زِندگی

بدھ 24 جون 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

زندگی اللہ کی طرف سے عطاء کی گئی بہت بڑی نعمت ہے۔ زندگی ہرساعت اورمنٹ گزرتی ہے۔خوش نصیب ہے وہ انسان جسے عمردراز عطاء کی گئی اور اس عرصہ کے دوران اُس نے اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں کی طویل فہرست مرتب کرلی۔ زندگی کی کامیابی اور ناکامی کاانحصارانسان کے بدن سے نکلنے والے اعمال پر ہے۔ انسان اپنی زندگی کے مقصد میں کس حد تک کامیاب رہا اس بات کا اندازہ اور یقین تو روزِ محشر کو ہوگا ،جس روز ساری انسانیت کے سامنے نامہ اعمال تقسیم کئے جائیں گے۔

جس نے دُنیا میں رب چاہی زندگی گزاری ، اُسے دائیں ہاتھ میں کامیابی کا پروانہ عطاء کیاجایا گا، جسے وہ خوشی خوشی ہر کسی کو دکھاتا پھرے گا کہ میں کامیاب ہوگیا، یہ ایسی کامیابی ہوگی جس کے بعد کبھی نامرادی اورناکامامی کا ڈر یا خوف نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)

یہ انسان ہمیشہ کے لئے اللہ کی عطاء کی گئی نعمتوں سے مستفید ہوگا۔ دوسری صورت یعنی من چاہی زندگی گزارنے کی صورت میں اعمال نامہ پیٹھ پیچھے سے بائیں ہاتھ میں تھمادیا جائے گا۔

جس پر انسان کواس قدر افسوس ہوگا کہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے چبانا شروع کرے گا اورکہنیوں تک سار ابازوچباجائے گا ،مگر رنج وفکراورافسوس کی شدت میں اُسے احساس تک نہیں ہوگا۔لہٰذایہ آدمی ہمیشہ کے لئے خسارے میں ہوگا۔
کیا اللہ عزوجل نے انسان کو صرف زندگی عطاء کردی اور اسے دُنیا میں مکمل آزادی دے دی کہ جاؤ عیش کرو،جس پرچاہوظلم وستم روا رکھو، جتنا اورجس طرح چاہومال سمیٹو، جیسے چاہو زندگی گزارو؟ زندگی وقت گزاری کا نام نہیں بلکہ بہترین طریقہ سے اپنے خالق کی رضاکے مطابق دن رات کے اعمال سرانجام دینے کا نام زندگی ہے۔

اللہ عزوجل نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو انسانیت کی راہنمائی اور ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا ۔جنہوں نے اپنے رب کے احکامات انسانوں تک پہنچائے اورخود بھی ان احکامات پر حرف بہ حرف عمل کرکے دکھایا۔ سب سے آخر میں سردار الانبیاء حضرت محمدمصطفی ﷺ تشریف لائے۔ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ آپ کی حیات مبارکہ قیامت تک ہر انسان کے لئے بہترین نمونہ ہے۔

آپ کے مبارک طریقہ پر عمل کرنے سے ہی دوجہاں میں کامیابی ہے۔
انسان جلد باز واقع ہوا ہے۔ جب اِسے تکلیف پہنچتی ہے توآہ وزاری اورمایوسی کی انتہاء کو پہنچ جاتا ہے۔ پھر اُسے چاہے کوئی بھی دلیل دی جائے وہ جھٹلائے گا،وہ کسی بھی اُمید افزا بات کو خاطر میں نہیں لائے گا۔پھر جب وقت کروٹ بدلتا ہے اور اُسے ہرقسم کی پریشانی سے چھٹکارا ملتا ہے، مصائب اورتنگدستی کی بجائے فراغی ملتی ہے۔

تو وہی شخص گزشتہ احوال کو ایسے بھول جاتا ہے کہ جیسے اس پر کبھی تنگی اورپریشانی آئی ہی نہیں تھی۔وقت کی کروٹ کوسمجھتاہے کہ اب ہمیشہ اسی حال میں رہے گا۔ اب اسے زندگی میں کبھی ناگوار حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔پھر وہ اسی سوچ اور زعم میں دوسروں پر ظلم بھی روا رکھتا ہے۔ اُن کے حقوق بھی غصب کرتاہے۔ اس دوران اُسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ جوکچھ ظلم اورناانصافی وہ کررہا ہے یہ فطرت کے اصول کے خلاف ہے، فطرت کا اصول اٹل ہے۔

فطرت کسی سے سودے بازی ہرگزنہیں کرتی ۔
جہاں نہتے شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا ہو۔جہاں غریب،مظلوم کے لئے انصاف ناپید ہوجائے ۔ ایسا معاشرہ جہاں بُرائی پر فخرکیا جاتا ہو، جھوٹ بولنے والے کو عقلمند،دھوکہ باز کو ہوشیار اور چالاک سمجھا جاتا ہو۔جہاں مردہ مرغیوں وجانوروں،گدھوں اورکتوں کا گوشت فروخت کیا جاتا ہو، تیزاب ملاادرک،مردہ جانوروں کی آنتڑیوں سے کوکنگ آئل بنانے کا کاروبار سرعام ہو،دودھ میں گندلے ،جراثیم زدہ،غلیظ اوربدبودار پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہو،کیمیکل زدہ لہسن زہریلے مشروبات،سرخ اینٹوں کو پیس کر مرچوں میں ملایا جاتا ہو،بچوں کی ٹافی سے لے کر انتہائی نگہداشت ( I.C.U.)کے شعبہ میں پڑے زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا مریض تک کے لئے جعلی ادویات دی جاتی ہوں، جہاں سرے سے انسان کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو ،امیروغریب ،خاص و عام،وزیراورفقیر کے لئے قانون پر عملدرآمداور انصاف کا طریقہ کار مختلف ہو ایسے معاشرہ میں زندگی کا مقصد کیونکر سمجھ میں آئے۔


انسان پوری زندگی میں تین چیزوں کے حصول کی خواہش رکھتا ہے اور اسی کے لئے دوڑدھوپ کرتا ہے۔ میرا نام اُونچا ہوجائے،میرا لباس اچھا ہو،میرامکان خوبصورت ہو مگر مرنے کے بعدتوسب سے پہلے یہی تین چیزیں انسان سے چھین لی جاتی ہیں،نام کی بجائے لاش،مردہ اور مرحوم، لباس کی بجائے کفن اورمکان کی بجائے قبر۔ مگر ہم نے پھر بھی غرور ،تکبر اوراللہ کی نافرمانی کو ترک نہیں کیا۔

اس عارضی دُنیا کے لئے تو ہم حریص اورجلدباز ثابت ہوئے ہیں، مگرزندگی کے اصل مقصد اورآخرت کے معاملہ میں انتہائی غافل۔آج ہمیں دُنیا کی حرص و لالچ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم نے زندگی کا مقصد مال ومتاع اکھٹا کرنا سمجھ لیا۔ابن الرومی کہتاہے "حرص نے آدمی کی بدبختی کا سامان کردیاہے، حرص ہے ہی بدبختی کاذریعہء"۔
اسٹیفن لیکوک نے لکھا :"بچہ کہتا ہے:جب میں نوخیز ہوں گا،نوخیز کہتاہے، جب میں جوان ہوں گا توشادی کروں گا۔

لیکن شادی کے بعد پھر کیا؟ اوران سارے مرحلوں کے بعدکیا؟ اب بات یوں ہوگی کہ جب میں ریٹائرڈ ہوجاؤں گا۔ اب وہ پیچھے دیکھتاہے اسے شدید آندھیاں جھلساتی ہیں۔جوزندگی گزرگئی وہ اسے کھو چکا۔جب وقت گزرجاتا ہے تبھی ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی ہرساعت اورمنٹ گزرتی ہے"
یہی حال ہم دُنیاداروں کاہے ،جوتوبہ کرنے میں ساری زندگی ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔پھراچانک پتہ چلتاہے کہ ہمارے پاس توکچھ بچاہی نہیں، ساری زندگی یونہی رائیگاں گئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :