ابا جی کا مال

منگل 19 مئی 2015

Hussain Jan

حُسین جان

گھر داخل ہوتے ہی اماں جی نے بجلی کا بل ہاتھ میں تھما تے ہوئے حکم صادرفرمایا لو بیٹا کل تک اسے بینک میں جمع کروادینا، پہلے تو سوچا کیوں نہ اس دفع اماں جی کی حکم عدولی کی جائے ، پھر سوچا وہ تو ماں ہیں معاف کر دیں گی پر واپڈا والے بہت ظالم ہیں فورا میٹر کاٹنے آجائیں گے، کہ ہم کون سا کسی بڑئے باپ کے بیٹے ہیں جن کا سب کچھ سرکاری کھاتے میں سے پورا ہو جاتا ہے۔

ویسے موڈ تو خراب ہوہی چکا تھا ،لہذا جب بجلی کے بل کی رقم دیکھی تو محاوراتاً نہیں حقیقاًہمارے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے، یوں لگا جیسے کسی نے کئی ہزار وولٹ کا کرنٹ ہمارے جسم میں سے گزار دیا ہو۔ ویسے ہم ہیں تو پانچ وقت کے بجلی استعمال کرنے والے ہیں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہزاروں کے حساب سے ہمیں بل بھجوا دیا جائے۔

(جاری ہے)

قائد نے تو اس ملک کو فلاہی ریاست بنانے کا عزم کیا تھا۔

مگر قائد کے نااہل جانشینوں نے اس ملککو اپنے ابا جی کی جاگیر سمجھ رکھا ہے ۔
خیر بات ہو رہی تھی بجلی کے بل کی جس پر جعلی حروف میں "Say no to corruption"لکھا ہوا تھا۔ ہم نے جب اس جملے کا مطالعہ کیا تو ہنسنا شروع کر دیا اور اتنا ہنسے کہ زوجہ ماجدہ نے اپنے گھر والوں کو فون کھڑکا دیا کہ مبارک ہو آج سے میں آزاد ہونے والی ہوں، بس پاگل خانے سے گاڑی آتی ہی ہو گی۔

لہذا سوچا کیونکہ نہ بیوی کی خوائش ادھوری ہی رہنے دی جائے تو فورا ہی ہنسنا بند کر دیا۔ ہاف بیٹر برا سا منہ بنا کر کمرے میں چلی گئی اور اماں نے کہا کہ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ پاگلوں کی طرح گلاپھاڑ پھاڑ کر ہنس رہے ہو۔ جواب دیا کچھ نہیں ماں جی آپ بس ایک کپ چائے بنا دیں کیونکہ آپ کی بہو نے تو منہ بنا لیا ہے اب چائے مشکل سے ہی بنائے گی کہ وہ کہتی ہے ایک میں ایک وقت میں ایک چیز ہی بنا سکتی ہوں۔


میں سوچ رہا تھا جو قوم 68 سالوں میں کرپشن کو نہیں چھوڑ سکی کیا وہ ایک لائن سے بندے کی پتر بن جائے گی۔ پاکستان کے وسائل کو لوٹنے والے اگر ایک جملے سے ٹھیک ہوسکتے تو بہت پہلے کے ہی ٹھیک ہوچکے ہوتے۔پاکستان میں ایک رواج ہے کہ اگر بچے میں پیدائشی طور پر کوئی نقص نکل آئے تو فورا اُسے امام مسجد کے سپرد کر دیتے ہیں کہ اسے حافظ بنا دیں اور جو بچے تیز طرار ہوتے ہیں انہیں سکولوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔

یہی حال سیاست کا ہے جو بچہ سب سے زیادہ لڑاکا،چلاک، کرپٹ ہو اُسے کہتے ہیں بیٹا تو تو سیاستدان ہی بن جا یا پھر پولیس میں چلا جا کہ تجھ میں سارے گن موجود ہیں۔ دور کہاں جائیں ہمارے اپنے ماشاء اللہ 7 سالے ہیں جن میں سے 6تقریبا شریف النفس ہیں لہذا چھوٹا موٹا کاروبار کر رہے ہیں اور جس سے گھر والے ہمیشہ تنگ رہتے تھے وہ خیر سے پولیس میں بھرتی ہو گیا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ اس سے باقی 6کے سینے مزید چوڑے ہو گئے ہیں کہ بھائی پولیس مین ہو گیا ہے۔
پاکستان میں اس وقت تقریبا 99فیصد افراد کرپٹ ہیں،جس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ لگا لیتا ہے۔ دوسرئے کے مال کو ہمیشہ اپنے والد محترم کا مال سمجھ کر غبن کر لیا جاتا ہے۔ پہلے بات کرتے ہیں بجلی چوری کی، چوری کروانے والے کون سرکاری بندے اور کرنے والے کون عام عوام، آپ کسی بھی میٹر ریڈر،لائین میں،کلرک سے کہ دیں کے یار گرمی آگئی ہے لہذا ایک عدد اے سی چلانا ہے لیکن بجلی کابل میں زیادہ ادا نہیں کرسکتا تو آپ کو فورا جواب ملے گا سرکار ٹینشن نہ لو بس ہمارئے ساتھ منتھلی مقرر کرلو باقی بل جتنا کہو گے اُتنا ہی آجائے گا۔

اسی طرح سرکاری ٹھیکے دار سے لے کر مزدرو تک اپنے اپنے داؤ لگاتے ہیں اور ملکی وسائل کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر لوٹ رہے ہیں۔ لیکن سب کے سب محفوظ ہیں کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اخبارات کرپشن کہانیوں سے بھرئے رہتے ہیں مگر کسی کو سزا نہیں ہوتی جس سے دوسروں کو بھی حوصلہ ملتا ہے کہ اگر کوئی دوسرا نہیں پکڑا گیا تو ہم کیسے پکڑئیں جائیں گے۔

واپڈا والوں نے کرپٹ عناصر پکڑنے ہو تو روز درجنوں کے حساب سے پکڑئے جاسکتے ہیں ، مگر پکڑئے گا کون۔ لہذا کرپشن کا سارا بھار ملکی وسائل کو اُٹھانا پڑتا ہے یا پھر وہ معصوم شہری جو کرپشن کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اُن کو اُٹھانا پڑتا ہے۔
اب آتے ہیں گیس والوں کی طرف کہ جیسے ہی سردی آئی گیس کی لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی۔ حکومت کی طرف سے نئے میٹر لگانے پر پابندی لگی ہوئی ہے مگر آپ ہاتھ میں قائد کی تصویر والے چند کاغذ پکڑ لیں تو آپ کا میٹر فورا ہی لگ جائے گا۔

نہ قطار میں لگنے کی ضرورت نہ خوار ہونے کی گنجائش۔ بڑئے بڑئے ہوٹلوں میں گیس چوری کی جارہی ہے ،اور یہ سب ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ کیا ادارئے کے پاس ایک بھی ایسا کوئی سسٹم نہیں کہ ان چوروں کو پکڑ سکے۔ چوری اور کرپشن اگر اشتہاروں سے ختم ہونے لگتی تو دُنیا کہ بہت سے ملک ترقی کر چکے ہوتے۔ اخبارات اور ٹی وی پر لاکھوں روپے کے اشتہارات دیے جاتے ہیں کہ شائد اس سے چوری اور کرپشن رک جائے۔

تو بھائی اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے جو ہمارے کسی بھی ادارئے میں کرنے کا رواج موجود نہیں۔
اب تھوڑی بات ہو جائے ریلوئے کی ،جو کبھی افسانوں میں مرکزی حثیت کی حامل تھی، خواجہ صاحب نے ایک گرین ٹرین تو چلا دی ہے مگرکوئی ادارا تب تک ترقی نہیں کرتا جب تک اُس میں سے کرپٹ عناصر کی پخ کنی نہ کئی جائے۔ آپ اسٹیشن پر چلیں جائیں بلیک میں ٹکٹ مل جاتا ہے۔

آپ کسی اہلکار کو چند روپے پکڑائیں وہ کسی شریف آدمی کی سیٹ آپ کو دے دے گا۔ ریلوئے ورکشاپوں سے کروڑوں کا سکریپ غائب ہونا معمول کی بات ہے۔ کیا غائب کرنے والے عمرو عیار کی ٹوپی پہنے ہوتے ہیں کہ کسی کو نظر نہیں آتے۔ تو بھائی پاکستان کے مال کو اپنے باپ کا مال مت سمجھو اور غریب عوام تک بھی وسائل کے ثمرات پہنچنے دو۔
اسی طرح پی آئی اے کو دیکھ لیں اتنے لوگ بھرتی کر رکھے ہیں کہ پتا نہیں چلتا کہ مسافر کون ہے اور ملازم کون ہے۔

کتابوں میں پڑھا تھا کہ پی آئی اے نے بہت سے ملکوں کو ائیر لائین بنانے میں مدد فراہم کی تو حکومت کو چاہیے اب اُ ن ممالک سے درخواست کرئے کہ اب ہمیں مدد فراہم کی جائے کیونکہ ہمارے جہاز تو اُڑنے سے قاصر ہے۔ پی آئی اے کے جہاز سے اچھا تو ہمارے محلے کا کاشی جہازہے جو وقت پر لینڈنگ کرتا ہے اوروقت پر ہی اُڑان بھرتا ہے۔ تنخواہیں لینی ہو تو پی آئی اے کے تمام ملازمین ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ وہ وقت پر ملنی چاہیے جہاز بھلے ہی وقت پر نہ چلے ۔

اسی طرح ایک ایک کر کے ہمارے ملک کے تمام اداروں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ملکی ترقی انہی اداروں کی وجہ سے نظر آتی ہے جب یہ ادارئے کسی قابل نہ رہیں تو ملکی ترقی کسی کو نظر نہیں آئے گی، ویسے اس سے فرق بھی کوئی نہیں پڑتا عالمی برادری ہمارے بارئے میں کیا سوچتی ہے یہ سب کو پتا ہے۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر ملک میں خوشحالی لانی ہے تو سب سے پہلے بگڑئے نظام کو ٹھیک کرنا پڑئے گا دوسرئے کے مال کو اپنے باپ کا مال سمجھنے سے گریز کرنا پڑئے گا۔ ملک کے تمام باشندوں کو اپنا اپنا کام ایمانداری سے کرنا پڑئے گا، سیاستدانوں ،بیوروکریٹس، جج وکیل ،عرض سب کو ایک ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے ، یہ ملک ہے تو ہم ہیں اگر ملک نہ رہا تو غلامی ہمارا مقدر بن جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :