2025ء کا پاکستان

جمعرات 7 مئی 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

پاکستان لاالہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا یا نہیں یہ ایک بحث طلب موضوع ہے ۔ تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں میں پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔لاالہ اللہ کے نعروں کی صدائیں تاریخ حریت کے قرتاس پر اسلامیان ہند کی اسلام پسندی رقم کرتی رہی ہیں ۔ آج ہم کچھ بھی کہہ لیں اور کچھ بھی کر لیں اس میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں کہ پاکستان کی اساس مذہب اسلام ہی ہے ۔

پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں متعدد حکمرانوں نے اسلام پسندوں اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے رد وبدل کرنے کی کوشش کی مگر معمولی تغیرات کے ساتھ پاکستان کی اساس اور تشخص مذہب اسلام ہی رہا ۔ یہاں پاکستان کے زکر کو کچھ دیر کیلئے التوا میں رکھتے ہیں اور چند دیگر اسلام ممالک کے داخلی نظام اور مذہب اسلام کی موجودہ ہیت کو دیکھتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یہاں میں عرض کر دوں کہ ذیل میں جن ممالک کا ذکر کیا جا رہا ہے راقم کو ان تمام ممالک میں جانے اور وہاں کے نظام کو بچشم خود دیکھنے کا موقع میسر آیا ہے ۔
سب سے پہلے انڈونیشیا کی با ت کرتے ہیں انڈو نیشیا نے 1945میں ہالینڈ سے آزادی حاصل کی تھی۔ انڈونیشیا کی آبادی چھبیس لاکھ سے متجاوز ہے اس آبادی میں 89فیصد مسلمان جبکہ محض 11فیصد دیگر مذاہب شامل ہیں۔

اس ملک میں مسجد کی دائیں جانب شراب کی دوکانیں، بائیں جانب جسم فروش خواتین کا اڈا اوربلمقابل چرچ کا ہونا واجبی سے بات ہے ۔انڈونیشیاکے سب بڑے شہر جکارتہ میں تعمیر شدہ سب سے قدیم اور وسیع مسجد ،مسجد استقلال ہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ انڈونیشین حکمرانوں نے انڈونیشیا کا سافٹ امیج ظاہر کرنے کیلئے اس مسجد کے عین سامنے مسجد ہی کے برابر وسیع چرچ تعمیر کیا ۔

مارچ 2015 ء سے قبل شراب گلی محلوں کی دوکانوں سے بآسانی دستیاب تھی ۔ تقریباََ تمام پوش علاقوں میں نائٹ کلب موجود ہیں جہاں شراب نوشی اور ڈسکو ڈانس روزانہ کامعمول ہے ۔ انڈونیشیا میں مسجد کے خطیب کیلئے باریش ہونا لازمی نہیں ہے ۔خواتین حجاب ضرور اوڑھتی ہیں تاہم یہ مذہب سے زیادہ ثقافتی مسئلہ ہے ۔ انڈونیشیا میں جہاد اور قتال سے متعلق لٹریچر پر سخت پابندی عائد ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ مذہب اسلام کو مکمل تحفظ بھی حاصل ہے یہاں مدارس کی بہتات ہے اور دینی تعلیم کے حصول کی مکمل آزادی ہے ۔انڈونیشیا کے حوالے سے یوں سمجھ لیجئے کہ یہاں جس کا دل چاہے اسلامی شعار کو اختیار کرے اور جو چاہے اسلامی شعار سے بے اعتنائی اختیار کرے دونوں طرح کے لوگوں کو مکمل آزادی ہے ۔ اندونیشیا سے متصل ملائیشیا کا حال انڈونیشیا سے بھی جدید ہے ۔

یہاں میں عرض کر دوں کہ ملائیشیا میں اسلام کو بہت زیادہ تحفظ اور آزادی حاصل ہے اس کے ساتھ ساتھ یہی آزادی ہندؤں اور چائنیز اور دیگر شہریوں کو بھی حاصل ہے ۔ ملائیشیا میں بیک وقت بادشاہت اور جمہوریت قائم ہے ۔اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ بادشاہ اسلام کی بقا اور ترویج کیلئے کوشاں ہوتا ہے جبکہ جمہوری حکومت جدت اختیار کرتے ہوئے اپنے معاشرے اور شہروں کو بین الاقوامی معیار پر لانا چاہتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ کوالالمپور میں ڈسکو کلب اور قبحہ خانوں کو ہر قسم کی آزادی اور تحفظ حاصل ہے جبکہ بادشاہ کی قائم کردہ سیکیورٹی فورس کا کام ان شراب خانوں اور قبحہ خانوں سے مقامی مسلمانوں کو مستفید ہونے سے روکنا ہے ۔ ملائیشیا میں ایک ہی وقت پر اذان اور نماز ہوتی ہے ۔ کوالالمپور کے علاوہ بعض صوبوں میں اسلامی نظام نافذ ہے اوروہاں شراب پر پابندی عائد ہے ۔

ملائیشیا میں مذہبی تعلیم کیلئے مدارس کا جال بچھا ہوا ہے ۔ ملائیشیا کے بارے میں یہ سمجھ لیجئے کہ یہاں بھی ہر کسی کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے ۔ اگر ہم مڈل ایسٹ کے بعض اسلامی ممالک کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ بعض میں شراب فروشی پر پابندی جبکہ بعض کی معیشت شراب فروشی پر انحصار کئے ہوئے ہے ۔دوبئی میں ڈانس کلب اور شراب خانو ں کی بہتات ہے جبکہ ابو ظہبی میں شراب فروشی پر پابندی عائد ہے ۔

شارجہ میں شراب فروشی منع ہے جبکہ اجمان اور رائس الخیمہ میں جگہ جگہ شراب کی دوکانیں موجود ہیں ۔ مسقط میں بڑے بڑے ہوٹلوں میں شراب آسانی سے دستیاب ہوتی ہے تاہم ان ہوٹلوں کو یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ شراب ہوٹل کی اندر پینے کیلئے دی جائے نہ کی ساتھ لیجانے کیلئے ۔ لبنان اور قطر کا بھی یہی حال ہے یہاں بھی شراب نوشی پر آزادی ہے اور مساجد اور مدارس پر مکمل حکومتی کنٹرول ہے ۔

مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے ۔ یہاں بھی مذہب اورجدت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں بلکہ بعض ممالک میں اسلام اور اسلام پسندوں کو دبا کر رکھا گیا ہے اور ماڈرن ازم کو ملکی تشخص قرار دیا گیا ہے ۔
اب واپس پاکستان کی طرف آتے ہیں ۔پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے ۔ وزارت داخلہ کے اعداد وشمار کے مطابق سانحہ پشاور کے بعد اب تک 19000ایسے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن کا تعلق کسی بھی مذہبی کالعدم تنظیم سے تھا ۔

مساجد کے الاؤڈ سپیکروں کیلئے نئے ضابطے کا اعلان ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد کو یقینی بنا لیا گیا ہے ۔ مذہبی نوعیت کی وال چاکنگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ مذہبی انتہا پسندانہ لٹریچر کو مارکیٹ سے اٹھا لیا گیا ہے اور مزید کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ پیر عبدلقادر جیلانی  کی کتاب ”غنیة الطالبین“سمیت 120مذہبی کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔

تادم تحریر وفاقی محکمہ تعلیم کے تحت 18000 مدارس کی رجسٹریشن مکمل کر لی گئی ہے جبکہ باقی بچ جانے والے مدارس کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خوش آئند تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ اسلام آباد میں نظام صلاة کے تحت تمام مکاتب فکر کیلئے اذان اور نماز کا وقت یکساں کر دیا گیا ہے ۔ جہاد اور قتال کا عمل تو درکنار ان پر بات کرنے اور اظہار خیال کرنے پر بھی سخت قوانین وجود میں آچکے ہیں ۔

اب دوسری جانب دیکھئے وزارت داخلہ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کیلئے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ ہر شہری کو ایک بوتل شراب ساتھ لے کر چلنے کی اجازت ہے ۔اسی طرح صوبہ سندھ میں شراب نوشوں اور شراب فروشوں کو غیر علانیہ اجازت حاصل ہے ۔ کوئٹہ میں موجود انڈس بیوری کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم جتنی شراب تیار کرتے وہ تمام بلوچستان میں ہی فروخت ہوتی ہے ۔

صوبائی دارلحکومت لاہور میں مبینہ طور پر پولیس کو ہدایات دی گئی ہیں کہ پارکوں اور سیر گاہوں میں موج مستی کرنے والے مرد و خواتین کو ہراساں نہ کیا جائے ۔ یہی حال کراچی اور اسلام آباد کا ہے ۔ نجانے کیوں مجھے گمان گزرا ہے کہ 2020ء اور 2025کے درمیانی عرصہ میں پاکستان بھی انڈونیشیا،ملائیشیااور دیگر اسلامی ممالک کی طرح روشن خیال اور “اعتدال پسند“ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :