کیا ایم کیو ایم ایک ملک دشمن جماعت ہے؟

اتوار 28 جون 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

ہم کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ ڈکٹیٹر جرنل (ر)ضیا الحق نے ایم کیو ایم بنا کر تاریخی غلطی کی تھی۔ اگر بعد میں فوج اس غلطی کی تلافی کر دیتی تو بھی کچھ بات بنتی مگر مسلسل در گزر نے ایم کیو ایم کو اس پوزیشن میں پہنچا دیا کہ ایم کیو ایم اب فوج کے لیے ہی درد سر بنی ہوئی ہے۔ سندھ میں غوث علی شاہ صاحب کے دور حکومت میں ایم کیو ایم خوب پھلی پھولی۔

سندھ کے شہروں کی دیواروں پرچا کنگ کی جاتی اور انسانی تصویریں بنائی جاتیں اور ان کے نیچے لکھا جاتا لکھا جاتا” حقوق یا موت“۔ اس نعرے پر عمل کرنے کے لیے الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو سبق پڑھایا ،ٹی وی اور وی سی آر فروخت کر کے اسلحہ خریدو۔ الطاف حسین صاحب شروع سے ہی ایک سوچے سمجھے ایجنڈے پر عمل کر رہے تھے۔ الطاف حسین نے سب سے پہلے(مرحوم) جی ایم سیدصاحب سے دوستی کی۔

(جاری ہے)

جی ایم سید کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ وہ پاکستان کے وجود کے مخالف تھے۔ سندھو دیش کا قیام ان کی زندگی کا مشن تھا۔یہ جی ایم سید ہی تھے جس نے بھارت کی وزیر اعظم اندرہ گاندھی کو پاکستان پر حملے کی دعوت دی تھی۔ الطاف حسین جیّے سندھ کے پروگراموں میں شرکت کرتے اورجی ایم سید کی طرز سیاست کے مطابق پنجاب اور فوج کوتنقید کاکو نشانہ بناتے رہے۔

جی ایم سید ہی نے ایک سازش کے ذریعے الطاف حسین کو یہ نعرہ رٹایا تھا کہ سندھی مہاجر بھائی بھائی، نسوار اور دھوتی کہاں سے آئی۔اس نعرے کو سندھ میں خوب پھیلایا گیا۔ اندرون سندھ بسوں میں مسافروں کے نیشنل آئی ڈینٹی کارڈ چیک کیے جاتے اور پو چھا جاتاکہ تم کون ہو۔اگر مسافر پنجابی یا پٹھان ہوتا تو ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور بعض دفعہ قتل تک کر دیا جاتا۔

کراچی میں اس پر کچھ زیادہ ہی عمل کیا گیا۔الطاف حسین کراچی سے حیدر آباد جلوس کی شکل میں جا رہے تھے کہ جلوس پر سہراب گوٹھ سے فائرنگ کرائی گئی۔ مہاجر آبادی علیگھڑ میں فسادات کرائے گئے۔ حیدر آباد میں قوم پرست سندھیوں دہشت گردوں سے فائرنگ کروا کے ۳۰۰بے گناہ مہاجروں کو شہید کروا دیا گیا۔ دوسری صبح کراچی میں ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جانے والے بے گناہ سندھیوں کی بس پر حملہ کر کے ۵۰ مچھیروں کو شہید کر دیا۔

کراچی میں اس کے رد عمل میں پیپلز پارٹی کے ملک غلام سرور اعوان نے پنجابی پٹھان اتحاد کی بنیاد رکھی۔ مہاجر اورپٹھان بستیوں پر دہشت گردوں نے حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ مہاجر بستیوں سے مساجد کے لاؤڈاسپیکروں سے اعلان کیا گیا کہ پٹھانوں نے حملہ کر دیا ہے۔ ایسا ہی پٹھان بستیوں سے سے اعلانات کئے گئے کہ مہاجروں نے حملہ کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کے مکانات جلائے گئے۔

کیا اُس وقت غوث علی شاہ کی حکومت اور مقتدر حلقوں نے ایم کیو ایم کیخلاف بدامنی پھیلانے پر کوئی کاروائی کی؟قطعاً نہیں کی۔الطاف حسین کا اس سے دل نہیں بھرا تو اُس کے بعد حکومتِ وقت ،پیپلز پارٹی سے لڑائی شروع کی۔ایک دوسرے کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لوگوں کے گھٹنوں پرڈرل مشینیں چلائی گئیں۔ اُس وقت کے کراچی کے کور کمانڈر نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ساٹھ ساٹھ کارکنوں کو ایک دوسرے کی نجی جیلوں سے نجات دلائی۔

پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے کچھ مدت ایم کیو ایم پر سختی کی تو کراچی کے حالات کچھ سنبھل گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی چیئر مین (مرحوم) بے نظیر بھٹو صاحبہ نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم نے منی بغاوت شروع کر رکھی ہے۔لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ایم کیو ایم کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی۔نوازشریف صاحب کی حکومت بنی ایم کیو ایم نے اپنی پر تشدد کاوائیاں جاری رکھیں۔

اس دور میں فوج نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا کچھ مجرموں کو پکڑا لیکن یہ بھی ادھورہ رہ گیا۔اس دوران جس جس پولیس کے فرد نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا بعد میں ایک ایک کو ایم کیو ایم نے قتل کر دیا۔بقول راؤ انوار صاحب پولیس آفیسر کہ صرف میں ابھی تک بچا ہوا ہوں۔ راؤ انوار پر بھی حال ہی میں دو قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ جس اخبار نے ایم کیو ایم کے من مرضی کے تیار کردہ خبر نامے کو اپنی اخبار میں نہیں چھاپا اس اخبار کی اشاعت روکی گئی۔

اسکے دفاتر پر حملے کئے گئے۔ان کے عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ کو قتل کر دیا اور باقیوں کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ پورے الیکٹرونک میڈیا کو یرغمال بنا لیا گیا۔الیکٹرونک میڈیاالطاف حسین کی اللی تللی تقریروں کوکئی کئی گھنٹے نشر کرنے پر مجبور تھا۔ فوج کے خلاف اور را سے مدد مانگنے کی تقریر کے بعد الیکٹرونک میڈیا پر الطاف حسین کی تقریروں کا سلسلہ بند ہوا۔

جس نے حق کی بات کی اسے قتل کر دیا گیا جیسے جیو ٹی وی کے ولی خان بابر اور نہ جانے کتنے لوگوں کو شہید کر دیا گیا۔ اپنے ایک صوبائی ممبر کے قتل کا بدلہ کراچی کے ۱۰۰ بے گناہ پٹھانوں کو قتل کر کے لیا۔ کراچی میں۱۰۰ سے زائد ہڑتالیں کروائیں۔ جب کشمیری کشمیر میں ظلم کے خلاف ہڑتال کرتے دوسرے دن ایم کیو ایم کراچی میں ہڑتال کردیتی۔کیا لا اینڈ والوں نے اسے نوٹ نہیں کیا کیا اس کے پیچھے کیا پیغام ہے؟ سب سے پہلے ایم کیو ایم نے بھتے کا رواج ڈالا۔

جس فیکٹری مالک نے بھتہ نہیں دیا اسکو اسکے ۲۴۸ مزدوروں کے ساتھ گن پوؤڈر ڈال کر جلا دیا گیا۔۱۲/ مئی کو کراچی شہر کو یرغمال بنا کر کئی سیاسی کارکنوں کو شہید کر دیا۔ جس کورٹ میں مقدمہ درج ہوا اُس کو گھیرے میں لے لیا گیا اور کاروائی نہ ہونے دی۔ کراچی جو پاکستان کو ۷۰ فی صد ریونیو دیتا ہے کی معیشت تباہ کر کے رکھ دی۔روشنیوں کے شہر کو تباہ برباد کر دیا گیا۔

لوگ سرمایا بیرون ملک لے گئے۔ امت اخبا ر اور تکبیر رسالے کے مالک سید صلا ح الدین کا گھر جلا دیا۔ شہر بدر کیا گیا۔ وہ ہمت کر کے واپس آیا تو اس کوپھر شہید کر دیا گیا۔ اُس کاقصور یہ تھا کہ وہ قومیت اور لسانیت کے خلاف تھا۔ تکبیر رسالے میں ایم کیو ایم کے عزاہم کو عوام کے سامنے رکھتا تھا۔ وہ اُس وقت بھی بتاتا تھا کہ کہاں کہاں سے ایم کیو ایم کے پاس اسلحہ آ رہا ہے اور کسطرح ایم کیو ایم والے اسے وصول کر رہے ہیں۔

کس طرح ایم کیو ایم کے کارکن بھارت میں ٹریننگ لینے جاتے ہیں۔اس وقت کے تکبیر رسالوں میں یہ ساری تفصیل موجود ہے۔عوام شہیدصلاح الدین سے کہتے تھے کہ آپ یہ سب کچھ عوام کو بتا رہیں تو حکومت ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتی اس کا جواب سید صلاح الدین کے پاس نہیں تھااوروقت کی حکومت کو سب کچھ معلوم ہونے پر بھی کوئی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟ایم کیو ایم نے پورے سندھ اور خاص کر کراچی اور حیدر آباد میں خوف پھیلا کر ووٹرز کواپنے کنٹرول میں کر لیا۔

اپنے مطلب کی ووٹر لسٹیں بنائی اور حلقہ بندیاں کی گئیں۔ہر الیکشن میں ٹھپے لگائے گئے۔پیپلز پارٹی کے ذوالفقارمرزا صاحب کے انکشافات تو پوری قوم کے سامنے ہیں۔کیا ایم کیو ایم کابرطانیہ کے وزیر اعظم کو خط کہ آئی ایس آئی کو کو ختم کرنے میں ایم کیو ایم مدد کرے گی پر کسی نے ایکشن لہا؟ کراچی کے انگلش اخبار ڈان نے وکی لیک کے حوالے سے خبر لگائی تھی کہ ایم کیو ایم کے ۳۵۰۰۰ ہزار مسلح کارکن ہر وقت کسی بھی کاروائی کے لیے تیار رہتے ہیں۔

الطاف حسین نے پاکستان کا جھنڈا جلایا۔بھارت کے اند رتقریر کی کہ برصغیر کی تقسیم ایک تاریخی غلطی تھی کیا پاکستان کی نفی نہیں؟ کیا اس کو کوئی کاروائی کی گئی۔ عوام دریافت کرتے ہے کہ کیا یہ اوپر جو واقعات بیان کئے گئے ہیں یہ کون انجام دیتے رہے ہیں؟ اب بی بی سی نے بھی سب کچھ بیان کر دیا ہے کہ ۱۰ سال سے ایم کیو ایم کے کارکن بھارت جا کر دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے رہے۔

بھارت سے فنڈ وصول کرتے رہے۔ اس کے بعد کیا رہ گیا ہے جو قوم کے سامنے بیان کیا جائے۔کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن نے بھی تو سب کچھ سامنے رکھ دیا ہے۔ راؤ انوار صاحب نے نے بھی را سے ٹریننگ لینے والے ایم کیو ایم کے کارکن عوام کے سامنے پیش کر دیے۔ عوام خود ہی رائے قائم کر سکتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کی غدار ہے کہ نہیں؟ حکمرانوں ہوش کے ناخن لو؟ بنگلہ دیش کے واقعہ کو سامنے رکھو۔ اب بھی ایم کیو ایم کے خلاف انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے قانونی کاروائی نہ کی گئی تو کب کی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :