فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریبان چاک ہوئے

جمعرات 7 مئی 2015

Syed Kashan Haider Gilani

سید کاشان حیدر گیلانی

زرعی ماہرین اور معاشیات کا ادراک رکھنے والے لوگ اس بات کو مسلمہ حقیقت سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کا دارومدار زراعت پرمنحصر ہے اور زراعت کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی گردانا جاتاہے لیکن اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ٓاخر اس زراعت کی ریڑھ کی ہڈی کون ہے ؟ اس کا جواب دلچسپ اور سادہ ہے اور وہ ہے کسان۔مگریہ ریڑھ کی ہڈی دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔

وہ کسان جواپنے خون سے بے جان زمین میں بنی نوع انساں کے لئے برگ وبار کے ڈھیر اگاتا ہے، کاروبار حیات میں اپنی محنتوں کے رنگ جماتا ہے۔اپنے جسموں کو انتھک محنتوں کی کسوٹی پر رکھ کر دوسروں کو زندگی کا پیام سناتا ہے۔اس کے خون اور پسینے کی زکو ة خوراک کی صورت میں ثمر بار ہوتی ہے۔مگر اس بیج کو زمین کی رگوں سے شجر سایہ دار پہنچانے اور بنجر زمینوں سے شاخ وگل کو کھلانے تک یہ کیا قیمت اداکرتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کو ائیر کنڈیشنڈسے آراستہ پنج ستارہ ہوٹلوں کے کمروں میں بیٹھ کر نہیں سمجھا جاسکتا ۔اس فصل بہار کے پیچھے کتنی زندگیوں نے خزاں کا موسم جھیلا ہے اس کو گفتگو کے پیرہن میں نہیں ڈھالاجاسکتا ۔وہ کسا ن جو ہر وقت قدرت کے رحم و کرم پر رہتا ہے وہ اب کئی دوسری طاقتوں کے نرغوں میں پھنس چکا ہے۔قدرت اسے چھوڑ بھی دے تو انسانوں کے بنائے مصنوعی اصول وضوابط اسے چیرنے کیلئے تیار رہتے ہیں جب بھی وہ نئی فصلوں کا بیج امانت زمین کرتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کے ٓانگن میں کئی خواہشات ،توقعات اور خوشحالی کے خوابوں کو وابستہ کر لیتا ہے۔

کبھی بیٹی کی شادی کے روپ میں تو کبھی بیٹے کو اعلی تعلیم دلوانے کا خواب ، کبھی نیا گھر خریدنے کی خواہش تو کبھی قرض چکانے کی حسرت مگر وہ اس سب کا ربط تخیلاتی طور پر اچھی پیداوار اور اس سے ممکنہ ٓامدن سے جوڑرکھتا ہے۔ لیکن یہ سب خواب وہ تخیل کی زمیں میں موجزن رکھتا ہے اور اکثر و بیشتر ان خوابوں کی تعبیر اس کے بر عکس پاتا ہے۔پتہ چلتا ہے کہ پیداوار اگر زیادہ ہو بھی گئی تو اس سے کوئی معجزہ برپا نہیں ہونے والا کیونکہ پیداوار کی زیادتی بھی معاشی اصولوں کے مطابق جنس کے نرخ کو کم کر دیتی ہے۔

اگر پیداواری صلاحیت اور استعداد بڑھ بھی جائے تو کاروباری فنکاریوں اور ابلاغ کے پیچ و خم سے نا بلد کسان اپنی جنس سستے داموں بیچنے پر تیارہوجاتا ہے۔تقسیم ہند سے لے کر ٓاج تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں بہتری اور انقلاب کے فلک شگاف نعرے وردزبان رہے ۔زرعی ترقی اور سبز انقلاب بھی کانوں میں رس گھولتے رہے مگر کسان کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئی آج بھی کبھی وہ جعلی ادویات کا روناروتا ہے تو کبھی کھادکی قیمتوں کا،کبھی زمانے کی ستم ظریفی کاشکوہ کرتا ہے تو کبھی ارباب بست و کشاد کی مہربانیوں پہ نوحہ کناں۔

فہم کے دریچوں میں یہ بات دانتوں کو پسینہ دلواتی ہے کہ آخرکسان کو کس چیز کی سزادی جاتی ہے وہ کونسا جرم ہے جس کی پاداش میں اس کی نسلوں کا سکھ چھین لیا گیا ہے۔سردیوں کی یخ بستہ رات ہو یا گرما کی تپتی دھوپ ہو ، انسانیت کی خدمت میں سرگرداں یہ مخلوق آپ سے صرف اخلاقی ،معاشی ، معاشرتی اور انسانی ہمدردری کا مطالبہ کرتی ہے ۔زراعت صرف ایک پیشہ نہیں عبادت ہے اور جو لوگ اس سے وابستہ ہیں وہ اس عبادت میں ریا کاری سے پاک ہیں ۔

لہذا ان کی حالت زار پر شفقت فرمائیے اور جائز حقوق اداکیجئے تا کہ ہماری آنیوالی نسلیں ایسے دیار میں زندگی گزارسکیں جہاں اچھی خوراک اور بنیادی حقوق کی فراہمی اور فراوانی ان کا مقدر ٹھہرے ورنہ بہار تو ہر بار آئے گی مگر کتنے گریباں چاک ہوں گے اس کا اندازہ بساط قلم سے باہر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :