یہ بھیک نہیں آزادی ہے

جمعرات 7 مئی 2015

Sabookh Syed

سبوخ سید

تین مئی کو دنیا بھر صحافتی آزادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ ترقی یافتہ اقوام اس دن کو آزادی صحافت کا جشن مناتی ہیں جبکہ تیسری دنیا کے ممالک میں آزادی صحافت آج بھی ایک خواب ہے ۔ آزادی صحافت کا سادہ سا مطلب ہے کہ صحافی کسی قسم کے خوف ،دہشت ، لالچ ،ڈر اور دباؤ کے بغیر اپنی ذمہ داریاں غیر جانبداری کے ساتھ ادا کر سکیں ۔ یہاں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ صحافی اپنے لیے یہ آزادیاں کیوں چاہتے ہیں ؟ صحافی حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا ایک پل سمجھا جاتا ہے ۔

وہ حکومت تک عوام کے مسائل اور عوام تک حکومتی اقدامات پہنچانے کا ذریعہ ہوتا ہے ۔ اس طرح عوام اور حکومت کے درمیان صحافی رابطے کا ایک مؤثر ذریعہ اور پل بن جاتا ہے ۔ ریاست کے اندر جب کچھ طبقات ماورائے آئین و قانون سر گرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں تو ایک پیشہ ور صحافی معاملے کی اچھی طرح چھان بین کر کے اس کو اپنی خبر کا حصہ بناتا ہے ۔

(جاری ہے)

جب کوئی صحافی اس قسم کی سر گرمیوں کو رپورٹ کر تا ہے تو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھنے والے طبقات اپنی اصلاح کے بجائے اس صحافی کو ہی نشان عبرت بنانے کی کوشش کر تے ہیں ۔

وہ آئینہ دیکھ کر چہرہ صاف کر نے کے بجائے آئینہ توڑنے کی کوشش کر تے ہیں ۔عالمی صحافتی تنظیم کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل اور ان کی گرفتاریوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستانی صحافت نے ایک ایسا تاریک دور بھی دیکھا ہے جب صحافت کے لیے پریس کنٹرول جیسے کالے قوانین ،اخبارات کی بندش ، خبروں کو سنسر کرانے جیسے مسائل ہر وقت سامنے رہتے تھے ۔

اب ان مسائل میں بڑی حد تک کمی واقع ہو چکی ہے لیکن ایک ایسا ماحول وجود میں آ چکا ہے جس کی وجہ سے صحافی پہلے سے زیادہ خود کو قید اور خوف کے ماحول میں سمجھتے ہیں ۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے نئے دور کے ساتھ خطرات کی اقسام بھی نئی متعارف ہو رہی ہیں۔
کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سزا کے خوف کے بغیر صحافیوں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے۔

صحافت کے حوالے سے پاکستان کا شمار صومالیہ، شام اور برازیل کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں صحافیوں کو قتل کرنے والے دہشتگرد بغیر کسی خوف کے آزادانہ گھوم رہے ہیں ۔ انہیں سزا کا کوئی خوف نہیں ۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد دنیا بھر میں دہشتگردی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور دہشت گردی صحافت کے پیشے کے لیے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بن چکا ہے۔

رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرزکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا پر پابندی اور دباؤ کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور وہ صحافتی آزادی کے لحاظ سے دنیا کا 20 واں ملک بن چکا ہے۔ ورلڈ فریڈم انڈیکس 2013 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نئے انڈیکس میں 8 درجے تنز لی کے بعد 159 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واضح حکومتی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں میڈیا ورکرز کے تحفظ کا مسئلہ بدترین صورتحال کا شکار ہے ۔

اس تکلیف دہ صورتحال کے ساتھ ساتھ دوسری جانب پاکستان میں صحافیوں کو جرائم پیشہ افراد ،دہشتگرد تنظیموں ، خفیہ ایجنسیوں ، پولیس کی زیادتیوں ،سیاسی جماعتوں کے مسلح گروپوں اور کالعدم تنظیموں کے دباؤ اور خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے بیانات کی اشاعت پر پابندی لگائی جاتی ہے لیکن ان کالعدم تنظیموں کی جانب سے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیوں کا سامنا صحافیوں کو ہی کر نا پڑتا ہے ۔

جرائم پیشہ افراد کے ساتھ پولیس کے گٹھ جوڑ کرنے کی خبروں دینے پر پولیس صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کر دیتی ہے ۔ سماج دشمن عناصر کی جانب سے صحافیوں کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جانا اور لوٹ مار کرنا روز کا معمول بنتا جا رہا ہے۔
صحافیوں کو عسکری گروہوں ، کالعدم تنظمیوں اور ایجنسیوں کی جانب سے دھمکیوں، چھاپوں اور عزیز و اقارب پر حملوں سمیت اخبارات کے دفاترز پر پر تشدد حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔

ان پیشہ وارانہ مشکلات کے ساتھ ساتھ اداروں کے اندر بھی مشکلات کا سامنا ہے ۔ ویج ایوارڈ ،جبری برطرفیاں، تنخواہوں کی وقت پر عدم ادائیگی، سوشل سیکیورٹی اور بڑھاپے کی پنشن اسکیم ، فساد زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کے لیےحافظتی جیکٹ کی عدم فراہمی ،انشورنس ، ہلاکت کی صورت میں پسماندگان کی کفالت ، زخمی ہونے کی صورت میں علاج و معالجہ اور پیشہ ورانہ تربیت کا بندوبست نہ کرنے جیسے مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔

پاکستان میں غریب صحافی کے لیے تنخواہ کم ہے اور خطرات زیادہ ہیں ۔
ترقی یافتہ ممالک میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا گیا ہے کیونکہ اظہار رائے کی آزادی ہی مضبوط معاشر تی اقدار کی عکاس ہو تی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشروں میں بات کرنا اب مشکل ہو گیا ہے ۔ ہم ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ چکے ہیں جہاں مکالمے کے بجائے خود کلامی کا رواج پروان چڑھ رہا ہے ۔

لوگ اب خوف کی وجہ سے ایک دوسرے سے بات نہیں کر تے جس کی وجہ سے پورے ماحول میں گفت گو کے بجائے شور سنائی دیتا ہے ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں کس طرح گفت گو کی طرف مائل کرنے والے طبقات کو گولیوں کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے ۔
حالات کی سنگینی کا انداز ہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ نفرت انگیز مواد اخبارات میں چھپ رہا ہے اور ٹی وی اسکرین نفرت پھیلانے والے عناصر کی آماجگاہ بن چکی ہے ۔

مختلف لسانی ،مذہبی اور سیاسی عصبیتوں سے وابستہ افراد نے اپنے میڈیا ہاؤسز بنا لیے ہیں جو سماج میں مکالمے اور رواداری کی بنیادوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں ۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اداروں میں لوگوں کو لانچ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کے نتائج انتہائی خوفناک ہو سکتے ہیں ۔معلومات کی کمی اور متضاد سوالات کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں کو بعض گروہ انفرادی بریفنگز میں جلدی قائل کر لیتے ہیں اور یوں بعض اوقات کئی صحافی ان گروہوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں ۔

بعض اوقات صحافیوں کو جان کا خوف دلا کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں ان کے اہل خانہ کو مجبور کیا جاتا یے ۔ بعض صورتوں میں صحافی کو لالچ دیکر خرید لیا جاتا ہے اور بعض اوقات باز نہ آنے کی صورت میں صحافی کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بن جاتا ہے ۔ پاکستان میں گذشتہ بیس برسوں میں سو سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے اور ایسی خبر آج تک نہیں سنی گئی کہ ان کے قاتل کیفر کردار تک پہنچے ہوں ۔


ان تمام حالات کے باوجود بھی پاکستان میں صحافیوں نے جبر کے ہر ماحول اور ہردور میں آزادی اظہار کے لیے اپنی آواز بلند کی ہے . ابھی بھی بہت سا سفر باقی ہے ۔ پاکستان میں صنفی امتیاز کا خاتمہ ،آئین کی مکمل بالادستی ، جمہوریت اور جمہوری اداروں کا تحفظ اور معاشرتی آزادی کا حصول جمہوری معاشروں کی بنیادی قدر اور منزل ہے ۔پاکستان میں صحافت نے جو آزادی حاصل کی ہے ہو بھیک میں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی گئی بلکہ اس کے لیے مستقل مزاجی کے ساتھ ایک طویل جدو جہد کی گئی ہے ۔

اس کے لیے کال کوٹھڑیوں کو آباد کیا گیا اور اس کے لیے صحافیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جب جا کر کہیں جبر کا موسم بدلا ہے ۔ ویسے بھی مانگنے سے بھیک تو مل جاتی ہے آزادی نہیں ۔ جسمانی آزادی بھی اس وقت تک حاصل نہیں کی جا سکتی جب تک آپ ذہنی آزادی حاصل نہیں کر تے ۔ ذہنی آزادی ہی جسمانی آزادی کی بنیاد بنتی ہے ۔ معاشرے میں جبر اور خوف کی فضا کو ختم کر کے انسانوں کے لیے مساوات اور آزادی حا صل کرنے کے لیے ابھی بھی ایک طویل اور تیز جدوجہد کی ضرورت ہے ۔

آزادی انسان کا فطری حق ہے ۔
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اظہار رائے کی آزدای پر کیا نشان منزل ، حرف آخر اور قول فیصل جملہ کہا تھا کہ
"جب مائیں اپنے بچوں کو آزاد جنتی ہیں تو تم کون ہوتے ہو انہیں غلام بنا کر رکھنے والے "

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :