بلدیاتی فسانہ اور زمینی حقائق

جمعہ 29 مئی 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے بارے میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں ہمیشہ سے ہی ایک تخیلاتی اور رومانی فضا ء موجود رہی ہے۔ اقتدار کو نچلی ترین سطح پر منتقل کرنے ، عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے ، عوام کو اپنی تقدیر اور وسائل کا مالک بنانے کے بلند بانگ اور دلفریب نعروں کی گونج میں بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندے ایسے مسیحا نظر آتے ہیں جن کے بغیر اس زخمی ملک کے مسائل پر مرہم نہیں رکھا جاسکتا۔

تاہم حقیقت اس منظر سے کافی مختلف ہے جسکی ہر طرف تصویر کشی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں وقفوں وقفوں سے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروائے جاتے رہے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد بلدیاتی نمائندوں کے طور پر منتخب ہوتے رہے مگر ہر بار یہ لاکھوں منتخب افراد اس ملک پر کوئی مثبت اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہے۔

(جاری ہے)

اِس بات کو فی الحال یہیں چھوڑتے ہیں اور بلحاظ آبادی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

آزادی کے بعد گذشتہ اڑسٹھ سالوں سے بغیر کسی تعطل کے بھارت میں جمہوری نظام اور بلدیاتی ادارے قائم ہیں۔ بھارت میں بلدیاتی اداروں کی مختلف سطحیں ہیں۔ گاوٴں کی سطح پر پنچایتی یا ویلیج کاوٴنسل ، اور پھر اسی طرح تحصیل ، ضلع اور میٹرو پولیٹن کاوٴنسلیں قائم ہیں۔ بلا کِسی تعطل کے ان تمام اداروں کے انتخابات ہورہے ہیں اور نمائندے منتخب ہورہے ہیں۔

اگر کسی نے بھارت کے گندگی اور پسماندگی سے اٹے ہوئے دیہاتی علاقے دیکھے ہیں تو وہ یقیناً دیہی علاقوں کے منتخب نمائندوں کی” افادیت “ کا قائل ہوجائے گا۔ اگر کِسی نے کچی آبادیوں ، ٹوٹی ہوئی تباہ حال سڑکوں ،ابلتے ہوئے گٹروں اور شہر کے بیچوں بیچ بہتے نالوں والے بھارتی شہر دیکھے ہیں تو اِن شہری علاقوں کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی ” افادیت“ کا بھی قائل ہوجائے گا۔

کیا اس بات میں کوئی سبق ہے کہ کئی سطحوں پر مشتمل منتخب بلدیاتی اداروں اور صوبائی اور وفاقی حکومت والے شہر دہلی کی پچھتر فیصد آبادی غیر قانونی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے اور اس شہر کو دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دیا گیا ہے اور ممبئی شہر میں دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی قائم ہے۔ لاکھوں منتخب نمائندوں کے باوجود بھارت کے چالیس کروڑ سے زائد شہری بجلی کی نعمت سے یکسر محروم ہیں۔

صرف ایک صوبہ مہاراشٹر میں جوکہ بھارت کے امیر صوبوں میں سے ایک ہے ، گذشتہ ایک سال میں تیرہ سو سے زیادہ کسان خود کشیاں کر چکے ہیں۔ مختلف سطحی بلدیاتی اداروں اور دیگر جمہوری اداروں کے لاکھوں منتخب نمائندوں کی موجودگی کے باوجود بھارت میں عام آدمی کے حالات ایسے کیوں ہیں؟ یک جماعتی نظام کے حامل ملک چین اور ”مکمل“ جمہوری ملک بھارت کا موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

آخر مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ سماج کی سوچ، فکر اور تربیت کا ہے۔ یہی سوچ، فکر اور تربیت ہے جس کی وجہ سے ”غیر جمہوری “ چین کے شہر اور قصبے تو جدید دنیا کی آبادیوں کا روپ دھار رہے ہیں جبکہ بھارت جیسے سماج میں آج بھی کھیت اور کھلیان عوامی بیت الخلاء کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ اب واپس پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان میں جب بلدیاتی نظام کا آغاز کیا گیا تو عوام کو یہ چورن بھی دیا گیا کہ منتخب بلدیا تی نمائندے بغیر کسی تنخواہ کے فی سبیل اللہ عوام کی خدمات سر انجام دیں گے۔

بعد میں آنے والے آمروں نے بھی اس قوم کے امراض کا علاج منتخب بلدیاتی اداروں میں ڈھونڈا ۔ پرویز مشرف کے دور میں ان بلدیاتی ” منتخب “ نمائندوں کے لئے تنخواہیں بھی مقرر کی گئیں۔ کراچی جتنی آبادی والے صوبہ خیبر پختونخواہ کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں چالیس ہزار سے زائد نمائندے منتخب کئے جائیں گے۔ یہ منتخب نمائندے صوبے کی تقریباً چار ہزار گاوٴں کاوٴنسلز، قصبہ کاوٴنسلز، شہری محلہ کاوٴنسلز، تحصیل کاوٴنسلز ، ضلعی حکومتوں اور شہری ضلعی حکومت میں اپنے فرائض انجام دیں گے۔

ان چار ہزار کاوٴنسلز کے آٹھ ہزار ناظمین اور نائب ناظمین بھی منتخب ہونگے۔ خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی الیکشن کے موجودہ قانون مجریہ ۲۰۱۳ میں منتخب بلدیاتی نمائندں کی تنخواہوں کے بارے میں ابہام رکھا گیا ہے۔ تصّور یہ کیا گیا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کے لئے بدنام صوبے میں تمام منتخب نمائندے خدمتِ خلق کے جذبے سے بے تاب ہوکر بغیر کِسی تنخواہ کے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔

اِس بلدیاتی قانون کے مطابق ہر سطح کے بلدیاتی ادارے خصوصی مقاصد کا فنڈ قائم کر سکتے ہیں اور کسی بھی مد میں خرچ کر سکتے ہیں۔ شنید ہے کہ قانون کی اِنہی شقوں کا سہارا لیکر منتخب نمائندوں کی ” دال روٹی“ کا بندوبست کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے گاوٴں کاوٴنسلز اور شہری محلہ کاوٴنسلز کے امیدواروں کے لئے اخراجات کی حد پچاس ہزار اور تحصیل کاوٴنسلز اور ضلعی کاوٴنسلزکے لئے دو لاکھ کی حد مقرر کی ہے۔

تجزیوں کے مطابق امیدواروں کا اصل خرچہ مقررہ حد سے دگنے سے بھی زیادہ ہوگا۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اپنی جیب سے لاکھوں روپے خرچ کرکے، گلی گلی ، محلے محلے خجل خواری کرکے عوام کی منتیں ، خوشامدیں کرکے اگر ”مفت“ خدمتیں کرنی ہیں تو پھر اسکے لئے الیکشن لڑنے کی کیا ضرورت ہے ، مفت خدمت کا میدان تو ہر وقت کھلا ہے ۔ بغیر تنخواہ کی نمائندگی کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تنخواہ کی کیا ضرورت ہے، کھِلواڑ کے لئے قومی خزانہ جو ہے۔

اب بات کرتے ہیں ان منتخب نمائندوں کے فرائض یا ان خدمات کی جس کے لئے یہ منتخب کئے جارہے ہیں۔ بلدیاتی قانون کے تمام شیڈیولز میں شامل فرائض یا اصل کاموں میں سے ایک بھی ایسا کام نہیں ہے جو یہ منتخب نمائندے اپنے ہاتھوں سے کریں گے۔ مثال کے طور پر گلی ، محلوں، سڑکوں کی صفائی ہو، گٹروں کی صفائی ہو، نکاسی آب ہو، پیدائش کے سرٹیفیکیٹ کا اجراء ہو، مقامی ٹیکسوں کی وصولی ہو، مقامی حکومت کے اسکولوں اور ہسپتالوں کا انتظام ہو ، ٹول ٹیکسوں کی وصولی ہو یامقامی قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں کی وصولی ، یہ تمام کام سرکاری ملازمین اور افسران انجام دیں گے جو وہ اب بھی اپنی استعداد کار کے مطابق انجام دے رہے ہیں۔

چالیس ہزار منتخب نمائندے صرف اسکیموں کی منظوری میں شامل ہونگے (یعنی اپنا حِصّہ وصول فرمائیں گے) اور ان سرکاری ملازمین کی مزید ” نگرانی“ فرمائیں گے۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موجودہ ترقیاتی بجٹ میں چالیس ہزار مزید حصے دار پیدا ہونے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ بھولے بھالے عوام کو یقیناً پتا ہوگا کہ اگر انکی بلدیاتی کاوٴنسل میں ملازمین کی موجودہ تعداد بیس ہے تو یہ تعداد اتنی ہی رہے گی صرف ان بیس سرکاری ملازموں کے ساتھ چند ” ویلے “ منتخب بلدیاتی نمائندے بھی شامل ہوجائیں گے۔

بلدیاتی قانون کے مطابق ہر گاوٴں کاوٴنسل یا شہری محلہ کاوٴنسل کم سے کم دوہزار کی آبادی پر مشتمل ہوگی اور اس میں منتخب ارکان کی کم از کم تعداد دس ہوگی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس گاوٴں کاوٴنسل کی حدود میں آنے والے سرکاری ملازمین (جن سے ان منتخب نمائندوں نے کام لینا ہے ) کی تعداد شاید دو یا تین ہو یا پھر ایسے ملازمین کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔

امید رکھنی چاہئے کہ یہ پر خلوص نمائندے عوام کی بھر پور خدمت کے لئے اپنے زورِ بازو پر خوب بھروسہ رکھیں گے۔ قارئین جانتے ہی ہونگے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں منتخب نمائندوں کی تعداد بالحاظ تناسب پنجاب اور سندھ سے کافی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں کے حلقے تقریباً ڈھائی لاکھ آبادی پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ میں صوبائی حلقہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ اور بلوچستان میں سوا لاکھ آبادی پر مشتمل ہوتا ہے۔

بالفاظِ دیگر پنجاب اور سندھ میں قومی اسمبلی کے حلقے کے نیچے دو صوبائی اسمبلی کے ممبران منتخب ہوتے ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ میں قو می اسمبلی کے حلقے کے نیچے تین ممبران اور بلوچستان میں چار ممبران صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے ہیں۔ اِن دو چھوٹے صوبوں میں صوبائی حلقے چھوٹے ہونے کی وجہ سے عوام کی اپنے ممبران تک رسائی ”آسان“ ہوتی ہے۔

پچیس اور پچاس فیصد زیادہ منتخب نمائندے ہونے کے باوجود یہ دونوں صوبے پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں کافی پسماندہ ہیں۔تو پھر آخر مسئلہ کیا ہے؟ جناب! مسئلہ سماج کی سوچ، فکر اور تربیت کا ہے۔ مغربی ممالک کی ترقی اور بہتر طرز حکومت منتخب اداروں کی افراط کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ عوام کی بہتر تربیت، تعلیم اور مثبت انداز فکر کی وجہ سے ہے۔ نمائندگی جتنی مرضی بڑھاتے رہیں، جب تک سماج کے انداز فکر میں تبدیلی نہیں آئے گہ پرنالہ وہیں کا وہیں گرتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :