رنج ہوا منتقل سینہ بہ سینہ مرا

جمعرات 2 جولائی 2015

Naveed Sadiq

نوید صادق

مولانا الطاف حسین حالی# مقدمہٴ دیوان میں لکھتے ہیں کہ ہمارے شعرا نے غزل کو ہر مضمون کے لیے عام کر دیا ہے۔ اور اب اس صنفِ سخن کو مجازاً ہی غزل کہا جاتا ہے۔ پس ہر قسم کے خیالات جو شاعر کے دل میں وقتاً فوقتاً پیدا ہوں، غزل میں بیان ہو سکتے ہیں۔ مولانا حالی# کی اس رائے کو غزل دشمنوں نے اپنے حق میں جانا اور خوب اچھالا، دوسری طرف غزل دوستوں نے فکری تنوع پر محمول کیا۔

مولانا حالی# کے سامنے غالب# وشیفتہ# کی غزل تھی لیکن اکبر الہ آبادی اور اقبال# نے اپنے اپنے جداگانہ رنگ میں غزل کو نہ صرف فکری بلکہ فنی حوالوں سے وسعت بخشی اور حالی کی بات کی مزید توثیق کر دی۔
ہمارے زمانہ تک آتے آتے غزل نے فکری و فنی اعتبار سے جو روپ بھرے ان کی تفصیل میں جانا اس لیے غیر متعلق محسوس ہو رہا ہے کہ ہم شاہد ماکلی پر بات کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

سو قصہ مختصر غزل گو شعراء روزمرہ زندگی سے لے کر معاملاتِ خاص تک کو غزل میں لے آئے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ عہدِ رواں میں پختگی کی جگہ محض فکری تازگی کو بنیاد بنا کر فنی تقاضوں کو کلیتاً پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ ہم فی الوقت اپنے اِس دعوی پر دلیل سے گریز کرتے ہوئے محض اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ غزل تجربات بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ شدید قسم کے بھدے تجربات کی نذر ہو گئی۔

بات محض تجربات کی کی جائے تو میر و غالب و اکبر و اقبال، فانی و اصغرو یگانہ، ندیم و فیض و فراز، ناصر کاظمی، احمد مشتاق، ظفر اقبال، سلیم احمد، خورشید رضوی، خالد احمد، نجیب احمد اور شاہین عباس کی شاعری تجربات کے اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز ولی# دکنی سے ہوا۔ جناب ظفر اقبال اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کا شمار دونوں دھڑوں میں ہوتا ہے۔

لیکن کیا ہوا کہ چند فن ناشناس اور راتوں رات شہرت کے بھوکوں نے غزل میں زبان کی ترقی اور تجربات کے نام پر زبان کی توڑ پھوڑ کا باقاعدہ وطیرہ اختیار کر لیا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ ان میں سے اکثر کی شہرت اور وقتی عزت کی دھند نے چھٹنے کے لیے ان کی موت کا انتظار بھی نہیں کیا۔ اور وہ جو روایت کو ساتھ لے کر چلے بلکہ اسے وسعت بخشی، کڑی سے کڑی ملاتے آگے بڑھے،انھوں نے روزافزوں ترقی پاتے انسانی مسائل اور نفسیاتی و مادی مظاہرکو نہ صرف بہ نظر غور دیکھا بلکہ معاشرے میں شاعر کے فرائض کی روشنی میں ان کا تجزیہ کیا ، اپنی تخلیقی فکر کو شعر کا روپ دیا،اتنا آگے نکل گئے کہ اس میدان کے بہروپیے ان کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔


شاہد ماکلی… ہمارے اوپر بیان کردہ شعرا کے سلسلے سے تعلق رکھتا ہے۔اس کا وسیع مطالعہ،روایت سے بھرپور آشنائی، حقائق کے تجزیہ اور ان کے بیان کا اندازاُسے کہیں راہ سے بھٹکنے نہیں دیتے۔شاہد ماکلی کی شاعری اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی موضوع شاعر اور شاعری کی گرفت سے باہر نہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے، جو چاہتا ہے… بہ آسانی کہہ جاتا ہے۔

اور وہ جو فی زمانہ اٹھتے بیٹھتے اردو زبان کی تنگ دامانی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے، اُن کو دعوتِ ہے کہ وہ ایک بار شاہد ماکلی کے مجموعہٴ کلام ”تناظر“ کا مطالعہ کریں، پھر بتائیں کہ ہماری زبان کس موضوع کے بیان پر قدرت نہیں رکھتی، غزل میں قافیہ و ردیف مطالب کی ادائیگی میں کہاں آڑے آتے ہیں؟ ہماری شاعری میں رائج بحور کس جگہ ہمارے ہاتھ باندھتی ہیں؟
تمام عمر دو بحور میں شاعری کرنے والے شاید ”تناظر“ کے مطالعہ کے دوران بعض غزلوں کے آہنگ سے گھبرا جائیں کہ شاہد نے چند مقبول عام بحور پر تکیہ نہیں کیا۔

اس کے ہاں مشکل اور کم مستعمل بحور خصوصاً لائقِ تحسین و توجہ ہیں۔ شاہد نے اپنے پیش رووں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غزل کو اپنے وقت سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔موضوعات کی بات کی جائے تو بقول شاہد ماکلی: چنی ہیں خوشبوئیں کل کائنات سے میں نے۔”تناظر“ سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
بنے گا کیا، جو توازن بگڑ گیا اس کا
کہ سارا بارِ امانت ہی خاک دان پہ ہے
خواص، جانیے، کیا تھے دل اور دنیا کے
میں خود جھلس گیا باہم انھیں ملاتا ہوا
میں کہیں اور جانا چاہتا ہوں
راستہ جا رہا ہے اور کہیں
یعنی ہوا ہی نہیں مجھ سے کسی کا گزر
وقت کی دیوار میں نام کا دروازہ ہوں
اب مجھے پہچاننا اور بھی آسان ہے
ان دنوں اک زخم ہے خاص نشانی مری
نشاں لگاتا چلوں راستے کے پیڑوں پر
کہ مجھ کواس گھنے جنگل سے لوٹنا بھی ہے
جس سے بھی تیرا پتہ پوچھتا ہوں
راہ آگے کی دکھاتا ہے مجھے
میں سر اُٹھا کے پہاڑوں سے بات کرتا ہوں
جو پستیوں کے فضائل ہیں، آپ کیا جانیں
ضرور میرا جھکاوٴ کئی طرف ہو گا
یونہی تو مجھ میں نہیں اتنے خم پڑے ہوئے ہیں
شاہد ماکلی کو اس کے مجموعہ کلام ”تناظر“ پر ۵ جون ۲۰۱۵ء کو خالد احمد ایوارڈ برائے شاعری ۲۰۱۴ء سے نوازا گیا۔

جس کا وہ بجا طور پر حق دار ہے۔ ہماری طرف سے شاہد ماکلی کو خالد احمد ایوارڈ مبارک ہو۔ لیکن اب اس پر لازم ہے کہ اس ایوارڈ کی لاج رکھے اور اپنا شعری سفر اسی آب و تاب سے جاری رکھے کہ ہماری لغت میں خالد احمد اور خالد احمد ایوارڈ کے یہی معانی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :