دو ہزار پندرہ الیکشن کا سال؟

جمعرات 7 مئی 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

تحریک انصاف کے کارکن این اے125اور پی پی155میں مبینہ دھاندلی کا فیصلہ آنے پر ایسے خوشی منارہے ہیں جیسے لاکھوں منتوں کے بعد کسی کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی ہو۔ہاں بھائی! خان صاحب کی اگست 2014ء میں شروع ہونے والی تحریک کے درخت پر پہلا پھل ہی تو لگا ہے،پہلا نتیجہ ہی تو سامنے آیا ہے،خوشیاں تو بنتی ہیں، دوسری جانب ن لیگی حیران تو ہیں لیکن احساس شرمندگی دکھائی نہیں دیتا فرماتے ہیں کہ بے ضابطگیاں ہوئیں دھاندلی تو نہیں ہوئی،یہ سب ریٹرننگ افسروں کی نااہلی ہمارا اس میں کوئی قصور نہیں،بات میں وزن ضرور ہے پر ٹی وی پر دیے گئے آپ کے بیانات کا کیا کریں جو آپ نے گلے پھاڑ پھاڑ کر دیے تھے کہ دھاندلی ثابت ہوئی تو ہم یہ کردیں گے ،وہ کردیں گے،خواجہ صاحب!”یہ“ اور ”وہ“ کا وقت آگیا ہے آپ کردیں تو شاید ن لیگ کی کچھ عزت بچ جائے۔

(جاری ہے)


دھاندلی تو ہوئی ہے چاہے وہ جس انداز میں بھی ہو۔اس کو جو عنوان بھی دے دیں،اسے بے ضابطگی کہیں،نااہلی کہیں یا کوئی اور نام دیں،اس کا فیصلہ جلد جوڈیشل کمیشن کی صورت میں آ جائے گا۔سندھ میں پیپلزپارٹی،کراچی میں ایم کیو ایم،خیبر میں خود تحریک انصاف اور پنجاب میں ن لیگ کے ملوث ہونے کا نام لیا جا رہا ہے،ظاہر ہے عام انتخابات بیس سو تیرہ ان پارٹیوں میں سے کسی نے نہیں کروائے،وفاقی اور صوبائی سطح پر تو نگران حکومتیں تھیں الیکشن کمیشن بھی آزاد تھا اور اس کا سربراہ بھی ایک بے داغ شخص تھا جس پر سب جماعتوں کا اعتماد بھی تھا۔یہاں قصور وار کون ہے؟
ہاں الیکشن کمیشن کا عملہ دھاندلی کروانے میں ملوث تھا اس کی مثال میں آپ کو اپنے حلقے این اے 156،پی پی 212اور 213میں ریٹرننگ افسروں اور دیگر عملہ کے کارناموں سے دیتا ہوں ان حلقوں میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں امیدوار ن لیگی تھے،ایک کو مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دیا اور دوسرا امیدوار آزاد تھا جو جیت کر ن لیگی بن گیا،پی ٹی آئی کا امیدوار تو تیسر ے نمبر پر رہا،ہمارے پولنگ اسٹیشن پر ریٹرنگ افسر آزاد امیدوار کے ایجنٹوں کے ساتھ ملا ہوا تھا ،جب دیکھا کہ آزاد امیدوار کے ووٹر ووٹ ڈال چکے ہیں تو ووٹنگ روک دی،گڑ بڑ کروانے کی بھی کوشش کی،یہ تو بھلا ہو پاک آرمی اور پولیس کا کہ وہ ایک فون پر وہاں پہنچے اور اضافی وقت دلا کر ووٹ کاسٹ کروائے،سانحہ بھی نہ ہوا اور ووٹنگ بھی ہوگئی، اسی طرح متعدد واقعات دوسرے پولنگ سٹیشنوں پر بھی ہوئے،رات دو بجے تک ن لیگ کا ٹکٹ یافتہ امیدوار جیت چکا تھا صبح پتا چلا تو ہارا ہوا تھا،ان حلقوں کا نتیجہ عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا ہے۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ پاکستان شدید قسم کی ”تبدیلی“کی لپیٹ میں ہے،کہیں مہاجر کی آوازیں سنائی دیتی ہیں،کہیں ”نیا پاکستان“تو کہیں ”انقلاب“کی بولی لگ رہی ہوتی ہے،اندرون سندھ میں ”روٹی،کپڑا اور مکان،، کی دکان سجی ہے،پارٹی سربراہ پر طرح طرح کے الزامات سے تابڑ توڑ حملے کیے جاتے ہیں،یقین دلانے کیلئے بزرگ ہستیوں،مقدس کتاب کی قسمیں بھی کھائی جاتی ہیں،پنجاب میں ترقی کے نام پر”لوہا “بک رہا ہوتا ہے،کہیں کہیں سے ”اسلامی انقلاب“ کی بھی آواز بھی آ جاتی ہے،بلوچستان علیحدگی کے نام پر بچارے پنجابی مزدوروں کو مار دیا جاتا ہے،دہشتگرد ہیں تو وہ اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے موقع کی تاک میں رہتے ہیں،سرحدوں پر توپوں کی گھن گرج،گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سنائی دیتی ہے،مشرق میں بھارت بھوکے بھیڑیے کی طرح حملہ آور ہے،جنوب مغرب میں افغانستان انتقام کی آگ میں سلگ رہا ہے،مغرب میں ایران پر جنگی جنون سوار ہوچکا ہے،صرف شمال مشرق میں چین کی سرحد محفوظ رہ گئی،پتہ نہیں یہ بھی کب تک محفوظ ہے۔
لگتا ہے حالات کسی اور رخ کی جانب گامزن ہیں،کہیں عمران خان کے دو ہزار پندرہ میں عام انتخابات کی بات سچ ثابت تو نہیں ہونے جارہی۔اگر جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ میں دھندلیوں،بے ضابطگیوں کا معاملہ عیاں ہوتا ہے تو پھر الیکشن پکے ہیں کیونکہ پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس اقتدار میں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہے گا،دو حلقوں کا جو فیصلہ آیا ہے یہ تو ٹیسٹ کیس ہے،الیکشن ٹریبونل کے اس فیصلہ میں بھی حکمت کا مظاہرہ کیا گیا ہے،بے ضابطگی کو ظاہر کیا گیا ہے دھاندلی کو نہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کی فتح کا اعلان کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا،بات دوبارہ الیکشن کی گئی ہے،اگر دوبارہ الیکشن ہوتا ہے تو کنٹونمنٹ کے انتخابات کو دیکھتے ہوئے ن لیگ کو ہی فتح کی نوید دکھائی دیتی ہے،عمران خان کی ایک بات سچ ثابت ہونے جارہی ہے کہ2015ء میں انتخابات ضرور ہونگے۔عام نہ ہوئے تو بلدیاتی تو ہونے ہی ناں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :