اوئے مولوی تم بھی۔۔!!

جمعہ 10 جولائی 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں مولوی،مفتی ،حکیم اور دانشور کثرت سے پائے جاتے ہیں،ایسے ایسے مفتی کہ شاید کلمہ بھی ڈھنگ سے نہ آتا ہو اور مذہبی معاملے میں جھٹ سے فتویٰ صادر فرما دیتے ہیں،حکیم اور ماہر طب ایسے کہ آپ میں کوئی نہ کوئی مرض ضرور نکال کرمفت میں نسخہ عنایت کردیں گے،دانشوری اور تجزیہ نگاری کے آگے تو سب کی بس ہے،بڑے بڑے صحافی بھی ان کے آگے ہاتھ کھڑے کردیتے ہیں،چائے کے ڈھابے،شیدے کے حمام،مودے کے ڈیرے پر ٹی وی سٹوڈیو بنے ہوتے ہیں،کبھی کبھی تو چائے کی پیالی میں طوفان برپا ہوتا ہے،رہی سہی کسر فیس بکی او رٹوئٹری نقادوں نے پوری کردی ہے،ایسے ایسے تصویری اور تحریری تبصرے کہ دل ”واہ،واہ“ کر اٹھتا ہے۔


اسلامی سکالر مولانا طارق جمیل کپتان عمران خان اور ان کی اہلیہ ریحام خان کی دعوت پر بنی گالا کیا گئے کہ موسمی،غیر موسمی فوجی بندوقیں لے کر مورچوں سے باہر آگئے ہیں۔

(جاری ہے)

مولانا کے خوب لتے لیے جا رہے ہیں،یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ انہیں دین سکھانے والے مخالف مسلک کے حضرات نہیں بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے والے،ان سے سیکھنے والے ہیں،یعنی اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔


یہ معاملہ مذہبی سے زیادہ سیاسی لگ رہا ہے،اگر یہ معاملہ سیاسی ہے تو نقادوں کی تنقید کوئی غلط نہیں کیونکہ مولانا جس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں خالصتاً تبلیغی اور دینی ہے مجموعی طور پر تو ان کی جماعت کے ارکان ووٹ دینے کو گناہ سمجھتے ہیں،اس معاملے میں تو ان کی جماعت کے ارکان طالبان کے ہمخیال ہیں۔اگر ووٹ دینا غلط ہے تو ووٹ لینے والے کے پاس جانا بھی غلط ہے،مولانا کو اس معاملے میں اپنی پوزیشن واضع کرنی چاہیے،اگر یہ معاملہ انفرادی ہے تو کسی کی تنقید کا کوئی جواز نہیں بنتا ،مولانا کی تبلیغ اور باتوں سے کوئی راہ راست پر آتا ہے تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟ مولانا کوئی عام شخص تو ہیں نہیں ۔

انہوں نے اپنی پر اثر باتوں سے متعدد افراد کو گندگی سے نکال کر پاکیزگی کی زندگی دی ہے۔
بحیثیت مجموعی ہم داعی کردار نظر انداز نہیں کرسکتے۔مولانا جیسے داعی کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ہم کو تو ان کے کردار کی تعریف کرنی چاہیے تھی لیکن افسوس ہم ایک سکالر کو بھی سیاستدان کی طرح ٹریٹ کررہے ہیں۔باحیثیت داعی مولانا نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے،مصر میں اخوان کا جہاں ہیڈ کوارٹر ہے وہاں نائٹ کلب ہوا کرتا تھا سید حسن البنا شہیدنے اپنی تبلیغ کا آغاز اسی نائٹ کلب سے کیا تھا۔


رہی بات مخلوط محفل کی تو یکم رمضان سے مولانا ٹی وی چینلز پر درس دے رہے ہیں جہاں خواتین بھی ہوتی ہیں پہلے کیوں کسی کو مخلوط محفل نظر نہ آئی؟
اعتدال سے کام لیجئے مولانا پر تنقید کے نشتر چلانے سے پہلے ذرا تاریخ کا مطالعہ کریں ایوب خان کیخلاف سید مودودی سمیت تمام علماء کرام نے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی،مولانا فضل الرحمان تو بے نظیر بھٹو کی حکومت میں بھی مزے لیتے رہے ہیں۔

جماعت اسلامی،جے یو آئی کی خواتین ارکان پارلیمان مردوں کے ساتھ ہی بیٹھتی ہیں۔
تنقید کرتے کرتے ہم اقدار سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔کھوتے گھوڑے کو ایک ہی کھونٹے پر باندھنے کی کوشش کرتے ہیں،بات یہاں کسی اور کی ہوتی سب زبانیں گنگ ہوجاتیں۔بات مولوی کی ہے اس ملک میں لفظ مولوی کو پتا نہیں کیا سمجھ لیا گیا ہے۔
مولانا پر تنقید مجھے ماضی میں لے گئی اور یونیورسٹی کہ دوستوں سے ملادیا۔

شکریہ نقادو!
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں میرا ہم جماعت،میرا دوست”مولوی“ پورے دو سال ہمارے ساتھ پڑھتا رہا،ٹائم پر کلاس آنا اور پڑھائی کے بعد واپس گھر نکل جانا اس کا معمول تھا۔سیشن کے آخر میں ہوا یہ کہ اس نے اپنی ہی ہم جماعت کو پھول اور تحفہ دے دیا اور ساتھ ہی ہمارے استاد کے ذریعے شادی کا پیغام بھی ۔مولوی کی یہ حرکت کرنی تھی کہ نام نہاد ماڈرن اس کے پیچھے پڑ گئے”اوئے مولوی تم بھی“ پھر ہوا یہ کہ مولوی نے یونیورسٹی چھوڑی اور پھر پیچھے مڑ کرنہ دیکھا۔

حالانکہ مولوی نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا غلاظت سے بھری دنیا میں مہذب طریقہ ہی تو اپنایا تھا۔ مولانا کی بنی گالا میں آمد او مخلوط محفل پر تنقید ” اوئے مولوی تم بھی“ کی روش سے ہٹ کر کچھ نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :