بیمار ہوئے جس کے سبب ۔۔۔

پیر 6 جولائی 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

سوہنی دھرتی میں ایسے ایسے گوہرِ نایاب پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کو ان کی پسندیدہ فضاء مہیا کی جائے اور کُھل کھیلنے کا موقع دِیا جائے تو یہ اسلامی جمہوریہ کو نجانے کِن بلندیوں پر پہنچادیں ۔ ایسے ہی ایک نایاب ہیرے کے بارے میں مملکتِ خداداد کے عوام ابھی تک نہیں جان پائے کہ جناب کی سیاست صحیح تھی یا صحافت درست ہے۔ محترم اکثر و بیشتر اپنے پسندیدہ مشروب کی یادوں میں کھوئے اور اداسی میں ڈوبے رہتے ہیں۔

آپکی یہ مشروبانہ اداسی آپکے ہر دوسرے کالم سے جھلکتی رہتی ہے ۔اس مشروب کی خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ گورے صاحبان چاہے پورا دن چڑھاتے رہیں ، ہوش و حواس سے بیگانہ نہیں ہوتے۔ مگر یہی مشروب جب کِسی دیسی براوٴن صاحب کے ہاتھ لگتا ہے تو ایک جام نوش فرماتے ہی حضرت حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور ” یبلیاں“ مارنے لگ جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

مزے کی بات یہ ہے کہ آپ کا خیال ہوتا ہے کہ قوم آپکی ”یبلیوں“ پر سر دھُن رہی ہے۔

عمر کے ایک مخصوص حِصّے میں پہنچے ہوئے ”چلے ہوئے کارتوسوں“ کو اپنی نا آسودہ خواہشوں کی تکمیل کے لئے اسلامی جمہوریہ کا انقلابی میڈیا ہمہ وقت دستیاب ہے۔ اخبارات کے اداراتی صفحات اور ٹی وی اسکرینیں ان ” نا شکرے“ بابوں کی مشق سخن کے لئے حاضر ہیں۔ ٹکٹ سے محروم رہ جانے والے اِس جرّی سپوت نے ”مضبوط قیادت “ کو آواز دی ہے۔

حضرت اپنی در فنظنی کے بارے میں اتنے پر اعتماد ہیں کہ مزید کسی بحث کی گنجائش ہی نہیں سمجھتے اور ”پیریڈ“ کہتے ہوئے ”فرشتوں“ کی تخلیق کردہ فضاوٴں میں کھو جاتے ہیں۔حضرت کے کنفیوژن کا اندازہ لگائیے کہ پاکستان کے لئے فوجی ڈکٹیٹر کو اکسیر سمجھتے ہوئے مثالیں دے رہے ہیں سنگاپور، ملائیشیا ، جنوبی کوریا اور ہانگ جیسے ملکوں اور علاقوں کی ۔

حضرت فرماتے ہیں کہ سنگاپور اور ملائیشیا جیسے ممالک نے لی کوان یو اور مہاتر محمد کے شخصی حکمرانی کے ماڈل کی وجہ سے ترقی کی۔ تاہم حضرت اس بات کو قطعی گھاس نہیں ڈالتے کہ مذکورہ دونوں صاحبان کِسی رجمنٹ کے کمانڈر نہیں تھے بلکہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ تھے اور عوام کے ووٹ لیکر منتخب ہوتے رہے ۔ اِس پاکستانی ”دانشور“ کو سنگاپور اور ملائیشیا کے دس دس باریاں لینے والے وزراء اعظم پر تو کوئی اعتراض نہیں مگر پاکستانی وزیر اعظم کو یہ پانچ سال دینے پر بھی تیار نہیں۔

آپ کے اِسی فارمولے پر پاکستان میں عمل کیا جائے تو پاکستان میں بھی منتخب وزیر اعظم کو شخصی حکمرانی کی مثالیں قائم کرتے ہوئے دس باریاں تو لینی چاہئیں۔ کیا فرمایا! پاکستان کے لیڈروں کو آپ کرپٹ گردانتے ہیں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم سیاست میں آنے سے پہلے بھی ایک بڑے بزنس مین تھے مگر آپ کے آئیڈیل ڈاکٹر مہاتر محمد قصبے میں چھوٹا سا کلینک چلاتے تھے ، بزنس سے آپ کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا ۔

سیاست میں آتے ہی مہاتر محمد ، ڈاکٹری تو بھول گئے مگر بزنس میں آپ کی مہارت کو چار چاند لگ گئے اور وزارتِ عظمیٰ کی بدولت آپ کے لے پالک بچوں سمیت ساتوں بچے ارب پتی اور کروڑ پتی بن گئے۔ مہاتر محمد کے ایک صاحبزادے وفاقی وزیر رہے اور ان دنوں کیداہ صوبے کے وزیر اعلی ہیں۔ مہاتر محمد حال ہی میں اپنے بیٹے کو ملائیشیا کا وزیر اعظم بنانے کے منصوبے کا آغاز کر چُکے ہیں۔

ادھر سنگاپور کے لی کوان یو بھی تقریباً پچاس سال اقتدار پر قابض رہے اور آپکے صاحبزادے ان دنوں سنگاپور کے وزیر اعظم ہیں جبکہ لی کوان یو کی باقی اولادیں اور قریبی رشتہ دار سنگاپور کے کلیدی حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔
فوجی ڈکٹیر کے لئے تڑپتے ہمارے یہ انگریزی میڈیم دانشور ماضی کے چارس ڈیگالوں کے کرتوتوں سے آگاہ ہیں، کہانی دہرانے کی ضرورت نہیں، مگر اس کے باوجود آپ کو جمہوریت ہضم نہیں ہورہی۔

کیا اس کی وجہ محترم کی اسمبلی سے دوری ہے یا آپ کو چار دہائیاں پہلے میسوں میں گونجتی ”چییرس“ کی گمشدہ صدائیں پریشان کرتی رہتی ہیں۔ اگر یہ حضرت میر# کی طرح سادہ ہوتے تو انکی خدمت میں اگلا مصرعہ عرض کرتے مگر یہ تو ”پکے پرونٹھے “ دانشور ہیں انکی خدمت میں کیا عرض کیا جائے۔
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
ضرب عضب سے پہلے کے پاکستان کا نقشہ کھینچتے ہوئے آپ نے اپنے کالم سے بھی بڑی ڈنڈی ماری ہے۔


فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیبِ داستاں کے لئے
ملک میں دہشت گردی کا خوف تو تھا مگر بفضلِ خدا زندگی رواں دواں تھی ۔ اسکول کالج، ہسپتال، مارکیٹیں، سرکاری ادارے ، بسیں، ٹرک، ٹرینیں، جہاز، شب براتیں، مجلسیں، رمضان، عیدیں،کرسمس، ہولی، دیوالی، یومِ آزادی،یوتھ فیسٹیول، جیت کے جشن، ہار پر غُصہ، ملین مارچ، دھرنے، جلسے، الیکشن، ضمنی الیکشن ، اسٹیج ڈرامے، اینکروں کی قلابازیاں، رمضان کی نشریات سب کچھ جاری و ساری تھا۔


کالم کی دم کے طور پر بغیر کسی معلومات کے ہوتے ہوئے حضرت نے پنجاب گورنمنٹ پر ریسکیو ۱۱۲۲ کے حوالے سے تبرہ ضروری سمجھا ، یہ جانے بغیر کے چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ابتدائی طور پر ایک اور پھر بارہ مراکز تک پھیلنے والی سروس جوکہ ایمبیولینس سروس کے طور پر شروع ہوئی تھی ، موجودہ پنجاب حکومت نے اسے پنجاب کے تمام چھتیس اضلاع اور بے شمار تحصیلوں میں پھیلادیا ہے،اب اس کے ستر سے زائد مراکز کام کر رہے ہیں اور یہ سروس بڑھ کر ہر قسم کی ایمر جنسی کے لئے ایک مکمل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ سروس بن چُکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :