خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات

منگل 2 جون 2015

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

خیبرپختونخوا میں سوئٹزرلینڈ کے طرز کا ایک مثالی بلدیاتی نظام قائم کرنے اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کے عمران خان صاحب کے اعلانات اور دعووٴں کی حقیقت 30 مئی کو صوبے میں ہونے والے انتخابات کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں واضح ہوگئی ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے دوران صوبے بھر میں جس طرح کی بدنظمی، لاقانونیت اور بدامنی دیکھی گئی ،اس کا اعتراف خود تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا کے صدر اعظم سواتی نے بھی کیا ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں بلدیات کا محکمہ جماعت اسلامی کے پاس ہے، جس نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے تمام انتظامات کیے تھے، لیکن جماعت اسلامی بھی انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور جماعت کی جانب سے انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

گویا صورت حال یوں ہوگئی ہے کہ #
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نکلا
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے پاس یہ کہنے کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہے کہ اسے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے انتظامات کا پورا وقت اور موقع نہیں ملا ،کیونکہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات جلد منعقد کروانا نہ صرف تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں شامل تھا، بلکہ عمران خان صاحب اپنے انتخابی جلسوں کے دوران صوبے میں 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کرنے کا اعلان کرتے رہے۔

2013ء کے انتخابات میں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع ملا، لیکن بلدیاتی انتخابات کے 90 روز کے اندر انعقاد کا وعدہ مختلف حیلوں ، بہانوں اور قانونی پیچیدگیوں کے حوالے دے کر ٹالا جاتا رہا اور اب تقریباً 2 سال بعد عدالت کے حکم پر جب صوبائی حکومت کو بلدیاتی انتخابات کروانے ہی پڑے تو اس کی تیاری، منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا پول 30 مئی کے دن کھل گیا، جب پورے صوبے میں کہیں بھی قانون کی عملداری نظر نہیں آرہی تھی اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ ہر جگہ حقیقت کے لباس میں دکھائی دے رہا تھا۔


صوبائی دارالحکومت سمیت مختلف اضلاع میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے پولیس اور انتظامیہ کی سرپرستی میں دھاندلی کرنے یا دھاندلی کے لیے الیکشن کمیشن کے عملے پر دباوٴ ڈالنے کے واقعات سامنے آتے رہے، یہاں تک کہ ایک صوبائی وزیر امین گنڈاپور کو ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام نے بیلٹ بکس ساتھ لے جاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ بھی لیا، لیکن طرفہ تماشا یہ کہ پولیس نے تاحال ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ہے، جبکہ دوسری جانب اے این پی کے سابق وزیر میاں افتخار کو تحریک انصاف کے کارکن کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا، حالانکہ مقتول کے والد نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے کہ انہوں نے میاں افتخار کو اپنے بیٹے کے قتل میں نامزد کیا ہے اور نہ انہیں اس قتل میں ملوث سمجھتے ہیں۔

اس کے باوجود میاں افتخار کو کس کے ایما پر، کس مقصد کے لیے گرفتار کیا گیا؟ یہ خیبرپختونخوا کی پولیس ہی بتاسکتی ہے ،جس کے بارے میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک کا دعویٰ ہے کہ وہ مکمل طور پر آزاد ہے اور حکومت کے کہنے پرکسی کے خلاف مقدمہ درج کرتی ہے نہ ہی حکومت کو کوئی مقدمہ خارج کرنے کا اختیار ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کی خاطر انصاف وقانون کی دھجیاں اڑاکر رکھ دی ہیں اور 4 مہینے تک کنٹینر پربیٹھ کر دھاندلی دھاندلی کا شور مچانے والوں نے خود دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں اپنی 2013ء کی عام انتخابات میں کامیابی کی شرح کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

جمعیت علمائے اسلام خیبرپختونخوا میں دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری ہے اور اس نے متعدد اضلاع میں تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دیا ہے، جبکہ دوسری جانب اے این پی نے بھی صوبے بھر میں اچھا ”کم بیک“ کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی اپنے روایتی حلقوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ،تاہم بعض مبصرین کے مطابق ایک حکومتی اتحادی جماعت ہونے کی حیثیت سے جماعت اسلامی کی کامیابی کی شرح وسطح وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔


یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں بھی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور چند اضلاع میں تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی ہے، لیکن یہاں یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر صوبے میں برسراقتدار جماعت کو ایک ایڈوانٹیج حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ لوگ اپنے گلی محلے کے مسائل کے حل کے لیے بالعموم ان جماعتوں کو ووٹ دینے کو ترجیح دیتے ہیں جن کی صوبے میں حکومت ہوتی ہے۔

اس بنیاد پر تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں سبقت ملنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صوبے کے عوام اس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، بلکہ گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں اس دفعہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ صوبے کے عوام تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور اس عدم اطمینان کا اظہار انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کردیا ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ ملک میں تبدیلی لانے، اسٹیٹس کو توڑنے، میرٹ کی بالادستی قائم کرنے اور روایتی سیاسی بازی گری کا خاتمہ کرنے کے بلندبانگ دعوے اپنی جگہ کتنے ہی سہانے اور اچھے کیوں نہ ہوں، عوام ان دعووٴں اور وعدوں کو کارکردگی کی کسوٹی پر ہی پرکھتے ہیں اور اگر کارکردگی کو معیار بناکر دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام کو تبدیلی صرف اس قدر نظر آرہی ہے کہ پہلے پشاور میں اے این پی حکومت تھی اور اب تحریک انصاف کی حکومت ہے۔

تحریک انصاف کے پاس بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کا شفاف، آزادانہ اور پرامن انعقاد ممکن بناکر تبدیلی کے اپنے نعرے اور دعووٴں کا عملی ثبوت قوم کے سامنے پیش کرتی، لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے اور اب اس ناکامی کی خفت کو مٹانے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے راہنماوٴں اور حامیوں کی جانب سے طرح طرح کی حجت بازیاں کی جارہی ہیں، جس پر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کا محاورہ ہی صادق آتا ہے۔

ہمیں تو ان حجت بازیوں پر یہ شعر یاد آجاتا ہے کہ #
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہٴ سیاہ میں تھی
خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں مذہبی ووٹ بینک کے کردار اور اہمیت کا سوال بھی قابل غور امرہے۔ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا حکومت کا حصہ اور تحریک انصاف کے اتحادی ہونے کی وجہ سے اس مرتبہ بھی مذہبی ووٹ بینک کو محفوظ کرنے کی خاطر کسی دینی اتحاد کا حصہ نہ بن سکی، جس کا سب سے زیادہ نقصان خود جماعت کو ہی ہوا۔

ہمارے ضلع چترال میں جماعت اسلامی کے امیر اور سابق ضلعی ناظم حاجی مغفرت شاہ نے جماعت کی اس پالیسی سے مختلف راہ اختیار کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کیا، جس کے نتیجے میں چترال میں دونوں جماعتوں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے شہری علاقوں میں کلین سوئپ کردیا ہے اور یہ دونوں اتحادی جماعت وہاں ضلعی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔

اگر چترال کے اس تجربے کو سامنے رکھ کر دونوں جماعتوں کے قائدین مستقبل کی منصوبہ بندی کریں تو انہیں اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ مذہبی ووٹ بینک کو محفوظ بنانے اور دینی جماعتوں کو فیصلہ کن سیاسی قوت بنانے کے لیے ان دو بڑی جماعتوں کا اتحاد ناگزیر ہے۔ اگر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا اتحاد ہوجاتا تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ خیبرپختونخوا کے اکثر اضلاع میں ضلعی حکومتیں دینی جماعتوں کی ہی بنتیں۔ ان دونوں جماعتوں کو خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور 2018ء کے عام انتخابات میں دینی جماعتوں کا وسیع تر اتحاد قائم کرنے کے لیے ابھی سے کوششوں اور مشاورت کا آغاز کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :