”سوچ کا فرق“

بدھ 5 اگست 2015

Muhammad Tahir

محمد طاہر

قدرت اللہ شہاب جھنگ کے ڈپٹی کمشنر تھے ۔ اُن دنوں اُن سے ایک بڑے زمیندار صاحب ملنے کو آئے۔ خود تو بڑی حد تک ان پڑھ تھے لیکن تعلیم کے فضائل و فوائد پر ایک لمبی چوڑی تقریر کرتے رہے۔ جب تقریر مکمل ہوگئی تو شہاب صاحب سے بولے”جناب آپ اس پسماندہ ضلع کے لئے ایک نیکی کا کام کر دیں ۔ فلاں گاؤں میں اگر پرائمری سکول کھول دیا جائے تو آپ کا اس علاقے پر احسان ِ عظیم ہوگا۔

اگر آپ قبول کریں تو بندہ سکول کے لئے زمین مفت ، کمروں کی تعمیر کے لئے بیس ہزار روپیہ نقد اور ایک استاد کی ایک برس کی تنخواہ اپنی جیب سے ادا کرنے کے لئے حاضر ہے ۔“ شہاب صاحب اس سے بہت متاثر ہوئے اور اسکی فیاضی اور روشن خیالی کی تعریف کرتے ہوئے بولے” نیکی اور پوچھ پوچھ ؟ آپ جب کہیں گے سکول کھولنے کا بندو بست ہو جائے گا بلکہ میں تو یہ کوشش بھی کروں گا کہ اس سکول کا افتتاح کر نے کے لئے عزت مآب وزیر تعلیم کو بذات خود یہاں دعوت دی جائے ۔

(جاری ہے)

“زمیندار صاحب خوش خوش قدرت اللہ شہاب کو دعائیں دیتے ہوئے تشریف لے گئے ۔ کوئی ایک ہفتہ کے بعد اسی علاقے کے ایک اوربڑے زمیندار ملنے آئے ۔ ملتے ہی انہوں نے روہانسی شکل بنا کر گلے شکوے شروع کر دئے ۔ ” جناب میں نے کیا قصور کیا ہے کہ مجھے اس قدر بڑی سزادی جا رہی ہے ؟ بندہ بالکل بے گناہ ہے ۔ “ شہاب صاحب نے حیران ہو کر اس شکوے کی وضاحت طلب کی کہ ان کیساتھ کیساظلم ہو رہا ہے اور یہ ظلم کون کر رہا ہے ؟ زمیندارصاحب نے بڑے غمگین لہجے میں یہ تفصیل سنائی کہ ” پچھلے ہفتے جوشخص سکول کھولنے کے بارے میں آپ سے ملنے آیا تھا ، وہ یہ سکول اپنے گاؤں میں نہیں بلکہ میرے گاؤں میں کھلوانا چاہتا ہے ۔

ہمارے درمیان پشتوں سے خاندانی دشمنی چلی آرہی ہے ۔ پہلے ہم ایک دوسرے کے مویشی چرا لیا کرتے تھے ۔ کبھی ایک دوسرے کے مزارعوں کو قتل کر وا دیا کرتے تھے لیکن اب وہ کمینہ میرے گاؤں کی نسلیں برباد کرنے پر اتر آیا ہے اسی لئے آپ سے سکول کھولنے کا وعدہ لے کر گیا ہے۔“ فروغ ِ تعلیم کے بارے میں انوکھی منطق سننے کے بعد شہاب صاحب سکتے میں آگئے اور تھوڑی دیر سوچنے کے بعد زمیندار صاحب سے بولے ” آپ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے کیوں نہیں دیتے ۔

جو پیشکش انہوں نے کی ہے وہی پیشکش آپ کریں تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ بالکل ایسا ہی سکول میں اس کے گاؤں میں کھولوں گا۔“یہ سن کر زمیندار صاحب کو تھوڑی تسلی تو ہوئی لیکن اس کے بعد ان دونوں میں سے کوئی بھی سکول کھولنے کے معاملے کے لئے واپس نہ آیا،شاید آپس میں مک مکا کر لیا ہوگا۔
اب تھوڑی دیر کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو وہی دونوں زمیندار سمجھ لیجئے۔

اور ان کی پالیسیوں پر نظر دوڑائیے۔ یہی دونوں جماعتیں ایک عرصہ سے پاکستان کی حکمران جماعتیں چلتی آرہی ہیں۔ (ن) کے بعد پی پی پی اور پی پی پی کے بعد (ن) لیگ۔دونوں جماعتیں الیکشن سے پہلے بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں۔ نظام تعلیم سمیت تمام ملکی مسائل ٹھیک کرنے کی گردانیں پڑھی جاتی ہیں۔لیکن تادم تحریر ان دونوں جماعتوں نے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے کوئی مثبت پالیسی متعارف نہ کروا سکیں۔

ان کا فوکس صرف اور صرف اسی بات پہ رہا کہ اپنی کرسی کو کس طرح قائم و دائم رکھا جائے ۔پہلے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی بارش کرتے ہیں بعد میں مک مکا پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ ان میں سے کسی حکمران کو توفیق نہ ہو سکی کہ وہ ہمارے دم توڑتے اور سسکیاں لیتے ہوئے تعلیمی اداروں پر نظر کرم کر دیں ۔ لیکن یہ تعلیمی اداروں کو کیونکر بہتر کریں گے ؟ پاکستان کا نظام تعلیم اگر بہتر ہوگیا توپاکستان کی 63فیصد آبادی جو کہ دیہاتوں میں رہتی ہے ،کو تعلیمی لحاظ سے شعور ملے گا۔

اور جب وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو جائیں گے اور حکومتی معاملات کو سمجھنے کے قابل ہو گئے تو پھر انکی کرسی کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں گی۔ اور اس لئے انہوں نے تعلیم جیسی ”خطرناک وباء“ کو پاکستانی عوام سے دور رکھنے ہی کو ترجیح دی ہوئی ہے۔ وراثتی سیاستدانوں نے فروغِ تعلیم کو ہی اپنا سب سے بڑادشمن سمجھ رکھا ہے ۔
کہتے ہیں کہ پانچواں مغلیہ بادشاہ شاہ جہاں اورکنگ ایڈورڈ،دونوں اپنی اپنی بیویوں سے بے حد پیار کرتے تھے۔

خدا کی قدرت دونوں بادشاہوں کی بیویوں کی موت کینسر کی وجہ سے ہوئی ۔ ممتاز محل کو کھونے کے بعد شاہ جہاں دو ماہ تک کمرے سے باہر نہ نکلا۔ کنگ ایڈورڈ بھی اپنی بیوی کو کھونے کے بعد کئی دن تک نیم مردہ حالت میں رہا ۔ کنگ ایڈورڈ کا نظریہ تھا کہ جس مرض کی وجہ سے اسکی محبوب بیوی اس دنیا سے رخصت ہو گئی ، اُسی مرض کی وجہ سے کوئی اور موت کے منہ میں نہ گرے اور اسی نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کنگ ایڈ ور ڈ نے خطیر رقم لاہور میڈیکل کالج کو عطیہ کردی۔

ان دنوں لاہور میڈیکل کالج پنجاب کا پہلا میڈیکل کالج تھا۔بعد ازاں 1911ء میں لاہور میڈیکل کالج کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا نام دے دیاگیا۔ کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج تب سے طب کی تعلیم بانٹ رہا ہے اور لاکھوں ڈاکٹرز پیدا کر چکا ہے جنہوں نے یقینا کروڑوں لوگو ں کو ان کے پیاروں سے جدا ہونے سے بچایا ہوگا۔ لیکن دوسری طرف شاہ جہاں نے اپنی بیوی کی یاد میں تاج محل تعمیر کروادیا۔

تاج محل پہ اس وقت 32کروڑروپوں سے زیادہ خرچ ہوئے جو کہ آج تقریبا 200ملین امریکی ڈالرز کے برابر بنتے ہیں۔22سال کی مدت کے بعد ایک عالیشان محل توتعمیر ہوگیا لیکن اس عالیشان محل کا کسی مرتے ہوئے انسان کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ یہ کسی ایک انسان کی جان بھی نہ بچا سکااور نہ ہی کسی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکا۔ اگر اتنی خطیر رقم تب مغلیہ شہزادے تعلیم پر خرچ کرتے تومیرا یقین ہے کہ انکی حکومت کا سورج کبھی غروب نہ ہوتا۔


شاہ جہاں کی طرح آج کے دور کے مغلیہ شہزادوں کی ترجیح لاہور میں پُلوں اور سڑکوں کی تعمیر پر ہے ۔پنجاب کا سارا بجٹ لاہور کی سڑکوں اور پُلوں پر خرچ کیا جا رہا ہے ۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جتنی زیادہ پُلیں بنیں گی ، ملک اتنا زیادہ ترقی کرے گا۔اور اگر کوئی کثر باقی تھی تو وہ لیپ ٹاپ ، سولر پینل ،میٹرو بس، ییلو کیب سکیم ، اپنا روزگار سکیم،قرضہ سکیم، اور ”پڑھو پنجاب اور بڑھو پنجاب“ جیسی نام نہاد سکیموں کے اشتہارات پر اربوں روپے پھونک کر پوری کی جارہی ہے۔

لیکن شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ قومیں تب تک ترقی نہیں کرتی جب تک تعلیمی دوڑ میں وہ دوسری اقوام پر سبقت نہیں لے جاتیں۔ پہلے مغلیہ بادشاہ بھی بلڈنگز بنانے کے شیدائی تھے اور آج کے مغلیہ شہزادے بھی۔ تعلیم سے اُن کو سرو کار تھا اور نہ ہی اِن کو ۔میں اس بات کو مانتا ہوں کہ ہمیں ، عمدہ سڑکیں ، فلائی اوورز، میٹرو ٹرین ، لیپ ٹاپ اور سولرز پینلز کی ضرورت ہے ۔

لیکن پہلے تعلیم جیسے بنیادی مسئلہ کو تو سلجھایا جائے ۔ پنجاب کا سارا بجٹ ان نام نہاد منصوبوں پر خرچ کرنے کی مثال تو اس عورت جیسی ہوئی جس کے بچے بھوک سے مر رہے ہوں اور وہ ادھار لیکر کھانا لانے کی بجائے نیا ڈنر سیٹ لیکر آجائے۔ اس نے گھر میں سجاوٹ تو بنا لی لیکن بچے تو اسکے بھوکے رہ گئے۔ ہماری بنیادیں کمزور ہیں اور یہ بنیادیں معیاری تعلیم کے فروغ سے ہی پوری کی جاسکتی ہیں اور تب تک معیاری تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا جب تک ملک کے کونے کونے میں سکول ، کالجز اور یونیورسٹیاں نہیں بنائی جاتیں ۔

جب سستی اور معیاری تعلیم عام ہوگی تو پھر غربت بھی بھاگنے پر مجبور ہو جائے گی۔انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹر کا طالب علم ہونے کے ناطے میں ہر روز درجنوں مسائل کو نوٹ کر تاہوں جن کو دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ میں یہ بات اپنے مغلیہ شہزادوں سے دعوے کیساتھ کہتا ہوں کہ آپ ہمارے تعلیمی مسائل کو دور کریں اور ہمیں انجینئرنگ یونیورسٹیز بنا کے دیں ، ہم آپ کو بہتریں فلائی اوورز، عمدہ سڑکیں ، لیپ ٹاپس اور سولر پینل بنا کے دیں گے۔

آپ ہمیں میڈیکل کالجز بنا کے دیں ، ہم آپ کو اعلیٰ معیار کے ڈاکٹرز بن کر دکھائیں گے ۔ آپ ہمیں اچھے کالجز بنا کے دیں ، ہم آپ کواچھے ایگزیکٹوز، آفیسرز ، آرکیٹکٹ اور اکاؤنٹنٹ پیدا کر کے دکھائیں گے۔
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں ، وہ کیا ہے ، فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے ، وہ کیا ہے ، فقط سرکاری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :