جشن مسرت

ہفتہ 18 جولائی 2015

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

دنیا کی ہر قوم اور مذہب کے ماننے والوں نے اپنے لوگوں کے لیے کوئی خاص ایام مقرر کئے ہوتے ہیں جنہیں وہ بھر پور طریقے سے مناتے ہیں۔ دور جدید میں ہر مملکت کا قومی دن اور دیگر تہوار اس مملکت کیااہم ایام تصور ہوتے ہیں۔یہ مذہبی اور قومی تہوار دراصل کسی بھی قوم و ملک کی شناخت اور ملی جذبے کا اظہار ہوتے ہیں۔ کوئی ملک، مذہب یا قوم دنیا میں ایسی نہیں ہوگی جو اس طرح کے مخصوص ایام کی حامل نہ ہو۔

کیا اسلام نے بھی اپنے پیرکاروں کے لیے کوئی تہوار یا ایام مقرر کئے ہیں تاکہ مسلمان بھی دیگر مذہب کے ماننے والوں کی کوئی بڑی تقریب منا سکیں۔ ہمارے عید ین کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اسی تناظر میں مخصوص ایام کی طرح منائی جاتی ہیں۔ عید کی اہمیت اور اس کے شرعی احکام تو بڑے تفصیل کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں لیکن یہ وضاحت نہیں کی جاتی کہ ہم عید مناتے کیوں ہیں؟ قبل اس کے ہم دیکھیں کہ قرآن حکیم اس ضمن میں کیا تعلیم دیتا ہے پہلے عید کے لفظ پر غور کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

عید بنیادی طور پر عود سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے پلٹ کر آنا یعنی عید کے معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے والا دن۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ صرف ایک جگہ آیا ہے او ر وہ ہے سورہ مائدہ کی آیت ۱۱۴ میں جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے آپ سے عرض کہ اللہ سے التجا کریں کہ ہمارے لیے آسمان سے ہمارے لیے رزق اتارے جو ہماری جسمانی نشو ونما کے ساتھ اطمینان قلب کا بھی باعث بھی ہو جس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے یہ دعا فرمائی۔

اس لیے علاوہ عید کے لیے قرآن حکیم میں کوئی اور ذکر نہیں تو پھر وہی سوال کہ ہم عید کیوں مانتے ہیں۔
قرآن حکیم کی سورہ یونس کی آیت ۵۷ میں ارشا دہے کہ اے نوع انسان! تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے ایک ضابطہ قوانین نازل ہوا ہے جو تمام نفسیاتی امراض کا علاج ہے اور جو اس پر پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے منزل تک پہنچنے کی رہنمائی ہے۔ اس کے ساتھ اگلی آیت میں فرمایا کہ اے رسول م ﷺ ان کو کہہ دیں کہ اللہ کے فضل اور رحمت سے ایساضابطہ حیات ملا ہے کہ تم کیا ساری دنیا کے انسان مل کر بھی اس طرح کا ضابطہ نہیں بنا سکتے لہذا س قدر عظیم نعمت ملنے پر جشن مسرت مناؤ اور یہ اس ساری مال و دولت سے کہیں بہتر ہے جو تم جمع کرتے ہو۔

گویا اس دن منانے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں دیا ہے اور اس کی وجہ قرآن حکیم کا ملنا ہے۔ اسی حکم کی کی تعمیل میں ہم نزول قرآن کی خوشی میں رمضان کے بعد عیدالفطر مناتے ہیں اورچونکہ قرآن اور صاحب قرآن کو ایک دوسرے سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا اس لیے صاحب قرآن کی تشریف آوری پر ربیع الاول میں جشن مناتے ہیں جسے عید میلادالنبیﷺ سے موسوم کیا جاتاہے۔

وہ جشن بھی حکم الہی کی تعمیل ہے۔ عید الفطر یعنی جشن نزول قرآن اس لیے رمضان کے اختتام پر منایا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۵ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو رمضان میں نازل کیا ہے۔ نزول قرآن کا ذکر کرتے ہوئے سورہ قدر میں فرمایا کہ ہم نے اس کتاب مبین کو عظمتوں والی رات میں نازل کیا ہے ۔ اس طرح پورا رمضان اس قرآن کی تلاوت، سمجھنے اور غور و فکر کرنے میں گذر تا ہے اور بعد میں اس کے نازل ہونے کی خوشی میں جشن مسرت عید الفطر کی صورت میں مناتے ہیں۔


یہ ضابطہ حیات جو کہ خدا کا آخری کلام ہے واقعی انسانیت کے لیے بیش بہا اور گراں قدر نعمت ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ یہ کیسے اس قدر اہم ہوسکتا ہے یا کوئی غیر مسلم یہ کہے کہ اس میں تمام نوع انسانی کو کیوں مخاطب کیا گیا ہے اور اس کے نازل ہونے کو احسان ہے تو مسلمانوں پر ہوگا ، غیر مسلم اسے کیوں تسلیم کریں۔ سوال واقعی بہت اہم ہے۔

اس کے جواب کے لیے قرآن حکیم پرغور کریں تو یہ حقیقت واضع ہوجائے گی کہ یہ کوئی مذہبی کتاب نہیں جس میں رسمی عبادات کی تفصیل اور ان کا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے بلکہ قرآن ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جس کا موضوع انسان ہے اور یہ انسان کو اس کے مقام سے آشنا کرتی ہے ۔ اسے یہ باور کراتی ہے کہ یہ کائنات تیرے لیے مسخر کی گئی ہے اور تو مسجود ملائکہ ہے۔

تو اس دنیا پر خدا کی بہترین تخلیق ہے اور کائنات تیرے لیے بنائے گئی ہے تو نہیں جہاں کے لیے۔ انسان نے جب اس انقلاب آفرین پیغام پر غور کیا تو اُس نے اس دنیا کا انداز ہی بدل ڈالا اور وہ کائنات کی وستعوں کی تسخیر کرتا چلا گیا۔ تو کیا پھریہ تمام انسانوں کے لیے عظیم نعمت نہیں۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہ وحی انسان کو وہ سب رہنمائی فوری طور پر پیش کردیتی ہے جس تک انسانی عقل کو پہنچنے میں لاکھوں سال لگیں۔

علامہ فرماتے ہیں کہ
عشق کی ایک جست نے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھا میں
اس کتاب عظیم پر عمل کرنے والوں کے علم کی بدولت یورپ کو تاریک دور سے نجات ملی اور مسلمانوں کے سائنسی انداز فکر اور علم سے فیض یابی کرتے ہوئے وہ ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن ہوئے جس پر سفر طے کرتے ہوئے وہ آج اس مقام پر موجود ہیں۔

اس حقیقت کا اعتراف خود اہل یورپ کرتے ہیں ۔ یورپ کے بادشاہوں اور کلیسا کے پاپاؤں نے قرآن پڑھا ا اور 788-1200 تک اس کا طرز جہاں بانی اختیار کرکے زمینوں، سمندروں، ہواؤں اور فضاؤں پر چھا گئے۔ آٹھویں صدی عیسوی سے پانچ سو سال بعد تک عربی یورپ کی علمی زبان اور قرآن یورپ کا ضابطہ حیات رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ عربی ہی نوع بشر کی سائنسی زبان رہی ہے۔

اور وہ عربی زبان سیکھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ بارہویں صدی عیسوی کے فضلائے یورپ کی سوانح عمریوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان سب نے قرآن کو ضابطہ حیات کے طور پر اختیار کرلیا تھا۔ اہل امغرب خود اعتراف کرتے ہیں کہ عظمت کے اعتبار سے کوئی زبان قرآن کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کی برتری اس کا ذخیرہ الفاظ اور اسلوب ہے۔ اس کی صرفی و نحوی خصوصیات کسی دوسری زبان میں نہیں پائی جاتیں ۔

جدید سائنس اور علوم و فنون کو اپنے فہم کے اظہار کے لیے جس اسلوب کی ضرورت تھی وہ عربی میں عبرانی اور آرامی زبانوں سے بہت بہتر تھی ۔ان کے اہل علم مانتے ہیں کہ ہم سائنس کا قرآن سے تعلق قائم کیے بغیر اس کا صحیح ادراک کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ زندگی کا شائد ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس میں قرآن نے مغربی روایات کو مالا مال نہ کیا ہو۔ سائنس طب، صنعت و حرفت، تجارت وایجادات بلکہ سارے علوم کا علمی و فنی ذوق قرآن سے حاصل ہوا ہے۔

اگر جدید سائنسی اصطلاحات سے صرف نظر کر بھی لیا جائے تو قرآن کا زندگی میں جو علمی حصہ ہے اس کی حوالہ جاتی فہرست ہی کے لیے بہت سے صفحات درکار ہوں گے اور پھر بھی وہ نامکمل رہے گی۔ سائنسپر قرآن کے احسانات کا اہل یورپ اعتراف کرتے ہیں ۔ قرآن نے ایسے سائنسی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور ادبی تصورات دیئے ہیں جس کا ان کی زبان پر اثر پڑا ہے۔ انگریزی زبان میں آج بھی ایک ہزار سے زائد عربی کے الفاظ کی موجودگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

یورپی سائنسدان نے اہل یورپ کو نصیحت کی سائنسی ترقی کے لیے عربی زبان سیکھیں اور مسلمان سائنسدانوں کی کتب پڑحیں۔قرآن سے تمام انسانوں نے بھر پور فائید اٹھایا ہے اس لیے ان واضح دلائل کے بعد اب ہونا تو چاہیے کہ قرآن جیسی عظیم نعمت ملنے پر تمام انسانوں کو مل کر جشن مسرت منانا چاہیے ۔
 اہل امغرب خود اعتراف کرتے ہیں کہ عظمت کے اعتبار سے کوئی زبان قرآن کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

اس کی برتری اس کا ذخیرہ الفاظ اور اسلوب ہے۔ اس کی صرفی و نحوی خصوصیات کسی دوسری زبان میں نہیں پائی جاتیں ۔ ان کے اہل علم مانتے ہیں کہ ہم سائنس کا قرآن سے تعلق قائم کیے بغیر اس کا صحیح ادراک کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ زندگی کا شائد ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس میں قرآن نے مغربی روایات کو مالا مال نہ کیا ہو۔ سائنس طب، صنعت و حرفت، تجارت وایجادات بلکہ سارے علوم کا علمی و فنی ذوق قرآن سے حاصل ہوا ہے۔

اگر جدید سائنسی اصطلاحات سے صرف نظر کر بھی لیا جائے تو قرآن کا زندگی میں جو علمی حصہ ہے اس کی حوالہ جاتی فہرست ہی کے لیے بہت سے صفحات درکار ہوں گے اور پھر بھی وہ نامکمل رہے گی۔ سائنس پر قرآن کے احسانات کا اہل یورپ اعتراف کرتے ہیں ۔ قرآن نے ایسے سائنسی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور ادبی تصورات دیئے ہیں جس کا ان کی زبان پر اثر پڑا ہے۔

انگریزی زبان میں آج بھی ایک ہزار سے زائد عربی کے الفاظ کی موجودگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔یورپی سائنسدان Roger Bacon نے اہل یورپ کو نصیحت کی سائنسی ترقی کے لیے عربی زبان سیکھیں اور مسلمان سائنسدانوں کی کتب پڑحیں۔ مسلمان سائنس کے میدان میں Pioneerتھے اور آج کی سائنسی ترقی ان کی مرہون منت ہے ۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ قرآن کے بغیر انسانی تہذیب اس حد تک نہ پہنچتی جس پر پہنچ کر وہ ارتقاء کی تمام سابقہ حالتوں پر سبقت لے گئی۔

قرآن میں ایسے محکم اصول موجود ہیں جن کی بنیاد پر پوری دنیا کے ملکوں اور قوموں کی تشکیل نو ہوسکتی ہے۔ دنیا اس غلط فہمی میں مبتلا رہی کہ جدید سائنس کا موجد یونان تھا لیکن جدید تحقیقات سے یہ ناقابل تردید حقیقت سامنے آئی کہ یونان نے بعض نظریات ضرور قائم کیے تھے لیکن تجرباتی علم کو عمومی طور پر اختیار کرنا یونانی مزاج کے خلاف تھا۔ قرآن ہی وہ کتاب ہے جس نے اپنے پڑھنے والوں کے لیے معروضی تحقیقات اور تجربی معلومات کو لازم قرار دیاہے۔
اس تمام تفصیل سے یہ واضع ہوجاتا ہے کہ قرآن سے صرف مسلمان ہی فیض یاب نہیں ہوئے بلکہ غیر مسلمانوں نے بھی اس فائدہ اٹھایا ہے اس لیے اس کتاب عظیم کے نازل ہونے کی خوشی میں تمام انسانوں کو جشن مسرت منایا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :