تربیت کا فقدان۔۔

جمعہ 22 مئی 2015

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

ہم پاکستانیوں کا کسی بھی شعبے میں سب سے بڑا مسلئہ تربیت کا فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی میدان میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ بے صبری، جذباتی رد عمل، عدم برداشت اور بے محل تنقید میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ سقراط نے ایک بار کہا تھاکہ ” اچھے دماغ کے لوگ خیالات پر تنقید کرتے ہیں جبکہ کمزور دماغ کے لوگ،، لوگوں پر تنقید کرتے ہیں“۔

۔ لگتا ہے سقراط کو شائد پاکستانیوں کے بارے میں اُس وقت ضرور کوئی الہام ہوا ہوگا جس پر ایک طویل عرصہ پہلے آج کے پاکستانی معاشرے کی اس خوبی سے متعلق پیشن گوئی کر دی تھی۔۔۔اس لحاظ سے آج موجودہ پاکستان کو دیکھا جائے تو تنقید وعدم برداشت ایک وبائی مرض کی طرح ہر طرف دکھائی دیتی ہے، جوروزمرہ معمولات زندگی کی طرح عام عادت کا رُوپ دھار چکی ہے۔

(جاری ہے)

۔۔جیسے صبح سویرے معمول کے کام کاج کا آغاز ہوتا ہے اسی طرح تنقیدوعدم برداشت کا مادہ بھی صبح سویرے ہی انگڑائیاں لیتا اُبھرتاہے جو رات گئے بستر پر جانے تک جاری رہتا ہے۔۔۔۔یوں تو تنقید اپنے نقطعئہ آغاز سے ہی تلخی کو جنم دیتی ہے مگر مسلسل یا پے درپہ تنقیدحرارت کو بڑھا کر مخالف کورد عمل پر مجبور کر دیتی ہے جس سے فریقین کے مابین جھگڑا کی شروعات ہوتی ہے جو ہوتے ہوتے جارحانہ انداز اختیار کر لیتا ہے،اس صورت میں نہ صرف فریقین بلکہ اُن سے جُڑے دیگر رشتے بھی اس دانستہ جھگڑے کی لپیٹ میں آجاتے ہیں،جس سے تمام لوگ ایک نفسیاتی اُلجھن سے دوچارہو جاتے ہیں ۔

۔۔۔ بی بی سی کے لئے لکھنے والے وسعت اللہ خان نے اپنی ایک تحریر میں کیا خوب کہا ہے کہ ”ہماری قوم علاج سے پہلے بیماریاں از خودتخلیق کرتی ہے“،، یعنی پہلے ٹھیک ٹھاک ٹھندا پانی پی کرگلا خراب کرتی ہے پھر اُس کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کے چکر لگاتی ہے،،،تنقید بضاہر کوئی بُری بات نہیں ہے، اگر تعمیری اور مثبت انداز میں کی جائے تو اصلاح کا سبب بنتی سکتی ہے جبکہ بے جا اور بے محل تنقید برائے تنقید بجائے اصلاح کے بگاڑ پیدا کرتی ہے۔

۔زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہر شخص میں تعمیری اور تخریبی پہلو ضرور ہوتے ہیں۔لہذا ناقد اگر تنقیدکرتے وقت شخصیت کی کردار کشی کی بجائے اس شخص کی ذات کو احترام دیتے ہوئے اس شخص کے فعل کی اصلاح کو مد نظر رکھے تویعقیننا مثبت نتائج مرتب ہونگے، کیونکہ غلط خیالات یا یا غلط سوچ پر تنقید کی ببجائے اگرشخصیت کی کردار کشی یا تذلیل کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے توردعمل کے طور پرایسے ہی منفی رویے جنم لیتے ہیں جن سے فریقین کے مابین جنگ وجدل کا ماحول پیدا ہوتاہے جوکہ قوم باالخصوص نوجوان نسل کی گھٹی میں غصے، بے چینی اور تناوء کا باعث بنتا ہے،،،دوسری جانب اس کے برعکس مثبت رویے سے برداشت کا مادہ نمو پاتا ہے اور سامنے والا نا چاہتے ہوئے بھی اُسی لب و لہجے میں جواب دینے کا پابند ہوجاتا ہے،ایسے میں قوت برداشت و استقامت پیدا ہوتی ہے جس سے پہاڑ جیسی تنقید بھی باآسانی برداشت کی جا سکتی ہے۔

۔۔اور برداشت و استقامت دراصل صبر ہی کا دوسرا نام ہے۔۔۔ صبر اگر چہ ایک مشکل عمل ہے مگر تنقید کے رد عمل کے طور کرناصبر دراصل ایک ایسی تھیراپی ہے جو انسان کو اللہ کے قریب لے جا کر خالق کامحبوب بنا دیتی ہے ۔۔۔۔قرآن کہتا ہے ”اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“ ۔ایسے جب اللہ کا ساتھ حاصل ہو جائے تو پھر انسان کے لئے تمام مشکلات وپریشانیاں کوئی حیثیت باقی نہیں رکھتیں۔


دور حاضر کو دیکھا جائے تو آج کے خراب اور انتشار سے بھرپُور حالات میں بے جا تنقید، عدم برداشت اور بے صبری کا بہت بڑا حصہ ہے۔۔ہمارے سیاستدان ہوں یا ادارے ، گھر ہو یا دفتر اور اسکول ہو یا مدرسہ ،یعنی ایک فرد سے لیکر اداروں تک سب ہی ان وبائی ا مرض میں دانستہ نا دانستہ بُری طرح مبتلا ہو چُکے ہیں۔۔۔۔ایک دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر انکے تداراک کی بجائے شخصیت کی کردار کشی اور تذلیئل کے لئے ساری اخلاقی حدیں پار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔

ایسا رویہ اختیار کرنے سے کمزوریاں تو وہیں رہ جاتی ہیں جبکہ فریقین کے تندو تیز جملوں کے باعث غیر اخلاقی جنگ کی ایک قیفیت ضرور پیدا ہو جاتی ہے،،معاشرے کا کُل بگاڑ انہی مذکورہ امراض کی بدولت ہے جو کہ ہماری موجودہ اور بالخصوص آنے والی نسلوں کو بُری طرح تباہ کر رہا ہے اور اسکے ذمہ دار ایک فرد سے لیکر ایوان اقتدار تک ہم سب ہیں،،بے اعتنائی کے اس عالم میں ایسا لگتا ہے جیسے سب بے لگام ہو کرایک مخالف سمت میں چل رہے ہیں،،،باپ کو بچوں کی، شوہر کو بیوی کی،بھائی کو بہن کی اورحکومت کو عوام کی ،کسی کو کسی کی تربیت سے کوئی غرض نہیں،،سب بے پرواہ اپنی موج میں مست زندگی گزار رہے ہیں۔

۔۔جبکہ بچی کُچی کسر بے لگام میڈیا پوری کر رہا ہے،،وہ میڈیا جسے آئینہ کہا جاتا ہے جس سے آج کے دور میں اصلاح کی بہت توقع کی جاسکتی ہے،،، مگر بد قسمتی سے یہ بھی اپنی ریٹنگ کی دوڑ میں تمام اخلاقی حدیں بے دردی سے کُچلتا جا رہا ہے۔۔۔مارننگ شو ہوں۔۔یا سیاستدانوں کی گالیوں سے بھر پور ٹاک شوز، ملکی وغیر ملکی غیر اخلاقی ڈرامے ہوں، یا غیر اخلاقی کمرشلز یہ سب نتائج کی پرواہ کئے بغیراس ڈھٹائی سے دکھائے جاتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کی اصلاح کی کوئی اُمید باقی رہ نہیں جاتی ،،۔

نسل تباہ ہو یا بربا د، بس اپنی مناجات اور مفادات عزیز رکھے جاتے ہیں۔۔۔تنقید کرنے والا تنقید کر کے اپنی سیاست یا دکان چمکاتا ہے اور تنقید سُن کر اُس پر عدم برداشت کا مضاہرہ کرنے والا بھی اُسی حرارت میں جواب دے کر آگ کو مذیدبڑھکاتا ہے،، بس اسی روش پر ہمارا معاشرہ سالوں سے گامزن ہے،،، ملک میں جاری آپریشن ضرب عضب ہو یا راہ نجات، عدالت کی طرف سے سوؤ موٹو ہو یا جوڈیشل کمیشن،، اسطرح سے کبھی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکے گی جب تک کہ قوم کی انفرادی و اجتمائی پر تربیت سازی نہ کی جائے،،جس کے لئے ضروری ہے کہ گھر سے لیکر حکومت تک سب اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں،، گھر کا سربراہ اپنے زیر سایہ افراد کو آزاد چھوڑنے کی بجائے انکی ذہنی واخلاقی تربیت کرے،،،حکومت قوم باالخصوس نوجوان نسل کی اجتمائی تربیت کے حوالے میڈیاسے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن پر ترجیحی بنیادوں پر تربیتی و علمی پروگرامز شروع کروائے،،میڈیا کا ضابطہء اخلاق مرتب کرکے اُن پر اُن تمام پروگرامز پر پابندی لگائی جائے جو نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کی بجائے انکو غیر اخلاقی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں ،،،اس کے ساتھ ساتھ حکومتی و اداراتی چپکلش کو بھی اگر میڈیا سے دور ایوانوں تک ہی محدود کر لیا جائے تو یہ بھی قوم کے لئے ایک احسان ہوگا،،بصورت دیگر ہزاروں ملٹری آپریشنز یا جوڈیشل کمیشنز سے قوم کی تعمیر و اصلاح کی توقع ایک دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :