پرویز رشید کی کھری کھری باتیں

جمعرات 16 جولائی 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

دعش ہو یا اسی سے ملتی جلتی دیگر انتہا پسند تنظیمیں گروہ یا جماعتیں یہ افراد معاشرہ کی جانب سے دئے گئے چندوں اور امداد سے ہی اپنی کاروائیاں جاری رکھتی ہیں اگر ان کی ترسیل زر کے تمام ذرائع کو روکنے میں حکومت کا میاب ہو جائے تو پھر ان کے لئے کام کرنا مشکل ہو جائے گا ابھی کچھ دن پہلے وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید نے سندس فاونڈیشن کی ایک تقریب میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج پاکستان میں ضروری ہو چکا ہے کہ جو رقوم اللہ کی راہ میں خرچ کی جا رہی ہیں اس کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے کہ یہ رقوم دوائی کے لئے استعمال ہو رہی ہے کہیں ا سے خودکش جیکٹ یا دہشتگردی کے لئے استعمال تو نہیں کیا جا رہا۔

اپنی ذات کو فراموش کر کے دوسروں کے کام آنا بڑی عبادت ہے۔

(جاری ہے)

جن اداروں نے لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے، ہمیں چاہیے کہ ان کی بھرپورا مداد کریں۔ اس طرح کے ادارے چلانے والے لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محترم اور بہادر ہیں کیونکہ یہ لوگ دوسروں کی ز ندگیاں بچانے کے لئے انہیں سہولتیں فراہم کر رہے ہیں پرویز رشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ لوگ زیادہ محبت کے مستحق ہیں کیونکہ یہ عبادات سے بڑھ کر افضل فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں یہ ضروری ہو چکاہے کہ زکواة  صدقات اور فطرانہ دیتے وقت اس بات کی مکمل طور پر جانچ پڑتال کی جائے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کی جانے والی یہ رقوم دوائی کے لئے استعمال ہو رہی ہیں یا انتہا پسندی کے فروغ کے لئے ۔ ا نہوں نے کہا کہ علم کا مقصد لوگوں سے محبت کرنا اور بھائی چارہ کا فروغ دینا ہے نہ کہ علم کے نام پر تعصب، عصبیت اور قتل و غارت کرنا ہے۔


جہاں تک پرویز رشید کے خیالات کا تعلق ہے اگر مبالغہ آرائی قرار نہ دیا جائے تو ایسی ہی سوچ عوام کے اندر بھی پائی جاتی ہے مگر وہ راہنمائی سے محروم ہونے کی وجہ سے کھرے کھوٹے کی پہچان نہیں کر پاتے اس کے لئے ضروری ہے تعلیم اور علم کے فروغ کے ساتھ حکومتی سطع پر اس کام کا بیڑا اٹھایا جائے تاکہ امداد کی مد میں اکٹھا کیا گیا پیسہ ضروت مندوں، محتاجوں ، مسیکنوں اور جو لوگ علاج معالجے کی سہولتیں اور انسانی جان کو بچانے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں کے کام آسکے اس سے بڑھ کر ظلم اور زیادتی اور کیا ہو گی کہ ملک میں لوگ بھوک بیماری اور بے روزگاری کی بنا پر خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جبکہ ان کے نام پر اکٹھا کیا گیا پیسہ انتہا پسندنہ سوچ پھیلانے اور دہشت گردی میں خرچ کیا جاتا ہے جس کی روک تھام حکومت ہی کر سکتی ہے جبکہ تاجر طبقات کو بھی چاہیے کہ وہ امداد کی مدد میں دیا گیا پیسہ صرف ضرورت مندوں کو ہی دیں۔


اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اندرون ملک اور بیرون ملک سے ہر سال کم و بیش 30 ارب ڈالر کی خطیر رقم خیرات کی مد میں دی جاتی ہے لیکن اس نیک کام کے لیے کوئی مناسب رہنمائی اور منظم طریقہ کار نہ ہونے کے باعث ملک میں غربت اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کی صورتحال بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے لوگ فی سبیل اللہ خرچ کرنے میں بہت کھلا دل رکھتے ہیں لیکن مناسب رہنمائی اور منظم طریق کار نہ ہونے کے باعث سالانہ 30 ارب ڈالر کی رقم ملک میں صرف نئے بھوکے پیدا کرتی ہے یا ان لوگوں کی تجوریاں بھرتی ہے جو اس کام کو اپنا بزنس بنا چکے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے سادہ لوح لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔

پاکستان اور بیرون ملک کیے گئے سروے کے مطابق پاکستانیوں کی بڑی تعداد اجتماعی اور منظم فلاح کے بجائے انفرادی خیرات کا راستہ اپناتی ہے۔ ہمارے ہاں عقیل کریم ڈھیڈی جیسے لوگ بھی ہیں جو عید الاضحیٰ پر 70گایوں کی قربانی کنے کے عمل کو فخریہ بیان کرتے ہیں جبکہ رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ریاض ملک جیسے لوگ جو روزانہ ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس طریق کار سے بھوکے لوگوں کی تعداد میں کمی نہیں ہو پاتی اضافہ ہی ہوتا ہے۔

کسی ضرورت مند کو باعزت روزگار فراہم کرنا وقتی امداد کی نسبت بے بہا فضیلت رکھتا ہے اور دورس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستانی انفرادی خیرات کے علاوہ جن اداروں کو عطیات دیتے ہیں ان میں سے بیشتر کشمیر، فلسطین، بوسنیا اور برما کے مسلمانوں کی امداد کے پر فریب نعروں کے ذریعے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں یا جہاد کے نام پر بھاری رقوم وصول کرتے ہیں۔

ان اداروں میں اندرون ملک اور بیرون ملک قائم ہر دو طرح کی تنظیمیں شامل ہیں۔ ایسی تنظیموں نے سالہا سال سے لوگوں کے عطیات وصول کیے ہیں لیکن کبھی کسی نے ان سے حساب یا آڈٹ کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ انہوں نے خود کبھی یہ زحمت گوارا کی کہ ان عطیات کا حساب دیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے اداروں کی اکثریت لوگوں کے نیک جذبات کا غلط فائدہ اٹھاتی ہے۔

ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستانی قوم اپنے گرانقدر عطیات سے معاشرے میں لوگوں کو تعلیم اور باعزت روزگار فراہم کرنے کے منظم منصوبے شروع نہیں کرے گی، غربت اور افلاس کا گراف بلند ہوتا رہے گا جبکہ اس کے مقابلے میں اگر 30ارب ڈالر کی خطیر رقم ہر سال منظم اور مثبت طریقے سے خرچ کی جائے تو آئندہ چار سے پانچ سال کے اندر ہمارے ملک کی تقدیر بدل جائے گی اور ہمیں دوسرے ممالک سے آنے والی سرمایہ کاری کی امید میں زندگی نہیں گزارنا پڑے گی اس کے لئے ضروری ہے کہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے لئے طویل المدت سوچ کو اپنایا جائے۔

جس کے لئے ہمیں طویل المدت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہمیں تین سے چھ ماہ کی بجائے پانچ سے دس سال کی مدت کے منصوبے بنانے ہوں گے۔ غربت جہالت کے خاتمے کے لئے، جدید تعیلمی اداروں کے قیام اور اچھے علاج معالجے کے لئے بہتریں ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کی ضرورت ہے اس لئے حکومت چاہیے کہ وہ اس ضمن(چندہ مہم) میں کوئی مثبت اور مربوط پالیسی بنائے تا کہ عوام کا دیا گیا پیسہ غلط ہاتوں میں نہ جائے اور ہمارے ہی خلاف گولی یا انتہا پنسندانہ سوچ کی صورت مسلط نہ ہو ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :