کیایہی ہے رختِ سفر امیر کاروں کے لیے؟؟

جمعہ 29 مئی 2015

Asif Shaheen Rathore

آصف شاہین راٹھور

یہ کافی پرانے زمانے یعنی تقسیم ہند سے پہلے کی سچی کہانی ہے جب ضلع حویلی ریاست پونچھ کا ایک قلعہ ہوا کرتا تھا ۔ریاست پونچھ کے ایک بڑے جاگیر دار کو ڈوگرہ افواج نے گرفتار کر کے سرینگر جیل میں قید کر دیا۔جاگیر دار چونکہ صاحب حیثیت اور مال دار تھے انکے ایک ملازم نے اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے اپنے مالک کے ساتھ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کا اعلا ن کر دیا کہ میرے مالک اگر جیل میں رہیں گے تو میں کیسے کھلی فضا میں رہوں،یوں جاگیردار صاحب اپنے ملازم سمیت جیل میں قید ہو گئے۔

انکا ملازم ہر دن اُن کی خدمت کرتا،کپڑے دھوتا،استری کرتا،کھانا بنا کر دیتا،اُس وقت لیٹرین یہاں تک نہیں پہنچی تھی جاگیر دارصاحب رفع حاجت کرتے ملازم وہ بالٹی اٹھاتااور دور کہیں پھینک آتا، رات کو اپنے مالک کی مالش کرتا،حقے کی چلم بھرتا ،انگار سلگاتا،مالک کش لگاکر دھواں ہوا میں اڑاتے، رات کو جب مچھر کاٹتے تو ملازم مچھر دانی تان کر کھڑا رہتا،گرمی کے دنوں میں مالک کے پیچھے کھڑا ہو کر ہاتھ کا بنا ہوا دستی پنکھا جھلاتا،سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں انکے لیے کوئلے کا بندوبست کر کے انگیٹھی جلاتا،مالک کے ناشتے سے لیکر دوپہر کے کھانے تک اور سہہ پہر کی چائے سے لیکر رات کے کھانے تک ہر چیز بر وقت مہیا کرتا،یوں وقت گزرتا گیا اور تین سال کے بعد جیل سے رہائی ملی جاگیر دار اپنے آبائی گاؤں حویلی پہنچے شام کا وقت تھا گھر والوں اور مہمانوں سے مل کر سو گئے صبح جاگے تو ایک توا(جس پر روٹیا ں پکائی جاتی ہیں)آگ پر رکھ کر اتنا گرم کروایا کہ انگار بن گیااپنے نوکر کو بلوایاتلوار منگوائی اس نوکر کی گردن اُڑائی اور کٹی ہوئی گردن پر وہ انگار ہ بنا ہوا توارکھ دیا۔

(جاری ہے)

توا اسکی گردن کے ساتھ چمٹ گیاخون بہنا رکا تو اس نوکر کی لاش تڑپنے لگی، مالک چبوترے پر بیٹھ گے انکی پشت کی جانب نیچے دریابہتا تھاملازم کی چیخ سن کر دریا کی لہریں ٹھہر سی گئیں مالک نے حقے کی چلم بھروائی لمبا کش لگایااور اپنے وفادار ملازم کے تڑپتے ،ایڑیاں رگڑتے سر کٹے جسم کو دیکھنے لگے انکی آنکھوں میں فاتحانہ انداز تھا ،ایک غرور کی جھلک تھی لوگوں نے ڈرتے ڈرتے جاگیر دار صاحب سے پوچھا کہ اس نے تین سال آپ کے ساتھ جیل میں بھی وفاداری نبھائی آپ نے اسے کیوں قتل کر دیا؟جاگیر دار صاحب نے حقے کا کش لگایا دھوواں نتھنوں نے با ہر نکالا، اور بولے کہ اس ”خبیث“ کو دیکھ کر مجھے جیل اور قید کے برے دن یا د آ جاتے ہیں اس لیے میں نے اس کا کام تما م کر دیا ۔

نہ اب اس”خبیث“ کی شکل نظر آئے گی نہ مجھے جیل کا وہ زمانہ یا دآئے گا۔میں آجکل جب حویلی کے امیرکاروں فیصل ممتاز راٹھورکی کارکن کُش اور عوام دشمن پالیسیاں دیکھتا ہوں،انکی سول ایڈمنسٹریشن کی وارداتیں دیکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان جاگیر دار صاحب کی روح امیرِکارواں فیصل ممتاز راٹھور میں گھُس گئی ہے۔وہ لوگ جنہوں نے میر کاروں کو حویلی کی سیاست میں داخل کیا ، کارزارِ سیاست میں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا،میر کارواں کی سیاست کے لیے اپنا تن،من،دھن لگا دیا، اپنی جمع پونجی لگادی،ووٹ لیکر دیئے ،لوگوں کے پاؤں پکڑے،پولنگ اسٹیشنز پر جا کر مخالف جماعت کے کارکنان کی گولیوں کا سامنا کیا،انکے لیے ماریں کھائیں،اپنا کاروبار تباہ کروایا،مخالف پارٹی کے کارکنان نے ان کی دکانیں جلا دیں،گاڑیاں توڑ دیں،راستے بند کردیئے،یہاں تک کے گاؤں کی سطح پر مخالف جماعت کے ووٹرز کے ساتھ خوشی غمی کا بائیکاٹ کر دیا لوگوں نے انکے کارکنان کے پانی اور راستے بند کر دیئے لیکن کسی مخلص کارکن نے اُف تک نہ کی۔

جب امیر کارواں کو اقتدار ملاانہوں نے جاگیر دار کی اس رسم کی پیروی کرتے ہوئے ان لوگوں کے سیاسی ،معاشرتی اور معاشی سر قلم کرنا شروع کر دیئے کہ جنہوں نے قربانیا ں دیں،ماریں کھائیں،اپنی جمع پونجی لٹائی،اور ایسے سارے کارکنان کو دیوار کے ساتھ لگا کر وہ جاگیر دارانہ رسم پوری کی کہ مشکل وقت میں کام آنے والے کارکن دیکھ کر ان کو اپنا مشکل وقت یاد آ جاتا تھا اس لیے انہوں نے چُن چُن کر ان سب لوگوں کو اپنے اور اپنی سیاست سے دور کر دیا۔

اور ان لوگوں کو صف اول میں لا کر کھڑا کیا جو انکو بازاروں میں کھڑے ہو کر گالیاں دیتے تھے،سٹیج پر کھڑے ہو کر چور ڈاکو کہتے تھے،جو کہتے تھے کہ یہ ایک ابن الوقت ہے اور اپنی تجوریا ں بھرنے کے لیے سیاست میں آیا ہے۔ایسے لوگ جنکا حویلی کی سیاست میں ایک فیصد بھی کوئی رول نہیں وہ چرب زبانی اور مکاری کی بنیاد پر چھوٹے ،عام،اور غریب کارکنان کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اقتدار میں صف اول میں جا کھڑے ہوئے۔

آ ج امیر کارواں فیصل ممتا ز راٹھور کا ہر مخلص کارکن دل برداشتہ ہے،ہر کارکن،اب تبدیلی کی رہ دیکھ رہا ہے۔یہ کارکنان صرف راٹھور خاندان کے نوجوان نہیں بلکہ ان سارے قبائل کے نوجوان ہیں جنہوں نے گزشتہ الیکشن میں فیصل ممتاز راٹھور کو ووٹ دیئے انکی حمائت کی۔گو کہ امیر کارواں پورے بتیس ہزار لوگوں کو نوکریاں نہیں دے سکتے،گو کہ وہ سارے قبائل کو اکاموڈیٹ نہیں کر سکتے مگر اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنے چور لٹیرے اور ڈاکو ٹائپ حواریوں سے ان لوگوں کو بچا لیں جنہوں نے ممتاز راٹھور مرحوم کی قبر کی لاج رکھ کر ووٹ دیئے۔

اتنا تو کر سکتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کے تبادلوں پر لگنے والی بولیاں ختم کر دیں،اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ہر خالی آسامی پر لگنے والی بولی تین لاکھ اور دولاکھ سے کم کر کے یا اس کو ختم کر کے کسی غریب یا بے کس کو میرٹ پر نوکری دے دیں،اتنا تو کر سکتے ہیں کہ جن بااثر لوگوں نے ترقیاتی فنڈز لیکر ہڑپ کیئے اور گراؤنڈ پر کام صفر بھی نہیں ہوا صرف کاغذی کارروائی کی حد تک سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دی ان سے وہ قومی امانت واپس لیکر حویلی کی تعمیر و ترقی پر لگادیں۔

امیر کاروں ایک ایسے امیر کارواں ہیں کہ ظاہری طور پر(اندر کی کہانی کچھ اور ہے) جنہیں پتہ ہی نہیں کہ انکی سول ایڈ منسٹریشن لوگوں سے پیسے لیکر انہیں نوکریوں کا جھانسہ دیتی ہے،اور جب امیر کارواں کو بتایا جائے تو فرماتے ہیں کہ رشوت کا ثبوت فراہم کیا جائے،اب بھلا رشوت لینے والا یا دینے والا بھی کبھی ثبوت چھوڑتا ہے پھر بھی جب ثبوت پیش کیا جائے تو امیر کارواں فرماتے ہیں کہ یہ تو کارکن کو اکاموڈیٹ کیا ہے۔

واہ جی واہ۔ چلو مان لیا کہ با اثر کارکن کو اکاموڈیٹ کیا لیکن اس بیچارے غریب کارکن کا کیا قصور جس سے لاکھ دو لاکھ وصول کر کے بڑے اور با اثر کارکن اکاموڈیٹ ہوئے جن کے معدے بھی ایسے کہ لکڑ ہضم پتھر ہضم۔ایسے با اثر کارکن جن کے پاس چار سال پہلے گھر کے لیے سودا خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے انہیں صف اول میں لا کر امیر کارواں نے اس قدر اکامو ڈیٹ کیا کہ آج چار سال بعد لگثری گاڑیوں کے مالک بن گئے ۔

اگر امیر کاروں کی یہ نگاہ اسی طرز پر بلند،اور انکا سُخن اسی طرز پر دلنواز رہا تو امیر کاروں کے اس سیاسی سفر کی یہ آخری منزل ہونے کے ساتھ جان پُر سوز ہونے کی عملی شکل بھی دیکھنے کو ملے گی اور آمدہ الیکشن میں ہو سکتا ہے کہ امیر کارواں بھی نیا رختِ سفر باندھنے سے انکار کردیں۔کیوں ؟ کیونکہ انکے ایک مشیرِ خاص ایسے سُخن ساز ہیں جو امیر کارواں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ سیاست امیر کارواں کی مجبوری نہیں بلکہ خاندان کی مجبوری ہے کہ وہ آپ کو امیر کارواں بنائیں اور امیر کارواں بھی اسی زُعم میں مبتلا ہیں کہ لوگوں کی یہ مجبوری ہے کہ وہ مجھے ہی امیر کاروں بنائیں اور میرے خیال سے انہیں اپنی یہ غلط فہمی یا خوش فہمی دور کر لینی چاہیئے ۔

گزشتہ الیکشن تک لوگ بیس سال سے اپوزیشن میں تھے جس کی وجہ سے امیرکارواں کو کامیابی ملی مگر اب خاندان کی مجبوری یہ نہیں کہ وہ جھوٹی شان کی خاطر اپنی جانیں دیتے رہیں گے اور بدلے میں ایک بااثر طبقہ انہیں محکوم بناتا اور لوٹتا رہے گا ۔اب وقت تبدیل ہو رہا ہے اور سیاست کا رخ بھی تبدیل ہو رہا ہے ۔اب لوگ گراؤنڈ پر کام دیکھتے ہیں۔جو ڈلیور کرے گا وہی امیر کارواں بنے گااور امیر کارواں کو یہ بھی یاد کروا دینا چاہتا ہوں کہ حویلی سوا دولاکھ لوگوں کا ضلع ہے یہ کوئی راولپنڈی کی کسی جعلی ہاؤسنگ سکیم یا کسی گلی کا کارنرپلاٹ نہیں کہ وہ ” تاجی کھوکھر “کے ساتھ مل کر اس پر قبضہ کر لیں گے، اگر ان کی کارکن کش اور عوام دشمن پالیسیاں یوں ہی جاری رہیں تو جس طرح یہ لوگ اپنا،تن من،دھن لٹا کر انہیں اقتدار تک لائے تھے اسی طرح اپنا تن،من،دھن،لُٹا کر آنے والے الیکشن میں واپس راولپنڈی بھجیں گے۔

وقت اب امیر کارواں کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور امیر کارواں بھی اس سوچ میں ہیں کہ آمدہ الیکشن جو یقینی طور پر ان کے حواریوں اور حاشیہ برداروں کی وجہ سے انکے لیے شکست کا باعث بنے گا یہ الیکشن وہ خواجہ طارق سعید کو دینا چاہتے ہیں اورایک تیر سے دو شکار کرنے کے خواہشمند ہیں ایک تو خواجہ طارق سعید پر احسان اور دوسرا برادری اور دیگر قبائل کو مسلم کانفرنسی دور حکومت کے گزشتہ دس سالہ استحصالی دورکی طرح اگلے پانچ سال بھی چوہدری محمد عزیز کے استحصال کا سامنا کر نا پڑے گا یو ںآ نے والے پانچ سال وہ اپنے حکومتی پانچ سال کی کمائی سے ایک بزنس ایمپائر کھڑی کریں گے،بزنس سے مزید پیسہ کمائیں گے اور پانچ سال بعد لوگ خود منتیں کر کے انہیں الیکشن میں لاکھڑا کریں گے۔

لیکن امیر کارواں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اب لوگ اتنے بیوقوف نہیں رہے اب لوگ امیر کارواں کے حواریوں کی چالوں،اور” وارداتوں“ کو سمجھ چکے ہیں۔اب یہ باقی ماندہ دس ماہ امیر کارواں کے لیے انتہائی اہم ہیں اگر ان دس ماہ میں اپنا قبلہ درست کر لیا تو عوام کسی حد تک سپورٹ کریں گے ورنہ امیر کارواں کی نگاہ پہلے ہی اتنی بلند ہے کہ عام آدمی نیچے نظر ہی نہیں آتا اور حواریوں کے ساتھ اس سُخن دلنوازی کے بنا پر حقیقی معنوں میں جان پُر سوز کا مطلب سمجھ میں آ جائے گا۔پھر انہیں پتہ چلے گا کہ اقبال نے یہ شعر حقیقی معنوں میں کس کے لیے کہا تھا کہ #
نگاہ بلند ،سُخن دلنواز، جان پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرکارواں کے لیے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :