ہر او ل انقلابی دستہ

اتوار 26 جولائی 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

دلچسپ بات یہ نہیں کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ نے 2013 کے عام انتخابات کو کلین چٹ دے دی ہے بلکہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے بعدکیا بیانیہ اختیار کرتی ہے؟ آیا رپورٹ کو من و عن تسلیم کر لیا جاتا ہے یا رپورٹ کے مندرجات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے تسلیم کیا جاتا ہے یا کہ رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا جاتا ہے! آخر الذکر دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب عدلیہ کے کردار پر تحریکِ انصاف کی جانب سے سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے جو غیر مناسب بات ہے اور کسی نئی معرکہ آرائی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔


اس بات سے قطع نظر پاکستان تحریکِ انصاف کا ایک ہر اول دستہ ایسابھی ہے جو سوشل میڈیا پر انقلاب برپا کرنے میں ملکہ رکھتا ہے اور ہمہ وقت فیس بک اور ٹوئٹر پرفعال نظر آتا ہے ۔

(جاری ہے)

فکر دیکھئے کہ عدالتی رپورٹ آئے بمشکل ایک دن گزرا ہے اور اب تک چیئرمین تحریکِ انصاف کی جانب سے اس عدالتی رپورٹ پر باقائدہ بیان بھی جاری نہیں کیا گیا لیکن تحریکِ انصاف کا یہ انقلابی دستہ اپنا فیصلہ سوشل میڈیا پر صادر کر چکا ہے۔

عدالتی کمیشن بمع رپورٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔اس ہر اول دستے کے نزدیک ایان علی کی چار ماہ قید کاٹنے کے بعد ضمانت دراصل اس بات کی دلیل اور ثبوت ہے کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ نا انصافی پر مبنی ہے۔یہ پڑھا لکھا دستہ اتنا سمجھدار ، سادہ لوح اور معصوم ہے جو سمجھنے پر تیار ہی نہیں کہ عدالتی فیصلے شواہد کی بنیاد پر سنائے جاتے ہیں نہ کہ ہوائی یا سنی سنائی باتوں پر۔

ان کے نزدیک عدالت نے سوشل میڈیا ، ٹی وی اور کنٹینر سے تشہیر کی گئیں تصاویر، بیانات، وائٹ پیپرز، 35 پنکچر کہانی، منظم دھاندلی داستان اور الزامات کو کسی خاطر میں نہ لا کر انتہائی کم ظرفی اور بد دیانتی کا ارتکاب کیا ہے!!!بہر حال ملک میں کوئی ضیاء الحق جیسا ڈکٹیٹر راج کرتا ہوتا توبات کافی آسان تھی۔تب تو منتخب وزیرِ اعظم کے عدالتی قتل یا پھانسی کا فیصلہ بھی محض سلطانی گواہی کی بنیاد پر صادر ہو جایا کرتا تھا۔

پھر 35 پنکچر ثابت کرنا کون سا مشکل کام ہوتا؟ بس عدالت میں ایک استعمال شدہ پرانی سی گرد آلود 35 پنکچر لگی ٹیوب ہی تو پیش کرنی تھی جو کسی بھی پنکچروں والی دکان سے ارزاں نرخ کیا مفتو مفت مل جاتی۔یہاں عدالت پنکچر زدہ ٹیوب کا منہ دیکھتی اور وہاں انتخابات کے منظم طور دھاندلی زدہ ہونے پر مہر ثبت ہو جاتی۔ آسان سی بات تھی پر ہر اول انقلابی دستے کی بدقسمتی کہ اس وقت ملک میں نہ وہ ڈکٹیٹر موجود ہے اور نہ ویسی اعلی عدالتیں۔


یہ ہر اول دستہ نظام کی خرابیوں ،کوتاہیوں یا بے ضابطگیوں کو منظم طریقہ سے درست کرنے کے بجائے شخصیت پرستی کے جال میں پھنسا پڑا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خطے کے عوام عمومی طور پر شخصیت پرست و تماش بین واقع ہوئے ہیں، ایک ایسی قوم جو اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک ٹانگ پر کھڑی کسی مسیحا کے انتظار میں محو نظر آتی ہے۔ مسیحا آئے گا ، ڈگڈگی بجائے گا اور تمام مسائل اڑن چھو ہو جائیں گے! پاکستانی قوم کی اسی نفسیاتی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحا کے روپ میں وارد ہو ئے ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ڈکٹیٹروں نے اقتدار کے مزے لوٹے ہیں۔

غیر ممالک خصوصاٌ یورپ ، امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کے نظام کا پاکستان کے نظام سے موازنہ کرنا اور قصور وار سیاستدان کو ٹھہرانا بھی اسی ہر اول دستے کی اونچی دانش کی بھرپور نشانی ہے۔حالانکہ امریکہ ، یورپ یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک کا نظام جسے ہم پاکستانی بڑی رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں آسمان سے یکسر اتر کر ان ممالک میں لاگو نہیں ہو ا اور نہ ان ممالک کے شہری ہمیشہ سے ہی تہذیب و تمدن و اعلی اقدار کا شاہکار رہے ہیں بلکہ یہ نظام اور معاشی و معاشرتی اقدارنظام کے تسلسل، سخت محنت اور نسلوں کی قربانیوں کا منطقی انجام ہے۔

سادہ سی بات ہے کہ نظام تسلسل سے چلے گا تو وقت کے ساتھ بہتر سے بہتر ہوتا چلا جائے لیکن اسی اصول کی اپنے وطن میں اطلاق کی باری آتی ہے تو انہیں مسیحا کو سیڑھی چڑھانے کا شوق آن گھیرتا ہے اور اسی شوق میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر اپنے ملکی نظام کو تہہ و بالا کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔
ٹھیک اسی طرح ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر شواہد کے شواہد ہاتھوں میں پکڑ پکڑ کر لہرانے والی مسیحائی کی دعویدارشخصیات اور سائنسدان قسم کے انقلابی اینکر پرسنز پر فرض تھا کہ موجود شواہد کے انبار کو عدالتی کمیشن کے روبرو پیش کر کے قومی خدمت سرانجام دیتے تاکہ پانی سر سے گزر جانے کے بعد نا ہی ہزیمت اٹھانا پڑتی، نہ منہ بسور کر کربناک انداز میں ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہونا پڑتا اور نہ ہی بھرپور ایکٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیمروں کے سامنے رپورٹ کے چیتھڑے اڑانے پڑتے۔


برٹرینڈ رسل نے کہا تھا:
To understand the world as it is, not as we should wish it to be, is the begining of wisdom.
شعور کی بات یہی ہے کہ نتائج اپنی خواہشات کے برعکس آنے کے باوجود عمران خان صاحب عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو من و عن تسلیم کر کے مزید کسی نئی بحث اور معرکہ آرائی سے گریز کا رستہ اپنائیں۔ جماعت کے فیصلہ سازی کے عمل اور طریقہ کار کا از سر نو جائزہ لیا جا نا بھی ضروری ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال میں لئے گئے تمام فیصلے ملک میں ہیجان پیدا کرنے اور بطور جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے لئے بدنامی کا سبب بننے سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکے جبکہ کپتان صاحب کی اپنی سیاسی ساکھ بھی شدید متاثر ہوئی ہے ۔

بلاشبہ پاکستان کی جمہوریت کو مضبوط حزبِ اختلاف کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی جمہوریت پسند شخص یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان کا سیاسی نظام سنگل پارٹی سسٹم بن جائے۔دو سے تین مضبوط قومی سیاسی جماعتوں کی موجودگی ازحد ضروری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے ہے کہ کسی جرنیل کے کاندھے پر سوار یا طالبان کے دفاتر کھلوانے کی خواہشمند اپوزیشن کسی طور قبول نہیں کی جا سکتی ہے۔پاکستان کی بقاء جمہوری نظام کے تسلسل سے جڑی ہے ۔نظام کے ارتقاء میں ہی قوم کی ترقی کا راز پنہا ں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :