سانحہ صفورہ ، دہشت گردی کی سفاک واردت

پیر 18 مئی 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

اسماعیلی برادری کے بارے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سب سے پر امن اور نیک کیمونٹی ہے ان کے ہاتھ اور زبان سے کبھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ان کے فلاحی ادارے تعلیم اور صحت کے میدان میں ملک بھر میں مفت معیاری خدمات سر انجام دے رہے ہیں ایک آغا خان ہسپتال ہی مان نہیں جہاں ترقی یافتہ مملک کے ہسپتالوں جیسی سہولیات اور اعلی معیار کی میڈیکل کی تعلیم دی جاتی ہے جہاں سے فارغ التحصیل ڈا کٹر حضرات دنیا بھر میں نام کما رہے ہیں جبکہ وطن عزیز میں ، بلا رنگ و نسل و مذہب سب کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔

گزشتہ دنوں ان پر امن اور انسانیت کی خدمت کرنے والی کمیونٹی کی بس پر حملہ سفاکی اور بربریت کی انتہا ہے ، جس پر صف دکھ اور سوگ کا اعلان ہی کافی نہیں بلکہ حکومت کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ بس ، بہت ہو گیا اب نو مور۔

(جاری ہے)


کراچی سانحے کی ابتدائی معلومات کے مطابق ، دہشت گردی کی جو نئی ہولناک واردات ہوئی ہے۔ اس میں نشانہ ملک کی سب سے پرامن لیکن انتہائی بااثر اسماعیلی برادری کو بنایا گیا۔

اس خونریزی میں تینتالیس افراد مارے گئے۔کراچی سے چند کلومیٹر کی مسافت پر آباد الاظہر گارڈن کے رہائشیوں کی ٹرانسپورٹ بس معمول کے مطابق صبح تقریباً سوا نو بجے اس علاقے سے روانہ ہوئی تھی کہ چند منٹ کی مسافت پر تین موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح دہشت گردوں نے بس کے باہر سے فائرنگ کر کے ڈرائیور کو قتل کر دیا۔ اسی دوران بس رکنے پر تین دہشت گرد بس کے اندر داخل ہوئے اور انہوں نے دو بچوں کو الگ کرنے کے بعد بقیہ مسافروں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔

اس حملے میں بس میں سوار 60 میں سے 43 افراد مارے گئے، جن میں 16 عورتیں اور 27 مرد شامل ہیں۔ اس دہشت گردی میں 13 افراد گولیاں لگنے سے زخمی بھی ہوئے، جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ فائرنگ میں زخمی ہونے والے افراد میں سے ہی ایک شخص آہستہ آہستہ یہ بس چلا کر شہر کے میمن کمیونٹی ہسپتال تک لایا، جس کے بعد اس خوفناک حملے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔


عینی شاہدین کے مطابق دہشت گردوں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں جبکہ تفتیشی ماہرین کو جائے وقوعہ سے انگریزی اور اردو زبانوں میں لکھے گئے ایسے دھمکی آمیز پمفلٹ بھی ملے ہیں جن پر شام اور عراق میں سرگرم عسکریت پسندوں کی تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے مقامی حامیوں کی جانب سے اس طرح کے مزید حملوں سے خبردار بھی کیا گیا ہے۔پولیس نے اس واردات میں ملوث دہشت گردوں کی تلاش شروع کردی ہے اور مختلف ٹیمیں جائے وقوعہ اور حملے کا نشانہ بننے والی بس سے شواہد جمع کر رہی ہیں۔

تفتیشی ماہرین کے بقول اس حملے میں دہشت گردوں نے نو ملی میٹر کے پستول اور کلاشنکوف رائفلیں استعمال کیں۔
کراچی سانحے کا اعلٰی ترین سطح پر نوٹس لیا گیا ہے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنا دورہ سری لنکا ملتوی کر کے کراچی پہنچ گئے۔ اس موقع پر کراچی کے کور کمانڈر نے آرمی چیف کو اس واقعے کے بارے میں بریفنگ دی جبکہ وزیر اعظم نواز شریف کی بھی مککراچی پہنچ گئے ۔

تجزیہ کاروں کی رائے میں دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کی طرز پر کارروائی کی ہے، جس کا براہ راست اثر پورے کراچی اور پورے ملک پر پڑا ہے۔ کراچی کے تجارتی مراکز ویران ہیں، سڑکیں سنسان ہیں اور ہر شخص خوفزدہ ہے، خصوصاً مئی کے آغاز سے اب تک جس انداز میں دہشت گردی جاری ہے، وہ بالکل نئی اور مختلف طرح کی ہے۔ پہلے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کا بظاہر مقصد یہی نظر آتا تھا کہ پولیس اپنی نقل و حرکت میں محتاط ہو جائے اور دہشت گردوں کے لیے ایسی کارروائیاں کرنا آسان ہو جائے۔


دوسری جانب دنیا بھر میں اسماعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان نے اس سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح معصوم انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے، وہ انتہائی حد تک قابل مذمت ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اسماعیلوں کی بڑی تعداد پوری دنیا میں آباد ہے اور ان کا مسلم دنیا میں امن کے لیے کردار انتہائی اہم ہے۔


پاکستان میں اس سفاک دہشت گردانہ حملے کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید مذمت کی جا رہی ہے جبکہ کئی سیاستدانوں نے اس واقعے کو حکومتی نااہلی کا نام دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ جب حکومتی اداروں کو اس بات کی خبر تھی کے شہر کے حالات ٹھیک نہیں اور اسماعیلی برادری کی بس روزانہ یہاں سے گزرتی ہے تو پھر اس کی حفاظت سے غفلت کیوں برتی گئی؟۔

جبکہ دنیا بھر کے میڈیا نے اس واقعے کو نمایاں کوریج دیتے ہوئے اسے کمزوروں پر طاقت وروں کا حملہ قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔
پاکستان دہشت گردوں کی کمین گا بن چکا ہے اور دہشت گردوں کے نہتے پر امن شہریوں اور سیکورٹی پر مامور اداروں پر حملے معمول بن چکے ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ معصوم انسانوں کی جان جا چکی ہے اور زخمیوں کی تعداد کا بھی کوئی حد و شمار نہیں۔

سانحہ پشاور کے بعد بننے والے قومی ایکشن پلان کے بعد امید بندھی تھی کہ دہشت گردی کے عفریت سے نجات مل جائے گی مگر کمزور حکومتی پالیسیوں اور مخصوص افراد کے لے نرم گوشہ رکھنے کی پالیسی نے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھا دیئے ہیں اور انہیں خون کی ہولی کھیلنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
سانحہ کراچی ایک ایسا ہولناک واقعہ ہے جسے ٹھنڈے پیٹوں فراموش نہیں کرنا چاہیے حکومت کو اس ضمن سخت اور ٹھوس اقدامات اٹھانے ہونگے دوسروں کو مورد الزام ٹھرانے اور سازش تھیوری سے باہر نکل کر اپنی چارپائی کے نیچے جھانکنے کی ضرورت زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں پاکستان کا امیج ہر روز خراب بنتا جا رہا ہے یہاں لوگ سرمایہ کاری کرنے سے کترانے لگے ہیں جبکہ سیر و سیاحت کا تو تصور ہی محال ہو چکا ہے حکومت نے اگر دہشت گردی پر قابو پانا ہے تو اسے ریاست کی عملداری کو یقینی بنانا ہو گا اسے تمام گروہوں ،جتھوں اور جماعتوں پر ہاتھ ڈالنا ہو گا جو ملک کا امن و امان تباہ کرنے کے درپے اور معصوم انسانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیل رہے ہیں اگر ایسا نہ کیا گیاا ور ماضی کی طرح سوفٹ کارنر رکھا گیا تو پھر بھول جائیں کہ یہاں امن اور سکون کبھی قائم ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :