صحت اور زندگی !

منگل 5 مئی 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ڈاکٹر بن سویٹ لینڈ مشہور موٹیویشنل اسپیکر ہیں ۔وہ دنیا کے مختلف اداروں اور یونیورسٹیز میں کونسلنگ کے حوالے سے لیکچرز دیتے ہیں ۔ کونسلنگ کے حوالے سے ان کی کئی کتب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو کر فروخت ہو چکی ہیں ۔ وہ مشہور انگلش نیوز پیپرز میں ”میرج کلینک “ کے ٹائٹل سے سینڈیکیٹ کالم بھی لکتے رہے ۔ ان کی کتابیں i will, and i can. grow rich while you sleep اورlearn while you sleepفروخت کے عالمی ریکارڈ قائم کر چکی ہیں ۔

انہوں نے اپنی مشہور کتاب grow rich while you sleepمیں ایک واقعہ لکھا ہے ۔ایک مزدور اپنی جوانی میں بڑا کڑیل اور سخت جان تھا ، ساری زندگی محنت کرتا اور گھر چلاتا رہا ۔کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا نہ بھیک مانگی ،محنت سے انکار کیا نہ سستی کا شکار ہوا۔ لیکن یہی مزدور جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو حالات یکسر بدل جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

وہ خود کو کمزور محسوس کرنے لگتاہے ، محنت کی عادت جاتی رہتی ہے ۔

ہر وقت ذہنی دباوٴ اور جسمانی تھکاوٹ ، کام کرنے کو دل نہیں چاہتا ، کاہلی اور سستی ، ہاتھ پاوٴں بوجھل اور مایوسی کی طویل رات۔ در اصل وہ مزدورہمت ہار چکا تھا ، وہ سمجھتا تھا کہ انسان صرف ساٹھ سال تک ہی بھرپور زندگی گزار سکتا ہے ۔ اب وہی مزدور جو تین تین دن مسلسل محنت کر نے کا عادی تھا اب تین گھنٹے بھی محنت نہیں کر سکتا تھا ۔ گھر میں فاقے ہوئے تو بیوی پریشان ہو گئی ، بیوی نے اس کا عجیب حل نکالا ، وہ ٹاوٴن کمیٹی کے آفس گئی اپنے خاوند کی جعلی پیدائش پرچی بنوائی اور اسے لا کر دکھائی کہ تمہاری اصل عمر ساٹھ نہیں پچاس سال ہے ، دراصل تمہاری پیدائش کے وقت ٹاوٴن کمیٹی کے کلر ک سے غلطی ہو گئی تھی جس سے تمہاری عمر پچاس کی بجائے ساٹھ ہو گئی ۔

خاوند نے اس پر یقین کر لیا اور کچھ ہی دنوں بعد وہ دوبارہ محنت کر نے لگا ،وہ خود کو بالکل ٹھیک اور تندرست محسوس کر رہا تھا ، چلنے پھرنے میں کو ئی دشواری تھی نہ محنت کرنے میں اور اب و ہ واقعی خود کو پچاس سالہ نوجوان محسوس کرتا تھا۔
انسان کی سوچ اس کی صحت، عمر ، اس کے حالات اور اس کے مستقبل کا تعین کرتی ہے ۔ انسان وہی ہوتا ہے جو وہ سوچتا ہے اور یہ تو حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں میر ابندہ میرے متعلق جو گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہوں ۔

در اصل یہ بچپن ، جوانی اور پڑھاپاکچھ نہیں ہوتا انسان کی اصل عمر وہی ہوتی ہے جو وہ محسوس کرتا ہے ۔ انسانی صحت کا انحصار اس کی مثبت سوچ پرمنحصر ہوتا ہے ۔ زندگی سے وہی لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو اس سے لطف اندوز ہو نا چاہتے ہیں اور جو زندگی کو بوجھ سمجھتے ہیں یہ بوجھ انہوں نے خود بنا یا ہو تا ہے ورنہ زندگی بذات خود نرم و نازک اور معصوم ہے ۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ صحت کے حوالے سے ہماری ذہنی اپروچ ٹھیک نہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہسپتال بنا کر ، اچھی میڈیسن کھا کر اور مہنگا علاج کروا کر صحت مند اور تندرست رہ سکتے ہیں حالانکہ جتنا پیسا ہم ہسپتال بنانے ، میڈیسن خریدنے اور علاج کروانے پر لگا تے ہیں اس کا دس فیصد اگر ہم اپنی خوراک پر لگائیں ، صحت کے حوالے سے کتابیں پڑھیں تو ہم ذیادہ صحت مند اور لمبی عمر پا سکتے ہیں ۔

ہمارا المیہ ہے کہ اول تو ہمارے ہاں صحت کے حوالے سے کتابیں چھتی نہیں اور اگر چھپتی ہیں تو وہ محض سرسری اور غیر معیاری ہوتی ہیں ۔ چند دن پہلے صحت کے حوالے سے ایک کتاب نظر سے گزری جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ کتاب واقعی اس خلا کو پر سکتی ہے ۔ جمہوری پبلیکشنز کی طرف سے شائع ہو نے والی ”صحت ہی زندگی ہے “صحت کے حوالے سے بہترین کتاب ہے اور اس کتاب کے مطالعے سے آپ اپنی صحت کی حفاظت بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔

کتاب کا جمہوری پبلیکشنز کے تحت شائع ہونا بذات خود اس کے معتبر ہونے کی دلیل ہے۔ فرخ سہیل گوئندی نے برٹرینڈرسل کے اس جملے سے کہ ”دنیا کے بڑے کاموں میں سے ایک کام کتابیں شائع کرنا ہے “اشاعت کے میدان میں قدم رکھا تھااور وہ بڑی مہارت اور خوبصورت انداز میں اس ”بڑے کام “ کو سرانجام دے رہے ہیں ۔کتاب کے مصنف ڈاکٹر ایس اے خان ہیں جو گزشتہ کا فی عرصے سے ہالینڈ میں مقیم ہیں ۔

بقول مصنف وہ دنیا کے مختلف ممالک میں صحت کے حوالے خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور اب ان کی دلی تمنا تھی کہ وہ اپنی ان خدمات اور ریسرچ کا نچوڑ اپنے پاکستانی بھائیوں کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ اپنے ملک اور قوم کے لیئے اپنے حصے کا کام کر جائیں ۔ مصنف نے کتاب کا انتساب دکھی انسانیت کے نام کر کے اپنی خلوص نیت کا اظہار کیا ہے ۔کتاب کے چند اقتباسات ملاحظہ کریں ۔

” چینی کہاوت ہے اگر آپ ننانوے برس تک زندہ رہنا چاہتے ہیں توہر کھانے کے بعد سو قدم چہل قدمی ضرور کیا کریں ۔ انسانی دل ایک پمپ کی مانند مسلسل کام کرتاہے ، دل کے دائیں حصے میں خون داخل ہو تا ہے اور بائیں حصے سے نکل جاتا ہے ، دل یہ عمل دن میں ایک لاکھ مرتبہ دہراتا ہے اور اس عمل میں اٹھارہ ہزار لیٹرخون شامل ہوتا ہے ۔ جو آدمی ورزش نہیں کرتا ایک منٹ میں اس کی نبض ورزش کرنے والے شخص سے تقریبا بیس دفعہ ذیادہ دھڑکتی ہے ۔

جو لوگ مرچ مصالحے والی غذا کھاتے ہیں وہ ذیادہ جذباتی اور غصے والے ہوتے ہیں ۔چینی اور مٹھاس ہمارے دانتوں کے لیئے نقصان دہ ہے اس لیئے چائے ، کافی ، دودھ ، لسی ، ملک شیک وغیرہ بغیر چینی کے پیئں۔ چہرہ اندرونی صحت کا عکس ہوتا ہے یعنی کسی کا چہرہ دیکھ کر آپ اس کی صحت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ زندگی وہی ہے جو آپ خود بنا تے ہیں ۔ بقول سقراط خوراک دوائی ہے اور دوائی خوراک ہے ۔

آپ وہی ہیں جو آپ کھاتے ہیں یعنی ہم جو کھاتے ہیں وہ ہماری صحت اور زندگی ہر ضرور اثرا نداز ہوتا ہے ۔ جیسے ایک عمارت پتھر، اینٹ ، لکڑی ، سریا ، بجری اور پانی کا مجموعہ ہوتی ہے اسی طرح انسانی خوراک بھی کاربوہائیڈریٹس ، پروٹین ،فیٹ ، وٹامنز ، معدنی ذرات اور معدنی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے ۔ پروٹین کو انسانی جسم میں وہی حیثیت حاصل ہے جو عمارت میں اینٹ کی ہوتی ہے ۔

وٹامن انسانی خوراک کا اہم جزء ہے اور اب تک بیس وٹامنز دریافت ہو چکے ہیں جو ہماری خوراک میں پائے جاتے ہیں ۔ لہسن کا استعمال دنیا کی قدیم تہذیبوں سے چلا آ رہا ہے اور اس میں انسانی صحت اور تندرستی کے بہت اہم راز پوشیدہ ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ قیصر کے دور حکومت میں ایران میں فوجیوں کو کچا لہسن دواکے طور پر دیا جا تا تھا۔ انیسویں صدی میں برٹش آرمی اپنے فوجیوں کو کچا لہسن کھانے کے لیئے دیتے تھے۔

ادرک کا اصل دیس انڈیا ہے جہاں سے یہ چین لے جایا گیاوہاں سے یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ “
صحت مند زندگی گزارنے اور لمبی عمر پانے کا بہترین طریقہ ہے کہ ہم مناسب خوراک کھائیں ، ورزش کا معمول بنائیں ، مثبت سوچ اپنائیں اور خوش رہنا سیکھ لیں ۔خوشی میں تو سب خوش رہتے ہیں مصائب میں الجھ کر خوش رہنا اصل زندگی ہے ۔ زندگی گزارنے اورزندگی جینے میں بڑا فرق ہے ، گزر تو سب کی جاتی ہے لیکن زندگی جینے والے خوش نصیب بہت کم ہوتے ہیں اورزندگی جینے کا فن ایسی کتابیں پڑھنے سے ہی آتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :