شرمناک غفلت۔

جمعہ 24 جولائی 2015

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

ہم پاکستانی بدقسمتی سے خودساختہ مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا ایک خودکفیل قوم ہیں۔خدا خدا کر کے ایک مصیبت سے چھٹکارا پاتے ہیں تو دوسری پریشانی آدبوچتی ہے،اس طرح پورا سال مصیبتوں اور پریشانیوں کے چُنگل میں بسر ہوتا ہے۔ بقول منیر نیازی،
”اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں اک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا“
ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان کی عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں کیا جا سکا۔

سیلاب سے قبل حکومتی دعوے اک بارپھر وہی روائتی گیدڑ پھبتیاں ثابت ہوئیں اور اس بار پھروہی پاک فوج اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لئے سرشار ہوئی ۔زمانہ امن ہو یا زمانہ جنگ۔۔!! پاک فوج نے بغیر حیل و حجت اپنی خدمات پیش کیں جبکہ حکمران اور سیاستدان۔

(جاری ہے)

۔!! انتخابات کے دوران جھوٹے وعدوں اور بوقت ضرورت فوٹو سیشنز تک ہی محدود رہے،،،،چترال میں16جولائی کو آنے والے سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی جس کے نتیجے میں کئی علاقوں کا ایک دوسرے سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ40رابطہ پل،20کے قریب سڑکیں اور متعدد مکانات زیر آب آگئے جبکہ جنوبی پنجاب میں200سے زائد بستیاں بھی اسی سیلاب کی تباہ کاریوں کی نظر ہوئیں۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مواصلات کا نظام بری طرح تباہ، کھانے پینے کی اشیاء کی قلت اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی سے مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔پاک فوج کے جوان ہمیشہ کی طرح اپنی حب الوطنی کے تقاضے پورتے ہوئے اس بار بھی مصیبت میں گھرے اپنے پاکستانی بھائیوں کی مدد کے لئے دن رات مصروف عمل ہیں جبکہ حکومت ہر سال کی طرح اس بار بھی عوام کو ریلیف دینے ناکام نظر آتی ہے۔

گزشتہ سال بھی سندھ کے علاقے تھرپارکر میں حکمرانوں کی شرمناک غفلت سے غذائی قلت کا شکار ہو کر نمونیا،بخار، دست و قے ، خو ن کی کمی اور ہیپاٹائٹس جیسے موضی مرض کے باعث متعددبچے ہلاک ہوئے تھے جبکہ سینکڑوں ا سپتالوں میں تاحال زیر علاج ہیں اورستم ظریفی یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے ملکی و غیر ملکی سماجی تنظیموں کی جانب سے ہر سال دی جانے والی بھاری بھرکم امداد متاثرین کی بحالی پر لگنے کی بجائے حکومتی عہدہداروں اور متعلقہ افراد کی جیبوں میں چلی جاتی ہے جبکہ عوام پھر اُسی کرب و مصیبت کی نظر رہتے ہیں۔


مون سون بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں پاکستان میں ہر سال انسانی جانوں کا ضیاع، فصلو ں کی بربادی، سینکڑوں دیہاتوں کی تباہی اور قومی معیشت کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ملکی تاریخ میں1950سے2012تک آنے والے20 سیلابوں کے نتیجے میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔فیدرل فلڈ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق1950سے2012تک آنے والے 20سیلابوں کے نتیجے میں ملک میں 11239ہلاکتیں،180234دیہات متاثر جبکہ ان63سالوں کے دوران ملکی معیشت کو39ارب روپے کادھچکا لگا۔

۔دوسری جانب1974سے2013تک ملک میں آنے زلزلوں کے نتیجے میں سوا لاکھ کے قریب ہلاکتیں،لاکھوں زخمی اور ہزاروں گھر تباہ و برباد ہوئے ہیں۔ ان تباہ کُن حالات کے باوجود حکومت کی جانب سے سیلاب و زلزلے کی تباہ کاریوں کی روک تھام یا کم سے کم نقصان کیلئے مربوط لائحہ عمل اور خاطر خواہ پلاننگ بھی آج تک عمل میں نہیں لائی گئی ،جسکی بنیادی وجہ نااہلی، کرپشن اور ترجیحات کی غیر ناسب ترتیب ہے۔

۔ہمارے ایک بزرگ دوست کہتے ہیں کہ جن حکمرانوں کی ترجیحات میں تہذیب و ثقافت کے نام پر عیاشی اور پالتو کتوں اور جانوروں کو لڑانے پر فخر کیا جاتا ہو اُن سے انسانوں کی خبر گیری کی اُمید رکھنا بھی حماقت ہے ۔۔اس وقت تقریبا پورا ملک مون سون بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہے،جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں کا حالیہ سلسلہ مذید سات روز تک جاری رہنے کا مکان ہے، اگر چہ پاک فوج ہر سال کی طرح اس سال بھی ایمرجینسی صورتحال سے نبردآزما ہے اور ہنگامی حالت سے نبٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے تاہم یہ ایک عارضی حل ہے، جسکا مستقل اور جامعہ حل تلاش کیا جانا بہت ضروری ہے، فوج جو کہ بنیادوں طور پر سرحدوں کی حفاظت کی ضامن ہے،کو ملک میں ہر ادارتی ناکامی میں اُلجھانا کسی طور سود مند نہیں ہے۔

سیاستدانوں باالخصوص حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ بارشوں، سیلاب اور زلزلوں کی تباہی سے بچنے یا کم سے کم نقصان کے لئے Disaster Managment cell یا اس سے متعلقہ اداروں پر بھر پور توجہ دیکر انہیں مربوط اور فعال بنایا جائے، تاکہ ہر سال ہونے والے جانی، مالی، اور معاشی نقصان سے بچا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :