ نیست !

جمعرات 6 اگست 2015

Adnan Jabbar

عدنان جبار

دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے دوست بخوبی جانتے ہوں گے کہ کسی بھی سڑک کنارے اگے درخت پر محکمہ جنگلات کی طرف سے ایک نمبر الاٹ ہوتا ہے جو اس پر کندہ بھی کیا جاتا ہے۔ ہر درخت اپنی ایک الگ شناخت اور مخصوص حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ بڑے ٹمبر مافیاز کو چھوڑ دیں اور عوامی سطح پر دیکھیں تو درخت چوری کا مقدمہ بہت خوار کرتا ہے اس لیے لوگ عموماً چوری سے کنّی کترا جاتے ہیں اور درخت اپنی اسی شناخت کے ساتھ اپنی طبعی عمر پوری کرتا ہے۔


صد افسوس کہ یہ حیثیت انسانوں کو حاصل نہیں۔ ہم اجنبی تو دوُر اپنے سے منسلک شخص کو بھی اس کی الگ شخصیت اور ذاتی سوچ رکھنے کی آزادی دینے سے قاصر ہیں۔
بات معاشرتی سطح کی ہو یا خاندان کی ہم ایک دوسرے کو روندتے چلے جاتے ہیں۔ ہماری اولین ترجیح خود کی انا اور ضد ہی ٹھہرتی ہے یہاں تک کہ کسی پیارے کے مرنے پر ہی یاد آتا کہ یہ بھی ایک الگ حیثیت اور مقام رکھتا تھا پھر ہم اس کو مٹی میں دفنا کے سینکڑوں ہزاروں قبروں میں ایک الگ اور مخصوص قبر کا اضافہ کر دیتے ہیں۔

(جاری ہے)


یہی الگ اور آزاد شناخت ہم زندہ لوگوں کو کیوں نہیں دے سکتے۔ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہر بندے کے شعور اور لاشعور میں بھی خیالات دوڑتے ہیں۔ وہ بھی خواہشات رکھ سکتا عقیدہ رکھ سکتا ہے۔ ہر کسی کی جینے کی اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں پر بہت جگہوں پر خاندانی یا معاشرتی دباؤ پر سمجھوتے کے نام پر ان کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے
کسی بھی درخت کو تناور ہونے کے لئے تھوڑی سی زمین کے علاوہ اپنے حصے کا آسمان بھی چاہئے تاکہ وہ پھل پھول سکے اب بھلے وہ پھل نہ دے سایہ بھی نہ دے پھر بھی کسی ایک خوبی کا نہ ہونا کوئی جواز نہیں کہ اس کی جڑوں سے زمین چھین لی جائے یا اسے کاٹ گرایا جائے۔


ایسے ہی اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اپنی بساط کے مطابق بڑھوتری کی پوری آزادی اور سپیس دینی چاہئے
میری تعمیرات کے شعبے سے پرانی وابستگی ہے نااہل سے نااہل معمار بھی مکان بناتے ہوئے دوسری منزل کے بوجھ کو چھت پر نہیں پڑنے دیتا اور دیواروں پر تقسیم کر دیتا ہے پر افسوس ہم رشتے بنانے اور نبھانے کے معاملے میں مکان بنانے جتنی سمجھ بوجھ سے بھی قاصر ہیں۔


بس ٹیڑھا میڑھا بوجھ بڑھاتے جاتے ہیں بنا دیکھے کہ کونسے رشتے یا تعلق میں کس حد تک لچک یا جھیلنے کی استعداد ہے ۔
سوچ کا یہی ٹیڑھ پن "میں تو اسے بانجھ پن کہوں گا" سارے معاشرے میں زہر پھیلا دیتا ہے
اور ہم سب ایک طرف سے زہر چوس کر دوسری طرف منتقل کرنے کے سائیکل میں جتے ہوئے ہیں
کہانیاں تو بہت ہیں ہر کسی نے کہیں نہ کہیں ایسی صورت حال جھیلی ہو گی جو فلاں بن فلاں بن فلاں سے کسی روایت کی طرح چلتی آ رہی ہو گی اور ہم سب کسی بیل کی طرح سر جھکائے نسل در نسل اس چکر کو پورا کرنے میں لگے ہیں۔


خدارا یہ تسلسل توڑیں
نفرت ، تقسیم ، ضد , بدگمانیوں کو ختم کریں
دوسروں کو اپنی زندگی اپنے طریقے اور مزاج کے ساتھ جینے دیں اور اپنی زندگی کا کتابوں ، فلموں ، ڈراموں یا دوسروں کے حالات سے موازنہ بند کریں
کیونکہ۔۔
عالم دوبارہ نیست !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :