اپنوں نے غم دیئے تو۔۔۔۔

پیر 8 جون 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

پیپلزپارٹی کاپچھلا دَورِحکومت بَدترین ،”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں“ زباں زدِعام، رشوت سفارش اپنے عروج پراور انتظامی معاملات ایسے کہ ”نے ہاتھ باگ پرہے نہ پا ہے رکاب میں“ لیکن جب وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈارصاحب نے تیسرابجٹ پیش کیاتوایک پرانا ، مقبول گانا میرے ذہن میں گھومنے لگا جس کے بول کچھ یوں تھے کہ
اپنوں نے غم دیئے تو مجھے یاد آ گیا
اِک اجنبی جو غیر تھا اور غمگسار تھا
پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دَورِ حکومت میں گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہوں میں لَگ بھگ150 فیصداضافہ ہوالیکن نوازلیگ کی حکومت کے پہلے بجٹ پریہ بہانہ کہ معیشت برباد ،خزانہ خالی ،پیپلزپارٹی نے عوام کے لیے ”کَکھ“ نہیں چھوڑا ۔

دوسرے بجٹ پربھی لفظی ہیراپھیری کے ساتھ یہی بہانہ لیکن تیسرے بجٹ پرکیا ہوا؟۔

(جاری ہے)

پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاپر یہ خبریں تو متواتر آرہی تھیں کہ تنخواہوں اور پنشن میں پانچ سے سات فیصدتک اضافہ کیاجا رہاہے لیکن ہم نے اِن پر یقین نہیں کیاکہ اِس شدیدترین مہنگائی میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے لیکن جب بجٹ آیاتو اسحاق ڈارصاحب نے ہماری توقعات کے برعکس گورنمنٹ ملازمین اورپینشنرز کے گلے پرچھُری پھیردی۔

اُنہوں نے سرکاری ملازمین کے ساتھ انتہائی بھونڈامذاق کرتے ہوئے تنخواہوں اور پنشنزمیں ساڑھے سات فیصداضافہ کرکے گویااُن کے مُنہ میں”پولیوکے قطرے“ ٹپکادیئے۔کبھی ہمارے ایک وزیرِخزانہ سَرتاج عزیزہوا کرتے تھے جنہیں لوگ ”سَرچارج عزیز“ کہاکرتے تھے۔ جب اُن سے وزارتِ خزانہ کاقلمدان واپس لیاگیاتو ”بہتوں“ نے سُکھ کاسانس لیالیکن اب لوگ کہتے ہیں کہ سَرتاج عزیزنے توآتی جاتی سانسوں کا راستہ کھُلارکھا لیکن ہمارے ”ڈالرصاحب“ نے تویہ راستہ بھی بندکرنے کی سعی کرڈالی۔

ماناکہ حکمران صبح ومسا ملکی ترقی کے لیے کوشاں، موٹروے بجا ،میٹرو زبردست اورگرین لائن منصوبہ بھی مفیدمگر اِن سبھی سے لطف اندوزتو تبھی ہواجا سکتاہے جب سانس کی ڈورسلامت رہے۔ ہم نے پہلے بھی لکھاتھا کہ یہ اضافہ بھی اُن ”غریب پارلیمنٹیرینز“ میں تقسیم کردیں جن کی تنخواہوں کو تازہ تازہ دوگنا کیاگیا ہے اور”بینظیرانکم سپورٹ فنڈ“ کے اصلی حقداریہی بے کس ،بے بَس اورمجبورو مقہور پارلیمنٹیرینز ہی ہیں جن کی فیملیزکے لیے پارلیمنٹ لاجزمیں36 کروڑروپے کے فیملی سوٹس تعمیرکیے جارہے ہیں۔

حکومت ”ایویں خوامخوا“ مفلسوں کو ڈھونڈتی پھرتی ہے ،سارے مفلس توپارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔گورنمنٹ ملازمین کی تمام ایسوسی ایشنزنے اونٹ کے مُنہ میں زیرے کے مترادف اِس اضافے کویکسر مستردکر دیا ۔ہم نے اِس ظالمانہ بجٹ پراپنے میاں سے بات کرناچاہی تواُنہوں نے اُداس نظروں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا ”ظالمانہ ہی توہے ۔سگریٹ پہلے ہی مہنگے تھے ،ظالموں نے مزیدمہنگے کردیئے“۔

میاں کی یہ بات سُن کر ہمارا جی اپنا سَر پیٹ لینے کوچاہا لیکن پھر یہ سوچ کر چُپ ہورہے کہ اُن کا مہنگائی ماپنے کاپیمانہ توہمیشہ صرف سگریٹ ہی ہوتے ہیں،سگریٹ مہنگے توبجٹ بکواس ،سستے تو واہ وا۔
تنخواہ دارطبقہ ایک طرف ،اِس بجٹ میں تو خطِ غربت کے نیچے زندگی بسرکرنے والوں کے لیے بھی ”کَکھ“ نہیں۔ ہم ماہرِمعاشیات ہیں نہ معیشت کی سُدھ بُدھ لیکن وزیرِخزانہ کی بجٹ تقریرسُن کراتنا اندازہ ہم نے بھی لگالیاکہ یہ بجٹ محض خوبصورت الفاظ کا ایسا گورکھ دھندہ ہے جس میں اشرافیہ کو کچھ ملے توملے ،مجبوروں مقہوروں کوکچھ نہیں ملنے والا۔

ہمارے حکمران کیاجانیں کہ ایک غریب کی معیشت پیٹ سے شروع ہوکر پیٹ پرہی ختم ہوجاتی ہے ۔سچ لکھاہے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کِس لیے
وہ سُن کے بولا بابا خُدا تُم کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سورج نہ تارے ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
اسحاق ڈارصاحب کہتے ہیں کہ افراطِ زَرمیں کمی ہوئی ۔

اوّل تویہ کمی صرف کاغذوں میں نظرآتی ہے لیکن اگر ہوئی بھی توڈارصاحب کی پالیسیوں کی بدولت نہیں بلکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہوجانے کی وجہ سے ہوئی اوردوسرے اگرواقعی افراطِ زَرمیں کمی ہوئی تواِس کااثر خورونوش کی بنیادی اشیاء پرہرگز دیکھنے میں نہیں آیا ۔جولائی 2014ء سے اب تک روزمرہ ضرورت کی اشیاء میں25 سے 150 فیصدتک اضافہ ہوا جبکہ ڈارصاحب کی ”معیشت“ میں یہ اضافہ بقدرِاشکِ بُلبُل ہے ۔

مارکیٹ میں ہرشے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، سبزیوں کی قیمتیں سُن کرپسینے چھوٹ جاتے ہیں اور فروٹ خریدنے کی توکسی عام آدمی میں سَکت ہی نہیں۔اب تولوگوں نے پھلوں کی قیمتیں پوچھنابھی بندکر دی ہیں ۔جس ملک میں دال ماش 180 ، دال مونگ 170 اورمسورکی دال 142 روپے فی کلومِل رہی ہو، اُس کے وزیرِخزانہ کایہ بیان کسی لطیفے سے کم نہیں کہ افراطِ زَرمیں کمی ہوئی ہے ۔

دراصل جب مرسڈیزاور بی ایم ڈبلیوگاڑیوں کے مالک ”ٹھنڈے ٹھار“بنگلوں میں بیٹھ کربجٹ بنائیں گے توپھربھلاوہ فُٹ پاتھ پہ سونے والوں کے دردآشنا کیسے ہوسکتے ہیں۔ جس نے غُربت دیکھی نہیں، جومُنہ میں سونے کاچمچہ لے کرپیدا ہو ا، وہ بھلاغریبوں کادُکھ کیاجانے ۔پھرتو ایساہی بجٹ بنے گاجیسا ڈارصاحب نے بنایا۔ حضرت عمر نے فرمایا”امیرالمومنین اُس وقت تک گیہوں کی روٹی نہیں کھا سکتاجب تک اُسے یقین نہ ہوجائے کہ اُس کی رعایامیں سے ہرایک کوگیہوں کی روٹی میسرہے “۔

اسحاق ڈارصاحب نے بجٹ تقریرکرتے ہوئے بڑے فخرسے کہاکہ کم از کم تنخواہ اورپنشن 12 ہزارسے بڑھاکر 13 ہزارکی جارہی ہے۔ دست بستہ عرض ہے کہ اِس 13 ہزارمیں توشاید ڈارصاحب اپنے صرف ایک دِن کے اخراجات بھی پورے نہ کرسکتے ہوں پھر بھلا 13 ہزارمیں ایک ماہ کاخرچہ کیسے پوراکیا جاسکتا ہے؟۔ڈارصاحب بہت بڑے ماہرِمعاشیات ہیں اور اُن کی صلاحیتوں کے سبھی معترف، وہ چھوڑیں اِس بجٹ وَجٹ کوبَس اتنا کردیں کہ 13 ہزارروپے ماہانہ کابجٹ بناکے دکھادیں ۔ اگروہ ایساکر گئے تو پھرہم بھی اُن کی صلاحیتوں کے معترف ہوجائیں گے اوراگر نہیں توپھر
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :