اپنے لئے ہم ہی بہت کافی ہیں!

اتوار 17 مئی 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

16 دسمبر 2014 ، آرمی پبلک سکول میں 140 بچوں کو سروں میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ 13 مئی2015 ، صفورہ گوٹھ کراچی میں 43 افراد کو بس میں گھس کر سروں میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ دہشت گردی کے مذکورہ اندوہناک واقعات میں قتال کے طریقہ کار میں واضح مماثلت پائے جانے کے باوجود اگرحکومت اور ریاستی ادارے اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں اور ‘را‘ اور ’معاشی راہداری‘ کے نام پر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کریں تو پھر عام آدمی آم کھائے آم اور اپنی باری کا انتظار کرے، کیونکہ:
میں جو آج زد پر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
موجودہ صورتحال میں بیچارے عام آدمی کو تو مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے کہ آم کھاؤ آم لیکن ریاستی ادارے اور حکومت تو یقینا ’را‘ نامی نسل کا آم ہی چوسنے میں مصروف ہیں!
پچھلے چند دنوں سے کراچی میں پکڑے جانے والے کئی جرائم پیشہ افراد کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ ملک کے غیر معمولی متشدد داخلی حالات ملک دشمن قوتوں کو انتہائی سازگار ماحول فراہم کر رہے ہیں جس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوششیں یہ قوتیں کر بھی رہی ہیں اورکرتی بھی رہیں گی۔بلاشبہ اس بات کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں!لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس میں مذہب و مسلک کے نام پر نہ صرف گروہ بندیاں موجود ہیں بلکہ ہر گروہ اپنے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر ریاست سے بر سرپیکار بھی ہے اور عام انسانوں حتی کہ معصوم بچوں کے قتال سے بھی گریز نہیں کرتا تو ایسی سنہری صورتحال سے ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کیوں نہ کریں؟ ان ملک دشمن عناصر کو زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ محض ان متفرق گروہوں کو کیل کانٹے سے لیس کرنا ہے اور بس! تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ’را‘ سے متعلق خبروں کو اس انداز سے پیش کیا جا رہا ہے جس سے یہ تاثر ابھرے کہ وطن عزیز میں ہر قسم کی ملک دشمن کاروائی کے پیچھے ’را‘ کا ہاتھ ہے۔ کیونکہ اس ملک کا دستور نرالا جبکہ سرکاری سچ پڑھ پڑھ اور سن سن کر پلی قوم الله میاں کی گائے سے بھی بڑھ کر سیدھی سادھی واقعہ ہوئی ہے تو ایسی تمام باتوں کو من و عن تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگاتی حالانکہ حقیقت میں اس بات سے بھی بے خبر و بے نیاز ہے کہ ’را‘ کن الفاظ کا مخفف ہے۔
پر قصور عوام کا نہیں بلکہ ریاست کا ہے۔ لیکن ریاست تو مجموعہ ہے زمین کے میسر ٹکڑے کا، ایسے افراد کا جو مل جل کر رہنا چاہیں، متفقہ قوانین اور حکومت کا۔ اس بنیاد پر قصور ریاست کا بھی نہیں بلکہ ریاست ساز اجزا کی کیمیا گری کا ہے۔ اگر اجزا مذہبی تفرقہ کی بھٹی میں پک کر وجود میں آئیں ہیں توریاست ایک متعصب اکائی کی صورت میں ارتقاء پذیر ہو گی۔پاکستانی ریاست کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ قراردادِ مقاصد کو پہلی قانون ساز اسمبلی میں ’را‘ نے نہیں ہم نے بذاتِ خود تخلیق کیا تھا۔ ریاستِ پاکستان کے مستقبل کی آئین سازی کے لئے مذہبی تعصب سے بھری بنیاد ’را‘ نے نہیں ہم نے خود فراہم کی تھی۔ ریاست کو مذہب کی بنیاد پر دہرے معیار اپنانے کا حق ’را‘ نے نہیں ہم نے خود دیا ہے۔ دو رخی ریاست اور اس کے تمام قوانین ’را‘ نے نہیں ہم نے خود تخلیق کیے ہیں۔ دہشت گردی کا بوٹا اپنے آنگن میں اپنے ہاتھوں سے سینچ کر تناور درخت بنانا ہمارا خود کا انتخاب تھا نہ کہ کسی ’را‘ کا۔ایسی صورتحال میں ریاست اقلیتوں اور کمزور فرقوں سے جو سلوک روا رکھتی ہے اس پر شکایت کرنا انہیں زیب نہیں دیتا۔ ان کے لئے فرض ہے کہ ہر صورت ریاست اور اکثریت کے شکر گزار رہیں ۔
یقینا ہمیں کسی ’را‘ کی ضرورت نہیں! اپنے لئے ہم ہی بہت کافی ہیں!
پاکستان میں دہشت گردی کی بنیاد مذہبی انتہاپسندی ہے جس کی اپنی وجوہات اور تاریخ ہے۔ ’را‘ کی کاروائیوں کو ان معاملات میں گڈ مڈ کرنا پاکستان کے مفاد میں ہر گز نہیں۔’را‘ اگر ریاست مخالف یا علیحدگی پسند عناصر کی پشت پناہی کرتی ہے تو قصور وار وہ تخلیق کردہ کمزور ریاست ہے جو اپنے شہریوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق فراہم کرنے میں گذشتہ 67 سالوں میں ناکام رہی ہے۔اسی طرح کی ایک ریاستی کمزوری 1971 میں بھی دیکھنے میں آئی تھی۔
پاکستان کو اپنا بچا کچھا وجود برقرار رکھنا ہے تو اسے حقیقتاٌ تبدیل ہونا پڑے گا۔قومی بیانیہ تبدیل کیے بغیر حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔ قومی بیانیے کی حقیقی تبدیلی اور ازسر نو تشکیل آئین میں بنیادی نویت کی تبدیلیاں کیے بغیر ممکن نہیں۔ بہر حال یہ ایک کٹھن مرحلہ ثابت ہو گا کیونکہ مذہبی انتہا پسندانہ سوچ معاشرے کے رگ و پے میں سرائیت کر چکی ہے۔ ملا ئیت سے جان چھڑانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔آج حالات اس نہج پر ہیں کہ مفتی صاحبان اپنے مفادات کے خلاف اور برائی کی جڑوں کی جانب اشارہ کرنے اور زباں ہلانے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں ایک پل کی دیر نہیں لگاتے۔ ایسی صورتحال میں امید ضرور رکھنی چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور قومی ایکشن پلان اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا اور پاکستان کو حقیقی تبدیلی کی راہ پر گامزن کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ امید اس لئے بھی رکھنی پڑے گی کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری راہ موجود نہیں۔ ایک منتخب حکومت ہے ، دوسرے ریاستی ادارے ہیں اور تیسری عوام ہے۔ یہی ریاست ہے اور اسی کو سدھارنے کی کوشش جاری رکھنا فرض ہے۔ یہی اقوام کا امتحان ہے۔ ایسے امتحان سے گزر کر ہی اقوام کامیاب ہوتی ہیں۔یورپ بھی ایسے وقت سے گزر چکا ہے جہاں کلیسے کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ کلیسا سیاسی اور عسکری امور پر حاوی تھا۔ اْس گھٹن زدہ دور سے یورپ کو نکلنے میں کئی صدیاں لگ گئیں صرف اور صرف ان افراد کی بدولت جو رجعت پسندی کے خلاف مسلسل نبرد آزما رہے ۔ لیکن جب اس دور سے چھٹکارا پا لیا تو صدیوں کے جان کن تجربے سے سیکھ چکا تھا کہ مذہب کا ریاستی امور سے کسی بھی قسم کا تعلق ہو ہی نہیں ہو سکتا۔مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے ریاست کا نہیں۔ پاکستان بھی ایسے ہی دور سے گزر رہا ہے۔بس ثابت قدم اس بات پر رہنا ہے کہ رجعت پسندی لاکھ کہے لیکن سچ یہی ہے کہ زمین اس وقت بھی سورج کے گرد گھوم رہی ہے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :