آمرِ زماں

اتوار 26 جولائی 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

نیپرا نے کے الیکٹرک کو نوٹس بھیجا ہے :” ذرا بتائیے رمضان کے مقدس مہینے میں جب خلق خدا عبادت اور آرام میں مصروف ہوتی تھی ، آپ کا نظام کیوں بیٹھتا اور لیٹتا رہا ، گھنٹوں بجلی بند رہی ، آپ کی ٹیم نظام کے گرد گھیرا ڈال تماشا دیکھتی رہی، آ پ نے بجلی مہنگی کی ، آپ نے اضافی بجلی کا بندوبست نہیں کیا،آپ نے اچھے والے تار نکال کر بیچ دیے اور سستے والے تار لگا دیے ، تار اتنے گھٹیا ہیں کہ ذرا دباؤ بھی برداشت نہیں کر پاتے ، کیوں نہ آپ کے خلاف کارروائی کی جائے اور کیوں نہ آپ پر قبضہ کر لیا جائے ، یا کم از کم آپ پر جرمانہ عائد کیا جائے، تا کہ آنے والے ماہ و سال میں آپ کا قبلہ درست رہے “۔


کے الیکٹرک کا کہنا ہے اسے کوئی نوٹس ووٹس نہیں ملا ، لیکن شاید میڈیا کے ذریعے نوٹس کے مندرجات کے الیکٹرک کے علم میں آگئے ہیں اس لیے کے الیکٹرک تن دہی اور جاں فشانی سے جواب کی تیاری میں مصروف ہے ، جو ممکنہ طور پر کچھ یوں ہو سکتا ہے :” جناب نیپرا! ہم نے جو کچھ کیا سوچ سمجھ کر کیا ، خلق خد کے فائدے اور اس کی راحت کے لیے کیا ، اب خلق کی قسمت ہی پھوٹی ہو تو ہم بھلا کیا کر سکتے ہیں ، ہم جو نہیں کر سکتے وہ بھی کر رہے ہیں ، آپ نے بجلی کی قیمت میں اضافے کا الزام لگایا ہے ، لیجیے ہم فی یونٹ 48پیسے کمی کر رہے ہیں اور بولیے کیا چاہیے ، کتنا چلے گاکیسے چلے گا؟ کیش یا چیک؟
####
پنجاب کے سابق وزیر اعلی اور ملک کے سابق ڈپٹی وزیر اعظم جناب چودھری پرویزالہی کہتے ہیں: ”حکم ران ڈرامے چھوڑ دیں ، سیلاب سے مستقل نجات کے لیے کالا باغ ڈیم بنائیں“جناب !آپ کے دور میں ڈیم کیوں نہیں بنے جب آپ پنجاب کے وزیر اعلی تھے ، اس وقت وفاق میں آپ کی قینچی لیگ کی حکومت تھی ، آپ کے محبوب رہ نما آمر زماں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ملک کے کرتا دھرتا تھے ، قینچی لیگ کے آرگنائزر ہی نہیں سرپرست اعلی بھی تھے،پھر جب آپ ڈپٹی وزیر اعظم بنے اس وقت ہی کالا باغ ڈیم کی تحریک چلالیتے ، آپ نے بھی 10سال ڈرامے کر کے ہی گزارے ، اب ڈراموں میں اپنے لیے مظلوم کردار چن لیا آپ نے ،مگر جناب کالا باغ ڈیم آپ کے صحن میں ایک کلو کچی مٹی سے نہیں بننا ، اتنا ہی آسان ہوتا تو پرویز مشرف نہ بنا لیتے ، بے چارے مخلص بھی تھے ، بنانے کو تیار بھی تھے ، آمر زماں ہونے کے ناطے طاقت بھی رکھتے تھے لیکن آپ اور بڑے چودھری صاحب نے ان کو مشورے ہی ایسے دیے۔

(جاری ہے)


####
سابق چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر افتخار چودھری نے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا ہے ، غالب امکان اور گمان تو یہی تھا، تاہم ریٹائرڈ جج صاحب مجبور بھی تھے اور مصروف بھی ، ان کے مخالفین چیں بہ جبیں ہیں اور پوچھ رہے ہیں ، جج صاحب نے پہلے عزت کمائی پھر ذلت کمائی اب کیا کمانے جا رہے ہیں ، افتخار چودھری کے جو حامی سیاسی شعور رکھتے ہیں وہ بھی شاید ان کے اعلان اور فیصلے سے خوش نہیں ہوئے، غیر جانب دار لوگ بھی دل چسپی نہیں رکھتے ، ویسے ڈاکٹر عبد القدیر کی جیت کا گراف دیکھنے کے بعد کسی قومی ہیرو کو سیاسی جماعت بنانے کا اعلان نہیں کرنا چاہیے ، بہر حال کچھ لوگوں کو چودھری افتخار سے بڑی امیدیں ہیں، لیکن یہ سوال ضرور ہے کہ چودھری افتخارپورے ملک کے لیے پکے ٹھکے ، صاف ستھرے ، نیک و پارسا ، دھلے دھلائے مقبول عام رہ نما و لیڈر کہاں سے لائیں گے ؟ بہ ظاہر نظر یہی آرہا ہے کہ تانگہ پارٹیوں میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا۔


####
سیلاب پریشان کر تا ہے تو کرتا رہے ، غربت سر چڑھ کر بول رہی ہے تو بولتی رہے ، بے روزگاری ناچ رہی ہے تو ناچا کرے ہمارے سیاست دان2013کے انتخابات کے سحر اور چنگل سے باہرہی نہیں آرہے، پہلے یہ چیخ و پکار تھی کہ دھاندلی کی تحقیق کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے ، کمیشن جو فیصلہ دے ، سب مانیں گے ، بنا ، تحقیق ہوئی ، فیصلہ بھی آگیا، نہ ماننے والے اب بھی نہیں مان رہے ، اپنی مرضی کے کمیشن اور مرضی کے نکات پر ہونے والی تحقیق کے بعد کمیشن نے جو کہا ، جیسا کہا وہ مان لیا جائے ، ویسا کر لیا جائے تو بھلے کی امید ہے ، لیکن نئی بحث یہ بھی چل پڑی ہے کہ خان صاحب معافی مانگیں ، یا نہ ؟ اُ دھر پی پی کے رہ نما اور لیڈر عدالتی کمیشن کے سامنے تو پیش نہیں ہوئے لیکن اس ضد پر قائم ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے ، کہاں کہاں ہوئی ہے ، کس نے کی ہے ، اس بارے میں سب کا متفقہ فیصلہ ہے ، جو جہاں سے ہارا ہے وہاں دھاندلی ہوئی ہے ، اس کا مطلب پاکستان کے ہر حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے کیوں کہ ہر حلقے سے جیتنے والا بندہ تو کسی ایک پارٹی کا ہوگا ، یا آزاد بھی کسی کا گرفتار ہو گا، اس لیے دھاندلی ہوئی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :