حافظ سعید نے عبید کو بچا لیا

پیر 25 مئی 2015

Sabookh Syed

سبوخ سید

حافظ سعید احمد صاحب بتا رہے تھے کہ
’’میں جماعہ الدعو ہ کے لاہور میں قائم مرکز مسجد قادسیہ لاہور میں بیٹھاتھا کہ بلوچستان سے ایک قافلہ پہنچا . قافلے کے سربراہ نے نوجوانوں سے تعارف کراتے ہوئے ایک نوجوان کے بارے میں بتایا کہ اس نوجوان کا تعلق واران سے ہے اور اس کا باپ پہاڑوں پر بندوق لیکر بیٹھا پاک فوج کے خلاف جنگ میں مصروف ہے.
میں نے حیرانی کے عالم میں نوجوان سے پوچھا کہ آپ کی اور آپ کے والد کی راہ میں فرق کیوں ہے؟
نوجوان نے مجھے بتایا کہ
’’ہمارے علاقے غربت بہت زیادہ ہے .لوگوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں. تعلیم اور صحت کا کوئی انتظام نہیں . جماعت الدعوہ کے ادارے فلاح انسانیت فاونڈیشن کے نوجوانوں نے ہمارے علاقے میں لوگوں کی خدمت کی ۔

میں نے کافی دن تک ان کے کام کا بغور جائزہ لیا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ لوگ سچائی سے کام کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)


انہوں نے مجھے سمجھایا کہ بندوق اٹھانے سے مزید نفرتیں جنم لیتی ہیں جبکہ بلوچستان کے لوگوں کے مسائل بندوق کے بجائے کام کرنے سے حل ہو سکتے ہیں ۔ یہ بات میری سمجھ میں آگئی اور بس یہی فرق ہے مجھ میں اور میرے والد کی سوچ میں ۔‘‘
حافظ صاحب نے بتایا کہ انہوں نے عبید کو تربیتی سنٹر میں بھیج دیا ۔

کورس مکمل کرنے کے بعد اس نوجوان کو واران میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا نگران بنا دیا گیا ۔اب وہ وہاں کام کر رہا ہے ۔ علاقے کے لوگوں کے لیے کنویں ،مساجد کی تعمیر ، اسکولوں میں کتابیں اور صحت کی سہولیات جماعت الدعوہ کی جانب سے بہم وہاں پہنچائی جا رہی ہیں ۔
2008 میں بلوچستان کے علاقے تربت میں چار بلوچ رہ نما قتل کر دیے گئے تھے ۔ ان کی لاشیں مرغاب نامی ایک علاقے میں پڑی تھیں ۔

میں وہاں گیا تو دیکھا کہ وہاں آزاد بلوچستان کا پرچم لہرا رہا ہے ۔ میں نے اس پر رپورٹ بھی کی جو اس وقت جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں حامد میر صاحب نے نشر کی ۔ جس دن میں تربت ائیر پورٹ پر پہنچا تو بلوچستان کے ایک صوبائی وزیر نے مجھے کہا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں ، تمھیں فورا واپس جانا چاہیے ۔ میں نے انہیں کہا کہ دیکھتے ہیں ۔
تربت ائیر ہورٹ سے میں برادرم صلاح الدین( مقامی صحافی ہیں)کے ہمراہ ہوٹل پہنچا تو بتایا گیا کہ اس ہوٹل میں تھوڑی دیر پہلے مشتاق منہاس صاحب اور نصرت جاوید صاحب اپنا پروگرام ریکارڈ کر کے گئے ہیں ۔

میں نے انہیں فون کیا تو مشتاق منہاس صاحب نے مجھے کہا کہ حالات ٹھیک نہیں کیونکہ ایک روز قبل یہاں تین پنجابیوں اور ایک کشمیری کو قتل کیا گیا ہے ۔ اس واقعے کے بعد آٹھ ہزار آباد کاروں تربت سے نقل مکانی کی ۔ میں نے یہ سوچ کر کہ زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ،اپنا کام شروع کر دیا ۔
پہلے روز چار بلوچ رہ نماؤں کے قتل پر رپورٹ کی اور پھر اگلے روز میں نے گورنمینٹ عطا شاد کالج تربت کا رخ کیا ۔

میرے ہاتھ میں جیو نیوز کا مائیک تھا ،جو نہی کالج میں داخل ہوا تو نوجوان لڑکوں نے میرے گرد گھیرا ڈال لیا ۔ ایک نے مجھے دھکا دیا تو میں نے اس سے معذرت کی جس پر وہ ہنس گیا ۔ مجھے ایک نئی کربلا دکھائی دینے لگی ۔ میرے ساتھ کیمرا مین رضوان مرزا تھے جو پریشان تھے ۔ ایک لڑکا آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ تم پنجابی ہوں ، میں نے کہا نہیں میرے بھائی ، میرا نام سبوخ سید ہے اور ہم بنیادی طور عرب ہیں ۔

اس خطے میں تجارت اور اسلام کی دعوت کے لیے ہمارے بڑے آئے تھے ،شاید ان کے پاس واپسی کا کرایہ نہیں تھا ،اس وجہ سے وہ یہیں رہ گئے ۔ ان کے یہاں رہنے کی وجہ سے ہمیں بھی یہیں پیدا ہونا پڑا ۔ لڑکے ہنس پڑے ۔
ایک دو نے مزید سوال پوچھنے شروع کئے تو میں نے کہا کہ دیکھو بھائی ، تم بلوچ ہو اور میں عرب ، ہمارے ہاں ایک مشترکہ چیز ہو تی ہے جسے مہمان نوازی کہتے ہیں ۔

تم لوگوں نے نہ پانی کا پوچھا اور نہ ہی چائے کا ، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی نا ۔ اس پر انہوں نے مجھے فل پروٹوکول دیا ۔ سب ملے ، اپنے کالج کی کنٹین میں لے گئے ، چائے پلائی ،کیک کھلائے ۔ پھر ہم کالج کے مین ہال میں داخل ہو ئے جہاں انہوں نے مجھے زبردستی آزاد بلوچستان کا ترانہ یاد کرایا ۔
میں نے تقریبا دو ہفتے وہاں گذارے ۔ ذکریوں کے مرکز میں گیا ، کوہ مراد کی زیارت کی ۔

کئی ذکری اور نمازی دوستوں سے ملا ۔ بلوچ دوست بن گئے ،روزانہ رات کو بکرے کی سجیاں کھلاتے کہ میرے مسوڑھے جواب دینے لگے ۔ واپسی پر ان کے تحفوں میں لدا پھندا کراچی پہنچا ۔
دو ہفتوں کے دوران مختلف علاقوں میں گیا ۔ ان میں ایسے علاقے بھی تھے جن کے بارے میں آج بھی سوچ کر کانپ جاتا ہوں کہ وہ لوگ کیسے رہ رہے تھے ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک ہی کمرے میں گدھے ،تین بکریوں اور نو افراد پر مشتمل خاندان کو رہتے دیکھا ۔

اپریل کا مہینہ تھا لیکن ناقابل برداشت گرمی نے چلنا ناممکن بنا دیا تھا ۔
ایک روز ہم کام کے لیے نکلے ۔ راستے میں ایک جگہ رک کر ویڈیو بنا رہے تھے دو لڑکیاں دوڑتی ہمارے طرف آئیں ۔ ایک نویں کلاس میں پڑھتی تھی جبکہ دوسری ساتویں کلاس میں تھی ۔ نام مجھے ان کے اب بھول گئے ہیں۔ ان کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں تھیں ۔ دھوپ کی وجہ سے چہرے سرخ ہو چکے تھے ۔

انہوں نے مجھے ایک عجیب سی دعوت دی جسے سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی ۔ کہنے لگیں تم صبح آٹھ بجے ہمارے اسکول آنا ، ہم نے آزاد بلوچستان کا جھنڈا تیار کر لیا ہے ۔ کل ہم اسکول میں جھنڈا لہرائیں گے اور آزاد بلوچستان کا ترانہ بھی پڑھیں گے ۔ صلاح الدین نے بتایا کہ یہ اسکول سابق وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال نے بنوایا تھا ۔ بحثیت صحافی مجھے وہاں جانا چاہیے تھا ۔

ان کی محبت بھری دعوت رد نہیں کر نی چاہیے تھی ۔ میرے اندر اس منظر کو دیکھنے کی ہمت نہیں تھی ،میں نہیں چاہتا تھا کہ ان لڑکیوں کو کبھی اپنی زندگی میں یاد کروں تو اس کے ساتھ یہ منظر میرے ذہن کو ڈسٹرب کرے ۔اس لیے میں وہاں نہیں گیا ۔
میں نے لڑکیوں کے کئی اسکولوں کا دورہ کیا ۔ شدید گرمی اور حبس میں کلاسیں بھری ہوئی تھیں ۔ عطا شاد کالج کے سامنے لڑکیوں کا کالج قائم تھا جس کی گنجائش صرف 200 طالبات کی تھی لیکن وہاں انرولمنٹ ساڑھے سات سو سے زائد تھی ۔

حاضری بھی مکمل ہوتی تھی۔ تاہم اس کالج میں صرف دو واش روم تھے ۔ ٹیچرز کے لیے اسٹاف روم کا بھی مسئلہ تھا ۔ لڑکیاں پانی کی جگہ گرم تیل پیتی تھیں کیونکہ وہاں کولر نہیں تھا۔
حافظ سعید صاحب اپنا قصہ سنا رہے تھے کہ میرے آنکھوں میں نمی آ گئی ۔ مجھے بلوچستان کی وہ ننھی منی پریاں یاد آ گئیں جنہیں پینے کے لیے پانی کا ایک ٹھنڈا گلاس بھی میسر نہیں تھا ۔


حافظ سعید بتا رہے تھے کہ بلوچستان میں اب اتنشار کے بجائے استحکام آ رہا ہے ۔ان کے ادارے نے بلوچستان میں وہ کام شروع کئے جو ریاست پاکستان کو کرنے تھے لیکن حافظ سعید نے ہمیشہ خود کو پورا پاکستان سمجھا ہے ۔ کیوں نہ سمجھے ،جس کا خاندان پاکستان ہجرت کے دوران کٹ گیا ہو ،وہ اس ملک کے لیے جنونی تو ہو گا نا ۔
اس جنونی حافظ سعید کی کرامت نہیں بلکہ کام سے اب واران ، تربت ، تمب ،مند ،پنجگور اور گوادر سمیت مختلف علاقوں میں لوگ اپنے گھروں پر پاکستان کے جھنڈے لہراتے ہیں اور یوم پاکستان پر ریلیاں نکالتے ہیں ۔

میں نے حافظ سعید صاحب کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے کام کی نمائش دیکھی ۔ مجھے میرے بلوچ دوستوں نے بھی بتایا تھا کہ جماعة الدعوہ بلوچستان میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بڑا کام کر رہی ہے ۔ اور اس کام کے نتیجے میں عبید جیسے لوگوں کے ذہن بدل رہے ہیں ۔ ان کے ذہنوں میں آزادی کے نام پر رچائے گئے فریب اور سراب ختم ہو کر حقیقت کے رنگوں میں ڈھل رہے ہیں ۔

پروپگنڈے دم توڑ رہے ہیں لیکن ایک پروپگنڈا مضبوط ہو رہا ہے اور وہ یہ کہ حافظ سعید عالمی دہشت گرد ہے ۔ میں بھی کل تک اسی پروپگنڈے کا شکار تھا لیکن حافظ سعید کا یہ چہرہ جب میں نے دیکھا تو مجھ پر تصویر واضح ہو گئی ۔
میں نے جان لیا کہ بھارت حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد کیوں کہتا ہے کیونکہ حافظ سعید پاکستان میں بھارتی ایجنڈے اور اس کے مکروہ عزائم سے عبید جیسے بچوں کو
بچاتا ہے ۔

وہ بچوں سے وہ کام کراتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔ پاکستان مضبوط ہوتا ہے اور بلوچستان میں استحکام نظر آتا ہے ۔
میں نے عالم رویا میں بطریق منام بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے پوچھا کہ
مودی صاحب : آپ کو حافظ سعید سے کیا مسئلہ ہے ؟
تو مودی صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ واک شروع کی اور کہا کہ
دیکھو منے
اگر کسی کے سامنے کوئی اس کی کھڑی فصل کاٹ رہا ہو تو اسے تکلیف تو ہو گی نا ۔

میں نے کہا ، مودی سرکار ۔ حافظ سعید نے کس کی فصل کاٹی ؟
اس نے کہا ،دیکھ بھائی
سیدھی سی بات ہے کہ تم جب بلوچستان میں ہماری برسوں کی محنت کو تباہ کر و گے تو ہم تمھیں اور تمھارے ملک کو دنیا بھر میں دہشت گرد مشہور کرا دیں گے کیونکہ ہمارا میڈیا اور عالمی میڈیا اس معاملے میں تو ایک ہیں ۔
اس دوران میں اچانک جاگ گیا ۔ گھر والوں نے کہا کہ کیا ہوا ہے ۔ میں نے پوچھا کہ کیوں ؟ کیا ہوا ؟
کہنے لگے
تم اونچی اونچی آواز میں کہہ رہے تھے کہ
ہمارا میڈیا بھی ،ہمارا میڈیا بھی
تمھارا شور سن کر ہم جاگ گئے ۔
میں نے کہا کہ
کاش
باقی بھی جاگ جاتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :