کراچی گرمی، ہلاکتیں اور علاج

اتوار 28 جون 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

سائبریا ،روس اور دیگر یورپی ممالک میں جس قدر شدید برف باری اور درجہ حرات بعض اوقات نقطہ انجماد سے بھی کافی کم رہتا یا چلا جاتا ہے اگر ایسا پاکستان میں ہوتا تو یہاں جس طرح کراچی میں لوگوں کی گرمی کی نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں ہیں اسی طرح شدید سردی سے بھی ہو سکتی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوتا ورنہ ہمارئے حکمرانوں اور اداروں کی نااہلی، غفلت اور لاپرواہی سے عام شہریوں کا جینا دوبر ہو چکا ہوتا۔

امریکہ میں چندمہنیے پہلے شدید برف باری ہوئی جان کیری اپنے گھر کے آگے سے برف صاف کرانے کی غفلت کے ملزم قرار پائے اور انہیں اس غفلت کا جرمانہ ادا کرنا پڑا حالانکہ وہ اس وقت امریکن صدر کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ قوموں اور ہجوم میں یہی فرق ہوتا ہے ہمارے ہاں ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کسی حکمران یا سرکاری اہلکار کو اس کی غفلت اور کوتاہی کے نتیجے میں کوئی چھوٹی موٹی سزا بھی دی جاسکے۔

(جاری ہے)

احتساب صرف پیسہ ہڑپ کرنے والوں کا ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی ڈیوٹی کو احسن اور ایماندارنہ طریقے سے سر انجام نہ دینے والوں کا بھی کڑا احتساب ہونا چاہیے تب ہی جا کر یہ ملک ٹھیک ہو گا ورنہ ہزاروں کے حساب سے ضائع ہونے والی انسانی جانیں چلے جانے کے باوجود یہاں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔
پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں نے عوام سے لاتعلق رہنے کی قسم کھا رکھی ہے جب ان کے ذاتی مفاد پر زد پڑتی ہو تو اکٹھے ہوجاتے ہیں اور شور ڈالنا شروع ہوجاتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن عوام مرتی رہے انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی اگر دیکھا جائے تو حکومت اور اپوزیشن دونوں آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں آئیں یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام شہری مساوی حقوق کے حق دار ہیں ، صحت تعلیم ، امن و امن کی ساتھ ان کی جان و مال کی حفاطت کی ذمہ دار حکومت ہو گی لیکن کیا ایسا ہو رہا ہے جواب ملے گا نہیں۔

تو پھر کیا اس کو جمہوریت کہا جاسکتا ہے ؟۔
کراچی میں گزشتہ چند دنوں سے جو کچھ کراچی کے شہریوں پر بیت رہی ہے اسے دیکھنے کے بعد لگتا نہیں کہ یہ کسی مہذب ملک میں ہورہا ہے جہاں ایک طرف تو لوگ عیش و نشاط کے مزے لے رہے ہیں تو دوسری جانب مرنے والوں کو قبر اور کفن تک نصیب نہیں ہورہے ۔گرمی کی شدت میں اضافہ کیا ہوا کراچی کے شہری دیمک لگی لکڑی کی طرح زمین پر گر گر کر مرنے لگے اس سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے انہیں صرف سانس لینے اور ووٹ ڈالنے کے قابل ہی رہنے دیا ہے۔

زمینی و آسمانی آفتوں ، سختیوں ،بیماریوں سے مدافت کے لئے جتنی جان اور انرجی ہونی چاہیے تھی کراچی کے شہری اس سے محروم ہیں ، غربت بے، روزگاری، مناسب خوراک کی کمی نے انہیں اس حالت تک پہنچا دیا کہ وہ گرمی کی شدت کو بھی برداشت نہ کر سکے اس پر ظلم عظیم کہ وہاں بجلی بھی میسر نہیں ،بتایا جاتا ہے کہ آٹھ آٹھ گھنٹے دورانیے کی لوڈشیڈنگ نے کراچی کے شہریوں کا برا حال کر کے رکھ دیا اور جب بجلی آتی ہے تو اس کے ولٹیج اتنے کم ہوتے ہیں جس سے ان کی گھریلو الیکٹرونکس کی اشیاء جل جاتی ہیں کوئی گھر ایسا ہو گا جہاں فریج نہیں جلے ہوں گے جبکہ شہر بھر میں برف ڈھونڈے نہیں ملتی۔


شہرِ کراچی میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق گرمی سے سے دوہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں ہزاروں افراد اب بھی سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ 2 کروڑ کے شہر میں مردہ خانے بھر چکے ہیں، جبکہ قبریں کھودنے والے کم پڑ گئے ہیں۔ گو کہ اب بحیرہء عرب سے اٹھنے والی مون سون کی ٹھنڈی ہواوٴں نے گرمی کی شدت کو کم کر دیا ہے، لیکن ماہرِ آب و ہوا قمر الزمان چوہدری کے مطابق یہ شدید گرمی isl and effect heat urbanکی وجہ سے تھی، جس میں درجہ حرارت ہوتا تو 45 ڈگری ہے، لیکن محسوس 50 ڈگری ہوتا ہے، کیونکہ شہر میں پھنس چکی گرم ہوا باہر نہیں نکل پاتی۔

ان کے مطابق "شہر ایک بھٹی کی طرح ہے، جو گرمی کو روک لیتا ہے، اور اسے باہر نکلنے نہیں دیتا۔" ان کے مطابق یہی درجہ حرارت، بلکہ اس سے بھی زیادہ سندھ کے دوسرے شہروں سے بھی رپورٹ ہوا ہے، لیکن اس نے لوگوں کی جانیں اس طرح نہیں لیں جس طرح کراچی میں، کیونکہ وہاں پر گرم ہوا کے پھیلنے اور باہر نکلنے کے لیے جگہ موجود ہے۔
یوں تو اس سے پہلے بھی کراچی میں گرمی کی لہر دیکھی گئی ہے، لیکن یہ زیادہ سے زیادہ دو دن برقرار رہتی ہیں، جبکہ اس دفعہ یہ پانچ سے چھ دن برقرار رہی۔

ماحولیات اور شہری منصوبہ بندی کے ماہر ین کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عمارات کے ڈیزائنز اور ان میں استعمال ہونے والے مٹیریل پر دوبارہ غور کیا جائے۔"اونچی عمارتوں نے ہوا کے قدرتی راستے روک دیے ہیں، جبکہ ٹریفک کی گرمی نے بھی مسئلے کی شدت میں اضافہ کیا ہے ۔درخت لگانے سے اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ وہ درختوں کو شہر کے پھیپھڑے قرار دیا جاتا ہے اور درخت قدرتی ایئر کنڈیشنر ہوتے ہیں، جب پتوں سے آبی بخارات خارج ہوتے ہیں، تو ان سے ماحول ٹھنڈا ہوتا ہے۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کو نیم کے درختوں کی ضرورت ہے، جو اس سخت آب و ہوا کو جھیل سکیں جس نے 1980 کی دہائی کے بعد سے کراچی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ درخت لگانے کا بہترین وقت مون سون کا شجرکاری موسم ہوگا جو اگلے ماہ شروع ہورہا ہے، اور 15 جولائی سے 15 ستمبر تک جاری رہے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے ساتھ صحت عامہ کی صورت حال کو بہتر ، شہریوں کو مناسب خوراک اور غذا فراہم کرنے کا بندوبست کرنا چاہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پا کر بھی گرمی کی شدت میں کمی لائی جاسکتی دو ہزار سے زائد انسانی جانوں کا ضیاع کوئی چھوٹی بات نہیں ہے حکومت کو عقل کے ناخن لینے چاہیے اور عوامی مسائل کے حل کو اولین ترجیح دینی چاہے۔

ایک انسان کی جان صرف ایک کی نہیں ہوتی وہ کسی کنبے کا سربراہ ہوتا ہے اس کی ہلاکت سے اس غیر انسانی معاشرے میں کنبہ ہی مر جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :