بھارت کا’’ کاؤ بوائے پلان“ اور بلوچستان

بدھ 24 جون 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

مدت کے بعد بلوچستان سے ایک مثبت خبر آئی ہے کہ کالعدم تنظیم بی ایل ایف اور لشکر بلوچستان کے کمانڈروں دین محمد جان اور کمانڈر عبید اللہ نے اپنے 57ساتھیوں سمیت سرنڈر کر کے قومی دھارے میں شامل ہونے کا علان کیا ہے ۔بلاشبہ یہ ایک حوصلہ افزا خبرہے تاہم یہ بھی مان لیجئے کہ مرکزی حکومت نے بلوچستان کے معاملے میں اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی سے کام لیا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی حکومت سنجیدگی اختیار کر تے ہوئے مسئلے کے پائیدار حل کیلئے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرتی ۔

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ عسکری اداروں کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے آگے بڑھ کر کہیں زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ وفاقی حکومت نے ایک طویل عرصہ بلوچستان کے مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی ۔

(جاری ہے)

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے برسر اقتدار آتے ہی بلوچوں سے معافی طلب کی تھی اور انہیں پہاڑوں سے نیچے آنے کا مشورہ دیا تھا مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ ثابت ہو گیا کہ جناب آصف علی زرداری کی معافی اور پہاڑوں سے نیچے آنے کی پیشکش محض سیاسی نعرہ زنی تھی ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں بلوچوں کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب نہیں کر سکی ۔ ہماری سکیورٹی فورسز اور سول حکومت کو اس ادراک کے حصول کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے دونوں صوبوں ،بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں1971کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ 1971 میں مکتی باہنی تھی اور اب بی ایل اے اور دیگر بے شمار عسکریت پسند جماعتیں ہیں جو پاکستانی فورسز کے خلاف نبرد آزما ہیں ۔

مکتی باہنی کی طرح ان تنظیموں کو بھی بھارت، امریکہ ،روس اور دیگر پاکستان مخالف قوتوں کا تعاون حاصل ہے۔بلوچستان اور کے پی کے میں یہ تنظیمیں انڈین اسٹیبلشمنٹ کے بدنام زمانہ منصوبے ’ کاؤ پلان‘ پر عمل پیرا ہیں جس کے مطابق انڈیا پاکستان کو مشرقی پاکستان سے بے دخل کرکے وہاں بنگلہ دیش قائم کر چکا ہے ۔ اب انڈیا بلوچستان اور کے پی کے کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش پر عمل کر رہا ہے جس کی اس نے کئی سال پہلے منصوبہ بندی کی تھی ۔

اس مقصد کے لیے وہ خفیہ کارروائیاں اور کھلے عام سازشوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کا دہشت گردوں کی مدد کرنے کا دوسرامقصد پاکستان افواج کو کمزور اور بدنام کرنا ہے ۔ کاؤ بوائز کا منصوبہ اب کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں رہی۔ اس کے بڑے مقاصد میں پاکستان کو توڑنا شامل ہے۔ اس منصوبے کے پہلے حصے پر آزاد ریاستوں کو پاکستان سے الگ کرکے عمل کیا گیا،دوسرے حصے کے مطابق مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر پورا کیا گیا۔

اب اس منصوبے کے تیسرے حصے پر عمل کیا جارہا ہے۔
1960کی دہائی کے آخری سالوں میں جب اندرا گاندھی انڈیا کی وزیراعظم بنی تو اس کی بنیادی ترجیحات میں ہندوستان کی تقسیم کوختم کرنا تھا جس کے سبب ایک نئی ریاست پاکستان وجودمیں آئی تھی۔ مذکورہ بالا منحوس اور بدنام زمانہ منصوبے ’ کاؤ پلان‘ کا معمار بھارتی خفیہ ایجنسی را ( قائم 1969 ) کا پہلا چیف ( 1969تا1977 ) اورمشہور جاسوس رامیشور ناتھ کاؤ تھا۔

رامیش انڈیا کے پرانے انٹیلی جنس افسروں میں سے ایک تھا اور نہرو خاندان کی طرح وہ بھی کشمیر سے انڈیا آیا ہوا تھا۔ اس نے ہی ’ را‘ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھاجس کے اندوہناک کارناموں اور منصوبوں کی تفصیلات ’ daily mail,s research میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان تفصیلات میں واضح اشارے ملتے ہیں کہ جب اندرا گاندھی نے نئی دہلی میں وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالا تو اسنے انڈین انٹیلیجنس کو حکم دیا کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی جامع منصوبہ بندی کرے، اسے ایک ناکام ریاست میں تبدیل کر دے اور دوقومی نظریہ جو تخلیق پاکستان کا جواز بنا اس کو باطل قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔

240صفحات پر مشتمل یہ منصوبہ جو ابھی تک ” دی کاؤ پلان“ کے نام سے انڈیا میں مخفی طور پر موجود ہے ، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے اس کے تین آپریشنل مراحل طے کیے گئے۔ اور خدا ناخواستہ پاکستان کو ختم کرنے کے لیے انڈین حکام نے اس کا نام ’سہہ جہتی حکمت عملی ‘ رکھا ۔ اس کے پہلے مرحلے کا نام ’ کاؤ بنگلہ پلان‘ رکھا گیاجو صرف بنگلہ دیش میں مداخلت کر کے اسے پاکستان سے الگ کرکے ایک نئی ریاست بنانے کے لیے مخصوص کیا گیا۔

اس منصوبے کا دوسرا نام ’ کاؤ کا بلوچستان ‘رکھا گیا جس کی تشکیل کا مقصد بلوچستان میں بھی بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا کر نا تھا۔ جبکہ تیسرے مرحلے میں خیبر پختون خواہ میں جس میں تخریب کاری کے لیے ایک تحریک کو پیدا کرنا اور پھر اسے پاکستان سے الگ کرنا شامل تھا ۔حقائق بتاتے ہیں کہ سونیا گاندھی نے 2004..2005 میں جب پاکستان ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا تھاتو را کے کاؤ پلان کو پاکستان میں جاری کر دیا ۔

یاد رہے کہ اس دوران پاکستان کے افغانستان حکومت کے ساتھ تعلقات درست نہ تھے۔بھارتی مداخلت کے ایک سال بعد بلوچستان میں بہت کچھ خوفناک حد تک تبدیل ہو گیا۔ کاؤ پلان کے ذریعے اکبر بگٹی اور اس جیسی سوچ رکھنے والے دیگر قبائلی سرداروں کو وفاقی حکومت سے بدظن کر دیا گیا،بلوچ سردار صوبے میں علیحدگی کی تحریک چلانے کے لیے بھارتی ایجنسی کے سامنے سر نگوں ہو گئے۔

یہی نہیں بلکہ ایک نئی آزاد ریاست کا نام ’ اسلامی امارات آف بلوچستان ‘ رکھ دیا گیا ۔ بعض خبروں کے مطابق اس نئی ریاست کا قیام اسرائیل میں عمل میں آیا۔ اس منصوبے اور بنگلہ دیش کے منصوبے میں چند ایک چیزوں کا فرق تھا۔بنیادی طور پر یہ ایک جیسے منصوبے ہی تھے ۔ مثلاً مطلوبہ علاقے کے عوام میں ملک کے دوسرے حصے کے لوگوں کے متعلق نفرت اور محرومی کا زہر پھیلانا ،یہاں پر بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا۔

بھارت بلوچستان میں را کے کاؤ پلان کا آغازکر چکا ہے جسے انڈین اور مغربی ادارے ” را کا بلوچستان کے لیے کاؤ پلان “ کا نام دیتے ہیں ۔ ایک سٹڈی میں اسے 1971کا کھیل ہی کہا گیا ہے صرف کھیل کے چند اصول اور کھلاڑی تبدیل ہوئے ہیں ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ بی ایل ایف اور لشکر بلوچستان کے کمانڈروں نے سرنڈر کر کے اور قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کر کے بھارتی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان دیگر ناراض بلوچ رہنماؤں کو بھی قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے ۔ اگر بھارت اتنے فاصلے پر بیٹھ کر بلوچستان میں ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہوئے ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو راہ راست پر لانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :