”یس ،یو ڈونٹ ،وی ڈو“

پیر 22 جون 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ واقعہ ایک ہفتہ پہلے مجھے میرے ایک سینئر نے سنایا تھا ۔ان کا بھتیجا ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے ،ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی ہے ،یہ دو سو دس ایکڑرقبے پر مشتمل ہے ۔دنیا میں نوبل پرائز لینے والوں میں سے 75افراد اس یونیورسٹی سے وابستہ رہے ہیں ،اس کے فنڈز کی رقم تقریبا 27بلین ڈالر ہے ،امریکہ کے آٹھ سابق صدر یہاں سے فارغ التحصیل ہیں ،دنیا کے 62ارب پتی افراد یہاں زیر تعلیم رہے اور 13سال تک دنیا کا امیر ترین رہنے والا شخص بل گیٹس بھی اسی یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ تھا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کا سارا کریڈٹ جان ہارورڈ کو جاتا ہے ۔ جان ہارورڈبرٹش انگریزتھا ،وہ لندن کے مضافات میں ڈریائے ٹیمز کے کنارے ایک گاوٴں میں پیدا ہوا۔اس کے والد کا نام رابرٹ ہارورڈ تھا اور وہ ایک چھوٹی سی سرائے کا مالک تھا ۔

(جاری ہے)

1625میں ساوٴتھ واک میں طاعون کی وبا پھیلی تو اس کا والد وبا کا پہلا شکار تھا ۔1636میں جا ن نے سیڈلز نامی لڑکی سے شادی کر لی، 1637میں جان ہاورڈ اور اس کی بیوی برطانیہ چھوڑ کر امریکہ چلے آئے اور یہاں انہوں نے کیمبرج میں دریائے چارلس کے کنارے رہائش اختیار کر لی۔

امریکہ کی دریافت کے بعد جب برطانویوں نے امریکہ میں آباد ہو نا شروع کیا تو میسا چوسٹس ان کی پہلی آماجگاہ اور بوسٹن اورکیمبرج ان کا پہلا گھر ہو اکرتے تھے ،برٹش عوام نے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیئے کیمبرج میں ایک چرچ قائم کیا اور 1636میں میسا چوسٹس انتظامیہ نے اس چرچ کو کالج ڈکلیئر کر دیا۔ 1638میں جا ن ہارورڈ ٹی بی کا شکار ہو ااور اس کی زندگی کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ،جب اسے اپنی موت کا یقین ہو گیا تو اس نے اعلان کیا”میری کتابیں اورمیری آدھی جائیداد اس چرچ کالج کے نام کردی جائیں “کالج انتظامیہ جان کے جذبے سے بے حد متائثر ہوئی اور اس نے ہارورڈ کی وفات کے بعد 13مارچ 1639کو اس کا لج کو”ہارورڈ کالج “ڈکلیئر کر دیا اورآج دنیا اسے ہارورڈ یونیورسٹی کے نام سے جانتی ہے ۔

میرے سینئر کا بھتیجا کچھ ماہ پہلے پاکستان آیا تو اس نے بتایا کہ ایک روز کسی کام کے سلسلے میں اپنی پروفیسر کے آفس میں گیا ،اسے اپنی اسائنمنٹ کے حوالے سے کوئی ضروری بات کرنی تھی ،وہ آفس پہنچا،دستک دی ، اجازت ملی تو وہ اندر داخل ہو گیا ،اس نے دیکھا کہ اس کی پروفیسر قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھ رہی تھی ،اسے جھٹکا لگا ،اپنے کام سے پہلے اس نے قرآن کے بارے میں سوال کر ڈالا ”میڈم آپ قرآن پڑھ رہی ہیں “پروفیسر نے سوال سنا تو چونک گئی، کتاب بند کی ،طنزیہ مسکراہٹ چہرے پے سجائی اور صرف دو لفظوں میں جواب دے کر بات ختم کر دی”یس،یوڈونٹ،وی ڈو“(ہاں،تم نہیں پڑھتے ،ہم تو پڑھتے ہیں )
یہ قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے کہ آج ہم دین اور دنیا دونوں اعتبار سے پیچھے ہیں اور المیہ یہ ہے ہمیں اپنی غلطی کا احساس تک نہیں ،ہم آج بھی خود کو ثریا ستارے کی بلندی پر سمجھتے ہیں اورہم آج بھی خود کو دنیا کی سب سے بہترین مخلوق تصور کرتے ہیں۔

دنیا تو ہم سے چھوٹی ہی تھی ہم نے دین کو بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا اور اب حالت یہ ہے کہ دنیا ہمیں ساتھ لے کر چلنے کے لیئے تیار ہے اور نہ ہم خدا کی بارگاہ تک رسائی رکھتے ہیں ،ہم نے اسلام کی اساسی تعلیمات کو صرف آخرت تک محدود کر کے رکھ دیا ہے اور ہم اسلامی احکا م کو صرف جنت اور جہنم کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔آپ صرف روزے کو لے لیں ،ہمارے معاشرے کے اکثرافراد روزہ نہیں رکھتے اور جو روزہ رکھتے ہیں وہ روزے کا احترام نہیں کرتے اور سورج غروب ہونے سے پہلے ان کا روزہ دم تو ڑ دیتا ہے ۔

ہمیں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے سے کو ئی فرق نہیں پڑتا ،ہم روزہ رکھ کے جھوٹ بھی بولتے ہیں ،غیبت بھی کرتے ہیں ، چغلی بھی کھاتے ہیں ، گالیاں بھی دیتے ہیں ،سود بھی کھاتے ہیں ،دھو کا بھی دیتے ہیں اور ہم روزہ رکھ کے بد نظری بھی کرتے ہیں ،ہمارے ایک ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے ہم رشوت لے رہے ہوتے ہیں ،ہم مسجد میں بیٹھ کرسودی کاروبار کا حساب کتاب کر رہے ہو تے ہیں اور ہم قرآن ہاتھ میں لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہو تے ہیں ۔

فرق صرف یہ ہے عام دنوں میں ہم بڑی سادگی سے گناہ کرتے ہیں لیکن رمضان میں ہمارے گناہ کرنے کا طریقہ تھوڑا مہذب ہو جاتا ہے ،ہم جھوٹ بھی بولتے ہیں تو سر پر ٹوپی پہن کر ،ہم ناپ تول میں کمی بھی کر رہے ہو تے ہیں اور ہماری زبان پر استغفراللہ کا ورد بھی جاری ہو تا ہے اور ہم دھو کا بھی دے رہے ہو تے ہیں اور ہمارے ہاتھ سے تسبیح کے دانے بھی بڑی تیزی سے گررہے ہوتے ہیں ۔

آپ قر آن کو لے لیں ،ستر فیصد مسلمان سال میں ایک دفعہ بھی قرآن ختم نہیں کرتے حالانکہ سال میں کم از کم ایک دفعہ قرآن ختم کرنا ضروری ہے ،سال کے گیارہ ماہ کو چھوڑیں آپ صرف رمضان کو ہی لے لیں ،رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا تھا اور ماضی قریب و بعید میں عام مسلمان بھی رمضان میں قر آن ختم کرنا ضروری سمجھتا تھا لیکن آج ہم رمضان میں بھی قرآن کو ہاتھ لگانے کے لیئے تیا ر نہیں ،سحری کھا کر سو جانا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے اور ٹی وی پر نام نہاد اسکالرز کی گفتگو سننا ہماری عبادت ،ہم نے قرآن کو معاشرے کی سب سے مظلوم کتا ب بنا دیا ہے،ہم بڑے شوق سے قرآن خریدتے ہیں ،اس پر قیمتی اور خوبصورت غلاف چڑھاتے ہیں اور اسے بڑے اہتمام کے ساتھ کسی طاق یا الماری میں سجا دیتے ہیں۔

آپ نماز کو لے لیں ،نماز کے بغیر دین نامکمل ہے اور نماز ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے لیکن آج کا مصروف مسلمان اپنی مصروف زندگی میں نماز کے لیئے وقت نکالنے کوتیار نہیں ،ہمارے معاشرے کے پچاس فیصد افراد نماز نہیں پڑھتے اور اکثریت کو نماز کی تسبیحات اور دعائیں یاد نہیں ،اور جو پچاس فیصد افراد نماز پڑھتے ہیں ان کے تلفظ تک ٹھیک نہیں اور وہ نماز میں لحن جلی جیسی غلطیاں کرتے ہیں۔

آپ زکوتہ کو لے لیں ہمارا اسی فیصد طبقہ زکوتہ ادا نہیں کرتا اور رمضان آنے سے پہلے ہم لو گ اپنا پیسہ بینکوں سے نکلوا لیتے ہیں۔کتنے فیصد مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں نبی علیہ السلام کی سیرت کی کو ئی کتاب پڑھی ہو گی ،کتنے فیصد مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے صحابہ کرام کی زندگی کا مطالعہ کیا ہو گا ،کتنے فیصد مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کا ترجمہ پڑھنے کی کو شش کی ہو گی اور کتنے فیصد مسلمان ایسے ہیں جو تفسیر قرآن سمجھنے کے لیئے باقاعد ہ کسی عالم کے حلقہء اثر میں جاتے ہیں ،جب ہم نے رسول اللہ کی سیرت اور صحا بہ کرام کی زندگیوں کو ہی نہیں پڑھا تو ہم ان کے اسوہ کے مطابق خود کو کیسے ڈ ھا ل سکتے ہیں ؟در اصل ہم صحرا میں بھٹکنے والے اس مسافر کی طرح ہیں جو اپنی منزل کھو بیٹھتا ہے اور بقیہ سا ری زندگی صحرا کی خاک چھانتے ہو ئے گزار دیتا ہے ۔

ہمارا نوجوان دنیا بھر کا ادب پڑھتا ہے لیکن اس کے لیئے اپنے نبی کی سیرت اور قرآن کا ترجمہ پڑھنے کے لیئے وقت نہیں ،آپ کسی بھی راہ چلتے ہو ئے نو جوان کو روک کر پو چھ لیں وہ آپ کو ہیر رانجھے سے سسی پنو ں تک اور لیلی مجنوں سے شیریں فرہاد تک کے سارے قصے فر فر سنا دے گا ،وہ آپ کو ہالی وڈ ،بالی وڈ اور لالی وڈ میں بننے والی ہر فلم کی ہسٹری ،اس کے ریلیز ہو نے کا سن اور اس کی مقبولیت کا گراف تک بتا دے گالیکن اس نے زندگی بھر میں کبھی قرآن کا ترجمہ پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش ہرگز نہیں کی ہو گی ،تو پھرخود سوچیں ہم زوال پذیر کیوں نہ ہوں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :