ڈالر ،یورو ہائے ہائے

ہفتہ 1 اگست 2015

Hussain Jan

حُسین جان

ایک طرف تارکین وطن کی کشتیاں سمندر میں غرق ہو رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے بڑئے بڑئے شہر چند منٹوں کی بارش میں ڈوب رہیہیں۔ لاہور سے راولپنڈی کی طرف سفر کریں تو بہت سے ایسے پسماندہ علاقے نظر آتے ہیں جن کے مکینوں نے پانی کے جوہڑوں میں بھی کوٹھیاں بنا رکھی ہیں، سیالکوٹ سے شروع ہو کر لالہ موسیٰ تک یہی صورتحال ہے۔ ان علاقوں کے زیادہ تر لوگ غیر قانونی طریقے سے یورپ کے علاقوں میں جا بسے اور پھر گھر والوں کو یورو کی بوریاں بھر بھر کے بھیجنا شروع کر دیں، یہ الگ بات ہے کہ سفر اگر سو بندے شروع کرتے تھے تو اپنی منزل تک صرف چند ایک ہی پہنچ پاتے تھے باقی کے سفر کی سختیوں کی نظر ہو جاتے تھے۔

ان کے دیکھا دیکھی بہت سے نوجوانوں میں بھی یورپ ،امریکہ جانے کی چاہت انگڑائی لینا شروع کر دیتی ہے، اور پھر ماں باپ کو تنگ کرنے کا ایک نا ختم ہونے والہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اور ماں باپ بیچارئے اپنا سب کچھ بیچ کر بچے کو بہتر مستقبل کے لیے کسی درندے ایجنٹ کے حوالے کردیتے ہیں جو ان کو کبھی کنٹینروں میں ، کبھی بوریوں میں اور کبھی ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں سوار کر کے سمند ر پار کا سفر شروع کردیتے ہیں۔

ان سمندروں کی لہروں نے کئی جوان نگل لیے اور ایجنٹ ہمیشہ کی طرح صاف بچ جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کی اکثریت مغرب کو گالیاں نکالتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود سب کی خوائش یہی ہے کہ اُن کی آل اولاد یورپ جا کر کمائی کرئے ،اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو قصور ہمارے حکمرانوں کا ہے جو 68سالوں میں اس ملک کورہنے کے کے قابل نہیں بنا سکے،برین ڈرین جتنا پاکستان میں ہے اس کی مثال پوری دُنیا میں نہیں ملتی، ڈاکٹر ،انجینر،پائلٹ وغیرہ عوام کے پیسوں پر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر بہتر مستقبل کے لیے دوسرئے ممالک کو اپنا بسیرا بنا لیتے ہیں ۔

ہمارے وزیر آعظم صاحب جو لوگوں کو سادگی کا درس دیتے نہیں تھکتے لیکن کروڑوں کی گاڑیاں اپنے قافلے میں شامل کر لی ہیں۔ عوام کو ہمیشہ اُلو بنایا جاتا ہے کہ مغرب ہمارا دشمن ہے، ہم یورپ اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستان روپے کو بہتر بنائیں گے، لیکن یہسب بیانات کی حد تک ہے۔
پاکستان کبھی بھی ہمارے حکمرانوں کا پسندیدہ ملک نہیں رہا، جب یہ لوگ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو کسی خوبصورت ترقی یافتہ ملک میں بسیرا کر لیتے ہیں، یہ لوگ اتنے طاقت ورہیں کہ پوری پوری کابینہ کا اجلاس باہر بیٹھے ہی بلا لیتے ہیں۔

پاکستان میں بہت سے لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو ہر وقت لوگوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ یورپ ،امریکہ پاکستان کے دشمن ہیں ،کافر ہیں ،بے دین ہیں وغیرہ وغیرہ،جب کبھی ڈالروں کی بات ہوتی ہے تو میڈیا پر بتایا جاتا ہے ہم ایک غیرت مند قوم ہیں ہمیں کیا لینا دینا ڈالروں سے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، سرکاری کارندے چاہے حکمران ہوں یا ملازمین ہر وقت ہا تھ میں خوبصورت سا چرمی کشکول لیے لگرثری جہاز میں بیٹھ کر بھیک مانگنے جاتے ہیں۔

یہی حال ہمارے بزرگوں کا ہے، گلی کوچوں کے چوراہوں پر بیٹھ کر سارا سارا دن گوروں کو گالیاں نکالتے رہتے ہیں، اُن کی "ان دیکھی"بے حیائی پر پورا پورا دن گزار دیتے ہیں، مگر جیسے ہی کسی نے پوچھا حاجی صاحب گھڑی تو بہت اچھی پہنی ہے تو جھٹ سے بولیں گے ابھی کل ہی لڑکے نے باہر سے بھجوائی ہے۔
ہم ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمیشہ دوغلی پالیسی پر چلتی ہے۔

جب ہم خود کوئی برا کام کر رہے ہوں تو اُس کے لیے پتا نہیں کہاں کہاں سے دلائل نکال لاتے ہیں مگر کسی کو کوئی بھی کام کرتا دیکھ لیں تو ہمیں اُس میں سو برائیاں نظر آہیں گی۔ خیر بات ہو رہی تھی ڈالر یورو کی جس کو کمانے کے لیے ہماری قوم مری جار ہی ہے۔ اُس کے لیے اپنی جانوں کا سودا کرنا بھی کوئی بڑی بات نہیں۔ جتنے جتن ہم ملک سے باہر جانے کے لیے کرتے ہیں اگر اُتنے جتن ہم اپنے ملک کو بہتر بنانے میں کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی حکومتوں کے گریبان پکڑیں تو میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں باہر جانے کی ضرورت پڑئے گی۔

کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ یورپ امریکہ ڈبل شاہ کے بھائی ہیں کہ چند روپے لے کر جاؤ اور کچھ ہی دنوں میں ڈبل کر کے واپس آجاؤ، یہ ڈبل کا لالچ ہی ہمیں مشکلوں میں ڈالٹا ہے۔ ایک غیر مصدقہ رپوڑت کے مطابق ہر سال پچاس ہزار سے لاکھ تک پاکستانی قسمت آزمانے کے لیے باہر ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں ، جن میں قانونی طریقے سے جانے والے بھی شامل ہیں، مگر چند ایک کی ہی قسمت ساتھ دیتی ہے جن کو ویزہ مل جاتا ہے۔

مزدور طبقہ وسطی ایشائی ملکوں میں جانا پسند کرتا ہے جہاں کم پیسوں سے بھی جایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ امریکہ ،یورپ ،اور دوسرئے مغربی ممالک میں جانے کے لیے لاکھوں روپے لگانے پڑتے ہیں۔ ڈالر،پونڈ اور یورو ہمارے خون میں ایسا رچ بس گیا ہے کہ اُ س کے سوا ہمیں کچھ اور دیکھائی ہی نہیں دیتا۔ قابل لوگ اگر ملک سے باہر چلے جائیں گے تو ملک کی بھاگ دوڑ پھر جاہلوں کے ہاتھوں میں ہی آئے گی۔

ہمارئے حکمرانوں کے بچوں کے کاروبار بھی زیادہ تر غیر ممالک میں ہیں کیونکہ اُن کے لیے وہی ملک زیادہ بہتر ہیں، جب کبھی اُن کا پروٹوکول لینے کا موڈ ہو تو پاکستان کی یاترا بھی کر لیتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک سے بھی لوگ ایک دوسرئے ملکوں میں جاتے ہیں مگر اُن کی تعداد بہت کم ہے، زیادہ تر لوگ چھٹیاں منانے جاتے ہیں، مگر ہم تو وہاں "سیٹ"ہونے جاتے ہیں۔

افسوس کی بات ہے آج تک کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی، اگر ملکی حالات بہتر ہوں، لوگوں کو روزگار میسر ہوں،امن و امان ہو،انصاف ہو تو لوگوں کو کیا ضرورت پڑی ہے ملک سے باہر جانے کی۔ ابھی حال ہی میں ہمارے بڑئے بھائی کے دوست دبئی سے تشریف لائیں ہیں تو بے چارے کو لوڈشیڈنگ نے ہی پاگل کر رکھا ہے۔ اپنوں سے ملنے کی چاہ نہ ہو تو لوگ کبھی پلٹ کر اس ملک میں واپس نہ آئیں۔

اگر یہی صورتحال رہی تو ایک دن ملک خالی ہو جائے گا، لوگ دریاؤں ،سمندروں کے راستے نکلتے رہیں گے اور مرتے رہیں گے۔ سوچنے کی بات ہے تب ہمارے حکمران کس پر حکومت کریں گے۔ اپنی دولت کو باہر چھپانے والے کیا یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دولت اُن کے کسی کام کی نہیں، اگر یہی دولت وہ اپنے ملک میں واپس لایں یہاں کاروبار کریں تو ان گنت لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور ان کی دیکھا دیکھی بہت سے دوسرئے لوگ بھی پاکستان میں اپن روپیہ لگانے تو تیار ہو جایں گے۔

اُمید ہی کی جاسکتی ہے کہ حالات کبھی تو بہتر ہوں گے۔ ہو سکتا ہے ہماری آنے والی نسلوں کے لیے حالات کچھ سازگار ہو جائے،اگر انہوں نے بھی یہی حالات دیکھنے ہیں تو پھر قبروں میں بھی گالیاں کھانے کے لیے تیار ہو جائیں کے وہ اپنے بڑوں کو ہی کوسیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :