آج تمہارا ہے ۔۔۔کون جانے کل کس کا ہوگا!

پیر 8 جون 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

اسلام معاشرتی مساوات اور قانون کی نظر میں برابری کا عالمگیرتصور دیتاہے۔"لوگو اللہ کا ارشاد ہے کہ انسانو!ہم نے تم سب کوایک ہی مرد اورعورت سے پیدا کیااورتمہیں جماعتوں اورقبیلوں میں بانٹ دیاتاکہ تم پہچانے جا سکو۔تم میں زیادہ عزت و کرامت والااللہ کی نظر میں وہی ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے "(خطبہ حجةالوداع )۔خطبہ حجةالوداع بلاشبہ انسانی حقوق کااولین اورمثالی منشوراعظم ہے۔

اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت ، نسلی یاکسی قسم کی ذاتی اغراض وغیرہ کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔یعنی تمام انسان برابر ہیں،مال ودولت،کنبہ ،قبیلہ وبرادری اورعہدہ و منصب کی بنیاد پرکسی کو کسی دوسرے پرکوئی فوقیت حاصل نہیں۔"بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اوران حقوق میں قانون اوراخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات، قانون کی نظر میں برابری۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔ شامل ہوگی" (قرارداد مقاصد)۔تما م شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اورقانونی تحفظ کے مساوی حق دار ہیں" (آرٹیکل 25)۔آئین ِ پاکستان میں شہریوں کے حقوق موجودہیں لیکن ہمارے موجودہ سسٹم میں مجبور ومحکوم،پریشانیوں اورمصیبتوں میں گھرے عوام کا آئین میں عملی طور پر کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔
حکمران طبقہ عوام کی فلاح وبہبود بھول چکا ہے۔

ان حکمرانوں کوکیا معلوم؟ عوام کیسی کرب ناک زندگی گزار نے پرمجبورہیں؟ ملک بھر میں کتنے لوگ ضروریات زندگی، صاف پانی،دووقت کاکھانا،علاج، گھر اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے،لیکن آمدن کا ہروسیلہ ختم ہوتا جارہا ہے۔پاکستان کی 60فیصد آبادی کی یومیہ فی کس آمدن 2ڈالر سے بھی کم ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام خودکشیاں اوربچوں کو فروخت کرنے پرمجبور ہوچکے ہیں۔

ان کی عزت وآبرو تک محفوظ نہیں؟یہاں تک کہ ان سے جینے کا حق چھین کرانہیں نا حق قتل کیا جارہاہے ۔بے حسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ ان حکمرانوں کو کوئی کیسے سمجھائے کہ بڑے منصوبے نہیں،فی زمانہ عوام روزگار ،عزت و آبرواورجان ومال کی حفاظت چاہتے ہیں اوریہی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی۔
حکمران طبقہ نے دُکھ،غم اور زندگی کے نشیب وفراز کا سامنا کرتے غریب اورمتوسط طبقے کی حالت سنوارنے کی سنجیدگی سے کوشش کی ہوتی تو آج اس کی کچھ توجھلک نظر آتی۔

عوام کو ریلیف ملتا، ان کے دُکھوں غموں کا کسی حد تک مداوا ہوتا۔ مگر یہاں تو ہر دن گزشتہ دن سے سخت ترین اور جان لیوا آزمائش لے کرطلوع ہوتاہے۔ریاستی ادارے آئے روز عوام کواذیت اورتکالیف پہنچانے کا موجب بن رہے ہیں۔ان حکومتی اداروں کی بے رحمی، سفاکی کے سبب عدم تحفظ کازہر عوام کی رگ وجاں میں پیوست ہوچکاہے۔
ہماری حکومتوں کی ہرحساس معاملہ میں نااہلی،بے حسی اورمسلسل لاپرواہی سے پورا ملک مقتل گاہ بن چکا ہے ۔

پولیس کا ادارہ جس کے ملازمین تنخواہ عوام کے پیسوں سے لیتے ہیں۔اس ادارہ کی ذمہ داری عوام کے جان ومال کی حفاظت کرنا ہے۔مگریہ لوگ عوام کی جانوں کے دُشمن بن چکے ہیں۔آخر حکمرانوں کے بلند بانگ دعوے کیا ہوئے ؟ ۔کیابااثرافراد کی خوشنودی کے لئے آئے روزپولیس کی جانب سے شہریوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کے اندراج کا مکمل طورپر خاتمہ ہوگیاہے؟کیا اب پولیس مقتدرطبقہ کے مفادات کی حفاظت کی بجائے امن وامان کے قیام اورشہریوں کے مال وجان کی حفاظت کے لئے استعمال ہورہی ہے؟کیابدامنی اور جرائم کی تعداد میں روزبروزاضافہ کی بجائے کمی ہوگئی ہے۔

کیا اب تھانے فریادیوں کی قتل گاہ کے بجائے مظلوم شہریوں کی پناہ گاہ کا روپ دھارچکے ؟
حضرت عمرفاروق کاقول ہے "جوریاست مجروں پررحم کرتی ہے،وہاں کے بے گناہ لوگ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں"۔ عوام اس وقت جس مایوسی اورناامیدی میں مبتلا ہیں،وہ اس سے پہلے کبھی اتنی گہری نہ تھی۔حد یہ ہے کہ ملک اپنی تاریخ کے سیاہ ترین دورسے گزر رہا ہے، جبکہ حکمران اور ان کے حواری یہ تاثردینے کی کوشش کررہے ہیں کہ اُنہوں نے ملک وعوام کو خوشحال کردیا۔


افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے جھوٹی تسلیاں اوربے بنیاددعووں کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔بات بات پر انقلاب کی باتیں کرنے والے حکمرانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ انہیں جب کبھی بیان بازی سے فرصت ملے توذرا غورکریں۔ زیادہ دورنہیں جاتے کم سے کم ان گزشتہ سات سالوں میں خلوص نیت سے کوشش کی جاتی توحالات اس قدربدترنہ ہوتے۔ہم عوام دہشت گردوں سے بچ بھی جائیں،تو ان کی جان ومال کی حفاظت کاحلف اُٹھانے والے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے رہی سہی کسر پوری کر دیتے ہیں۔

حکمران اپنے دعووں کے مطابق اپنا کام حسن نیت اوراحسن طریقہ سے انجام دیتے توکم ازکم ماڈل ٹاؤن لاہوراور ڈسکہ جیسی پولیس گردی اور بربریت کے واقعات وقوع پذیر نہ ہوتے۔
موجودہ حکمران خود بھی ہرقسم کے حالات وآزمائش سے گزرے ہیں،کاروبارکاعروج بھی دیکھا اورپھرایسا وقت بھی دیکھا کہ سارے کاسارا کاروبار ہتھیا لیا گیا ۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں توایک عرصہ سے میاں برادران کی حکومت ہے ۔

اب تو متواترسات سال پنجاب میں میاں شہباز شریف صاحب حکمران ہیں۔اس سے قبل مرکز میں بھی دوبار حکومت ملی،مگرپھرآزمائش سے بھی گزرے، حکومت آتی اورجاتی رہی،قیدوبند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ایک وقت میں سفید وسیاہ کے مالک ہونے اور دوسرے وقت اپنے وطن سے بھی جلاوطن یا بے دخل کردیئے جانے کے اذیت ناک تجربہ سے گزرے ہیں۔
آج ایک بار پھر اللہ عزوجل نے آپ کوعزت،طاقت اورحکومت عطاء کی ہے۔

آپ کی حب الوطنی میں بھی کسی کو شک نہیں۔پاکستانی عوام کی اکثریت آپ کو چاہتی ہے۔اب مرکز میں دوسال اور پنجاب میں متواترسات سال آپ کی حکومت کے مکمل ہوچکے ۔اس عرصہ میں عوام کوکیاریلیف ملا؟نہ تومہنگائی کاجن قابو آیااورنہ ہی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایاجاسکا۔غربت کی شرح میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پہلے سے بے روزگاروں میں مزید15لاکھ بے روزگارافرادکااضافہ ہوا۔

رہی سہی کسر"عوام دوست حکومت" کے "عوام دوست" بجٹ نے پوری کردی گئی ہے۔
وقت گزرجاتا ہے۔وقت بدلنے میں دیرنہیں لگتی،آج آپ کے پاس حکومت ،طاقت اوراختیار ہے۔ خوشی اور زندگی سے مایوس عوام اب اس صورتِ حال سے مکمل طورپرعاجز آ چکے ہیں۔قتل و غارت گری ،مہنگائی ، غربت ، بے روزگاری سے تنگ عوام امن وسکون کے ایک لمحہ کو ترس گئے ہیں۔ عوام روزگار ، عزت و آبرواورجان ومال کی حفاظت چاہتے ہیں۔خدا کے لئے پاکستان جس نے آپ کوعزت اورحکومت دی، اس ملک کے عوام کوکچھ توریلیف دیں۔ان کے روزگار،صحت وتعلیم اورجان ومال کی حفاظت کے لئے بھی کچھ کرجائیں،کہ آج تمہارا ہے ۔۔۔۔کون جانے کل کس کا ہوگا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :