محمد انور کی برطرفی۔۔۔۔اصل وجہ کیا ہے

منگل 14 جولائی 2015

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

ایم کیوایم رابطہ کمیٹی لندن سیکریٹریٹ کے رکن محمد انور کو اُن کی رکنیت سے ہٹادیا گیا محمد انورکاشمار ایم کیوایم کے سینئر ترین رہنماؤں میں کیا جاتا ہے۔ رابطہ کمیٹی پاکستان نے محمدانور سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ محمد انور کافی دنوں سے علیل ہیں،طویل علالت کی وجہ سے اُن کی یاداشت پر گہرا اثر پڑا ہے لہذا اُن کی صحت اِس قابل نہیں کہ وہ تنظیمی امور چلا سکیں ڈاکٹر نے اُنھیں آرام کا مشورہ دیا ہے۔

جبکہ محمد انور کی جانب سے ایک وضاحتی بیان میں انھوں نے کہا کہ اُنھیں اُن کے عہدے سے تنظیمی نظم وضبط کی خلاف ورزی اور منی لانڈرنگ کیس میں تفتشی معاملات میں ایم کیوایم کی قیادت کو مطمئن نہ کرسکنے کی وجہ سے ہٹایا گیاہے۔قارئین محمد انور کا نام ایم کیوایم کے قائد سمیت اُن پانچ لوگوں میں شامل ہے جنھیں برطانوی حکومت نے منی لانڈرنگ کیس میں نامزد کررکھاہے۔

(جاری ہے)

جن میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین، محمد انور ،طارق میر ،سرفراز مرچنٹ اور دیگر دونام شاملِ تفتیش ہیں۔اِس کیس میں تفتیش کے دوران برطانوی پولیس اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تحقیقاتی ادارے کاؤنٹر اینڈٹیریرزم سیل کو انٹرویو دیتے ہوئے محمد انوراورایم کیوایم کے مالی معاملات دیکھنے والے چاٹرڈ اکاؤنٹنٹ طارق میرجوکہ محمدانور کے قریبی رشتے دار بھی ہیں اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایم کیوایم بھارتی خفیہ ایجنسی" را" سے فنڈ لیتی رہی ہے اور ایم کیوایم کے کارکنان کو بھارت میں باقائدہ دہشت گردی کی تربیت دیتی رہی ہے ۔

نیز یہ کہ طارق میر نے اپنے بیان میں اِس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اِن تمام امور کی نگرانی محمد انورکے ذمہ تھی اور وہی اِن تمام معاملات کو دیکھا کرتے تھے ۔قارئین محمد انور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی شہریت کے حامل ہیں اورگذشتہ کئی عشروں سے برطانیہ میں مقیم ہیں اِن کے پاس پاکستانی شہریت نہیں ہے۔لہذاپاکستان میں کچھ قوتوں کی جانب سے اِس صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ فضاء بنائی جانے لگی کے ایم کیوایم لندن سیکریٹریٹ کوبھارتی خفیہ ایجنسی " را" محمدانورکے ذریعے جوکہ بھارتی شہری ہیں ڈائریکٹ ہینڈل کررہی ہے اور الطاف حسین کو بے اثر کر کے بطور مہرہ استعمال کررہی ہے جبکہ محمد انور الطاف حسین سے زیادہ با اثرشخصیت ہیں۔

لہذا چونکہ اب ایم کیوایم پر الطاف حسین کا ہولڈ نہیں اور وہ بھارتی ایجنسی " را " کے ہاتھوں میں ہے اِسے فلفور کالعدم قرار دے کرپاکستان میں ایم کیوایم پر پابندی لگادی جائے۔
قارئین ایسے میں جبکہ ایک طرف ایم کیوایم کو کراچی آپریشن کا سامنا ہے دوسری طرف ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیو ایم کی لندن قیادت نامزد ہے، نیزبھارتی فنڈنگ لینے اوربھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی اب ایم کیوایم کے سر تھوپا جانے لگا ہے جس کے بعد محمدانور کا نام بار بارسامنے آنا یہ وہ محرکات ہیں جس کو لیکر ایم کیوایم اور اُس کی قیادت کافی پریشان ہے۔

لہذا پاکستان میں ایم کیوایم کی عوامی مقبولیت کو برقرار رکھنے اور اِس تاثر کو زائل کرنے کے لئے کہ ایم کیوایم لندن سیکریٹریٹ کو محمد انور کے ذریعے بھارت ہینڈل کررہا ہے اور محمد انور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے زیادہ بااثر شخصیت ہیں محمد انور کو انکے عہدے سے برطرف کردیاگیا ۔ تاکہ پاکستان میں موجود ایم کیو ایم مخالف قوتیں اِس ایشو کو مزید اُچھال کر سیاست نہ کرسکیں اور وہ قوتیں خاموش ہوجائیں جنھیں ایم کیوایم اور اُسکی قیادت سے خدا واسطے کا بیرپڑا ہے لہذا محمد انور کو اُن کے عہدے سے ہٹانا اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔

اِ سی طرح کا معاملہ سندھ کے گورنرڈاکٹر عشرت العبادکے ساتھ بھی کیا جاچکا ہے۔ اُن کے لئے بھی یہی تاثر دیئے جانے لگا کہ وہ ایم کیو ایم کی قیادت سے منحرف ہوگئے ہیں اور ایم کیوایم کے قائد کا کوئی فیصلہ اُن کے لئے قابلِ قبول نہیں رہا۔ سندھ بالخصوص کراچی کی عوام کے لئے گورنر عشرت العباد ایم کیوایم کے گورنر تھے جوکہ ایک بہترین بروکریٹس کا کردار تو ادا کرسکے لیکن عوامی سطح پر کسی قسم کی کوئی پزرائی حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔

لہذا جب عوامی سطح پرگورنرسندھ کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا تو ایم کیوایم اور اُس کی قیادت کو اُن سے بھی علیحدگی کا اعلان کرنا پڑا،لہذا اِس تناظر میں دیکھا جائے تو ایم کیوایم کے لئے موجودہ حالات خود احتسابی کا باعث بنتے جارہے ہیں۔
اِس وقت ایم کیو ایم تاریخ کے دوسرے بد ترین دور سے گزر رہی ہے جبکہ اِس سے پہلے ایک مشکل ترین اور کٹھن دور بانوے میں بھی آچکا ہے لیکن اگرہمارے قارئین غور کریں تواِن دو اَدواروں میں ایک فرق بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ آج کی ایم کیو ایم بانوے کی طرح مزحمتی راستہ اپنانے کے بجائے خود احتسابی کے راستے پر عمل پیرا نظرآتی ہے جوکہ ایک خوش آئند اقدام ہے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور غلطیوں کو نہ دھرانہ اصلاحی تربیت کی پہنچان ہوا کرتی ہے، بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آج کی ایم کیوایم اِس پوزیشن میں ہی نہیں کہ وہ کوئی مزحمتی راستہ اختیارکرے ، ہم سمجھتے ہیں اِس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایم کیوایم کے خلاف ایک قسم کا میڈیا ٹرائل چلائے جانے اور الطاف حسین کی براہ راست تقاریر پر پابندی لگانے سے سندھ میں بالخصوص کراچی و حیدرآباد کی عوام سے الطاف حسین کاباہمی تعلق کا رشتہ ختم کرنا ہے تاکہ پارٹی کو کسی بھی قسم کی عوامی حمایت سے دور رکھاجاسکے۔

اب دیکھنا یہ ہے ایم کیوایم اور اُس کی قیادت عوام سے جڑے اِس دیرنہ رشتے کو قائم رکھنے میں کیا عملی اقدامات اُٹھاتی ہے اور کس طرح خود احتسابی کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے عوام کے اعتماد کوبحال رکھنے میں کامیاب رہتی ہے۔ ایم کیوایم کو موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ اب اُس کے پاس اپنے بچاؤ کے لئے عوامی حمایت کی صورت میں صرف ایک ہی بچاؤ بند ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :