برمی مسلمان اور انسانیت کا حق

ہفتہ 20 جون 2015

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب وحشت اور بربریت کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔دل ہے کہ خون کے آنسو روتا ہے۔کیسے کیسے دل دہلا دینے والے مناظر ہیں۔
برما میں ان دنوں مسلمانوں کی نسل کشی عروج پر ہے،میں نے سینکڑوں بے بس لوگوں کی تصویریں دیکھی ہیں۔اب تک بدھ بھکشووٴں کے ہاتھوں20ہزار روہنگیا مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی تقریباً510 بستیاں نذر آتش ہوچکی ہیں، ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان ہجرت کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں، تقریباً 20ہزار کھلے سمندر میں کشتیوں میں انتہائی برے حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ظلم یہ کہ ا فریقہ سے ہزاروں میل دور ملک نمیبیا کی حکومت نے برما (میانمر) کے ان ستم زدہ افراد کی مدد کے لیے امداد اور ٹیمیں بھیج دیں مگر پاکستان کی حکومت نے ان مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کا کوئی نوٹس نہیں لیا ۔

(جاری ہے)

حد تو یہ ہے ہمارے حکمرانوں کو اب جاکہ پتا چلا کہ برما میں کیا قیامت برپا ہے۔عمران خان کا اقوام متحدہ کے جنرل سیکرتری بان کی مون کو لکھا گیا خط قابل تحسین ہے،اسلام آباد سے برادرم سبوخ سید نے سوشل میڈیا پر اپنی مدد آپ کے تحت احتجاج کی صدا بلند کی اب اس ظلم کے خلاف احتجاج کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔


کاش! ہماری حکومت کچھ سیکھ سکے۔ہمیں سوچنا ہوگا کیا یہ مسئلہ صرف مذہبی جماعتوں کا ہے کیا یہ صرف انہی کی ذمہ داری ہے ۔نہیں اب کی بار ہمیں اس مخصوص سوچ کے خول سے باہر نکلنا ہوگا حضور یہ مذہب کا نہیں انسانیت ما مسئلہ ہے۔ایک طرف ہمارا میڈیا ہے جو شتر بے مہار کی طرح ناجانے کس جانب جا رہا ہے،مگر کوئی میڈیا کی سمت ٹھیک کرنے والا نہیں۔اب کیسے اہل صحافت کی توجہ برماکے مسلمانوں کی حالت زار کی طرف دلائی جاسکتی ہے؟ کیا اس کئے لیے بھی ہمیں غیر ملکی اخبارات کی مدد لینا پڑے گی؟ مگر پھر وہی بات ایک ہی بات کتنی بار کی جائے ہمارے لوگ،پمارا میڈیااور ہمارے حکمران تب تک اپنے ہی مسئلے کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے جب تک غیر ملکی میڈیا ہماری توجہ نہ دلائے۔

ایک اور ستم ملاحضہ کیجیے
25ستمبر 1969ء میں مراکش کے شہر رباط میں مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔اس تنظیم کو ہم او آئی سی(OIC) کے نام سے جانتے ہیں۔جی ہاں وہی او آئی سی جو دنیا بھر کے 1.2 عرب مسلمانوں کے حقوق کی محافظ ہے۔
برما میں مسلمانوں کو قتل عام گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری و ساری ہے۔ مسلمانوں کے خونِ ناحق سے برمی بدھ متوں کے ہاتھ رنگین ہیں مگر او آئی سی خاموش ہے۔

OIC
یا اپنے خاتمے کا اعلان کرے تاکہ امت اسلامی کوئی نیا پلیٹ فارم قائم کرسکیں اور اگر او آئی سی نے ہی برقرار رہنا ہے تو اس میں اصلاحات کی جائیں اور اسے متحرک و فعال کیا جائے۔مسلمان حکومتوں کی نمائندگی کے لیے قائم او آئی سی اورغیرمسلم حکومتوں کی اکثریت رکھنے والی اقوام متحدہ میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔او آئی سی کی قیادت یا تواعلان کر دے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتی جب ایک عالمی تنظیم کی بنیاد ہی خاص مقصد کے لیے رکھی گئی ہو اور آرگنائزیشن وہ مقاصد بھی نہ حاصل کر سکے ایسے اتحاد کا ختم ہوجانا ہی بہتر ہے۔


مسلمان حکمرانوں کو ماضی کی غلط روش سے سبق سیکھنا ہوگا۔اوآئی سی کو امت اسلامی کا ترجمان بننا چاہیے اور عملی طور پر ان اہداف کے حصول کی سمت قدم بڑھانا چاہیے جو ستمبر 1969 میں بانی رکن ممالک نے طے کیے تھے۔
نام نہاد مردہ اسلامی کانفرنس ، مدتمر عالم اسلامی، اسلام کے نام پر حکمرانی کرنے والے تمام عرب حکمران اس ظلم عظیم پر خاموش ہیں!کیسی مضحکہ خیز بات ہے یہ ظلم و ستم کیاندگیری رات کے پیچھے بدھ مت کے پیروکار ہیں جن کے مذہب کی ساری کی ساری بنیاد ہی امن اور عاجزی و انکساری پر مبنی ہے۔

اس مذہب میں کسی قسم کے تشدد’ جبر یا ظلم و ستم کی مکمل نفی کی گئی ہے مگر پھر مذہب کے نام پر دنیا بھر میں کیا ہورہاہے؟ زیادہ تر مسلمان ہی ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔تاریخ کی پیچیدگی کو ایک طرف رکھ دیجیے روہنگیا مسلمانوں کا برما پر حق ہے کہ نہیں مگر ایک حق تو ان کا ہے وہ انسانیت کا حق۔کیااقوام متحدہ،امت مسلمہ کی نام نہاد ترجمان تنظیم او آئی سی اور
انسانی حقوق کے چیمپیئنز برما میں موجود مسلمانوں کو انسانیت کا حق بھی نہیں دلاسکتے۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :